• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق 64ہزار ارب روپے کے لگ بھگ معیشت پر واجب الادا قرضے2025ءمیں 93ہزار ارب روپے تک پہنچ جانے کے اندازے ہیں جس سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔وزیراعظم شہباز شریف نئی حکومت کے ان تین ہفتوں میں کئی بار اس حوالے سے اپنی تشویش ظاہر کرچکے ہیں۔جمعرات کے روز ہونے والے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں انھوں نے آئندہ سخت فیصلوں کا بوجھ عام آدمی کی بجائے اشرافیہ پر ڈالنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔اس کے پیچھے جن معاشی فیصلوں کا عمل دخل ہے ان میں آئی ایم ایف سے حاصل کیے جانے والے نئے قرضے کی مزید شرائط سرفہرست ہیں۔وزیراعظم اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ درپیش صورتحال پر انتہائی سنجیدگی سے غوروخوض کر رہے ہیں اور قومی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا خصوصی اجلاس اسی سلسلے کی کڑی ہے۔وزیر اعظم نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کو اہم پلیٹ فارم قرار دیا جبکہ ملکی سلامتی اور ترقی کیلئے وفاق اور صوبوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت اجاگر کی۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہے اور غریب آدمی اس میں الجھ کر رہ گیا ہے جبکہ بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بغیر معیشت کو مضبوط نہیں بنایا جاسکتا۔وزیراعظم نے اجلاس کے شرکا کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذ کرات سے آگاہ کیااور معیشت کی بحالی کیلئے اپنی معاشی ٹیم کا پلان بھی ایس آئی ایف سی کے سامنے رکھا۔اس موقع پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے معاشی اصلاحات کیلئے محفوظ ماحول کی فراہمی یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے قومی معیشت کے بہت سے پہلوئوں پر روشنی ڈالی تاہم ان کے خطاب کا بڑا ہدف ٹیکسوں کی وصولی میں اصلاحات اور ملک میں سرمایہ کاری لانے پر رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے بنیادی اصلاحات اور ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں نہ کیں اور ایف بی آر کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز نہ کیا تو معاشی اہداف کا حصول مشکل ہوجائے گا۔وزیر اعظم کے بقول رواں مالی سال کیلئے محصولات کی وصولی کا ہدف 9کھرب روپے ہےجنھیں 14کھرب ہونا چاہئے۔وزیراعظم نے اس موقع پر ایف بی آر کے نا دہندگان کے کلیموں کا حوالہ بھی دیا جن کی مالیت 2.7کھرب روپے بنتی ہے ، ان میں سے ایک کھرب کے کیس متعلقہ عدالتوں میں زیرسماعت ہیں،وزیراعظم کے مطابق اگر ہم 1300ارب روپے بھی وصول کرلیں تو یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔وزیراعظم کے اٹھائے گئے اس نکتے کے حوالے سے وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ بھی دوروز قبل عدالتی معاملات کی رفتار تیز کیے جانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔اگرچہ آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں اور اگلے ماہ ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی قسط ملنے کا امکانات روشن ہوگئے ہیں تاہم وزیراعظم کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ یہ ہماری منزل نہیں بلکہ ہمیں ملک میں معاشی استحکام لانا ہے۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ معیشت کو حالیہ دگرگوں صورتحال تک پہنچانے میں بنیادی کردار ٹیکسوں کے کمزور اور غیرمنصفانہ نظام کا ہےجس کا اندازہ لگانے کیلئے یہ اعدادو شمار کافی ہیں کہ ایف بی آر کے دائرے میں آنے والے افراد کا محض 33فیصد حصہ ٹیکس دے رہا ہے جبکہ یہ شرح سو فیصد تک پہنچ جانے کا یہ اندازہ غلط نہیں ہونا چاہئےکہ اس منظر نامے میں پاکستان معاشی طور پرمضبوط بن کر ابھرے گااور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے توسط سے ملک کی برآمدی صنعت وتجارت میں تیزی آئے گی اور اصلاحات کی بدولت محصولات میں نئے اہداف کا حصول یقینی ہوگا۔

تازہ ترین