• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو 23 مارچ ہے ، 1956 میں آج کے دن پاکستان نے اپنا پہلا آئین منظور کیا تھا اور انگریزکے بنائے ہوئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935سے جان چھڑوائی تھی،اسی لیے 23 مارچ کو ہم یوم جمہوریہ کہتے تھے کیونکہ یہ دن ہمارے جمہوری سفر کے آغاز کی نشانی تھا،لیکن بھلا ہو خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا جنہوں نے اِس کا نام تبدیل کرکے یومِ پاکستان رکھ دیا کیونکہ ایک چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کے دور میں یوم جمہوریہ منانا ایسا ہی ہوتا جیسے کسی Misogynistکا عورت مارچ میں شرکت کرنا۔ ہمارے بچے اسکولوں میں یہی پڑھتے ہیں کہ 23مارچ کوچونکہ قرارداد لاہور منظور ہوئی تھی (جو کہ درست بات ہے ) اِس لیے ہم یومِ پاکستان مناتے ہیں ، انہیں یہ کوئی نہیں بتاتاکہ یومِ جمہوریہ سے یوم ِ پاکستان کے سفر کے دوران اِس مملکت پر کیا قیامت ٹوٹ گئی!

پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 1949 میں ایک قرارداد منظور کی جسے قرارداد مقاصد کہتے ہیں ، انڈیا نےاپنی قراردادِمقاصد پنڈت نہرو کی نگرانی میں 1946 میں ہی تیار کر لی تھی جبکہ ہم نے اسے بانی پاکستان کی رحلت کے بعد منظور کیا ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قرار داد مقاصد کی ضرورت کیوں پیش آئی ،کیا یہ قرار دادہی ہمارے مسائل کی بنیادی جڑ ہے اور اگر یہ قرار داد آئین کا حصہ نہ ہوتی تو کیا آج ہمارا حال پھر بھی یہی ہوتا جیسا کہ ہے ؟انڈیا نے بھی ہماری طرح قرار دادِ مقاصد منظور کی تھی مگر کانگریس چونکہ سیکولر جماعت تھی لہٰذا اُس قرار داد کا رنگ سیکولرتھا ، اُس میں یہ نہیں لکھا تھاکہ بھارت کوہندو دھرم کے صدیوں پرانے جمہوری اور رواداری پر مبنی اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ پاکستان کو یہ قرار داد پیش کرنے کی ضرورت اِس لیے محسوس ہوئی کہ ہم نےایک علیحدہ ملک ہی اِس بنیاد پر حاصل کیا تھا کہ ’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ ‘ یعنی ہم ایک علیحدہ قوم ہیں، ہندو اکثریت کے ساتھ نہیں رہ سکتے لہٰذا مسلم اکثریتی علاقوں میں اپنا اسلامی نظام قائم کرکے دنیاکو دکھائیں گے۔اگر ہماری قرار داد بھی کانگریس کی طرح سیکولر ہوتی تو اعتراض اٹھتا کہ علیحدہ ملک بنانے کی کیا ضرورت تھی، کانگریس بھی تو وہی کہہ رہی ہے جو مسلم لیگ کہہ رہی ہے ،پھر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کیوں بنائی !اِس اعتراض کا جواب قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر میں مل جاتا ہے ، یہ تقریر ہی اصل میں قرار داد مقاصد ہے ، یہ آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں کی گئی ، بانی پاکستان کی اِس تقریر کے بعد آئین ساز اسمبلی کے پاس یہ گنجائش ہی نہیں تھی کہ وہ قائد کی تقریر میں بیان کردہ اصولوں سے انحراف کرکے اُن کی وفات کے بعد کوئی ایسی قرارداد منظور کرتی جس کی حمایت میں کسی غیر مسلم رکن نے ووٹ نہیں دیا۔اگر بانی پاکستان کہہ رہا ہے کہ ہندو اور مسلم کا مذہب اُس کا ذاتی معاملہ ہوگا اور ریاست کا اُس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا اور پوری آئین ساز اسمبلی ڈیسک بجا کر اُس کی تائید کرتی ہے تو دو سال بعد کوئی ایسی قرار داد پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی جو مسلم اور غیر مسلم اراکین کے درمیان باعث نزاع بنے۔

اِن تمام باتوں کے باوجود یہ کہنا کہ قرار داد مقاصد ہی ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے ، نا مناسب بات ہے ۔یہ درست ہے کہ اِس قرار داد نے مذہبی پیشواؤں کو ایک قسم کا قانونی جواز فراہم کر دیا کہ وہ مذہب کی آڑ میں جب چاہیں کسی بھی قانون سازی کے خلاف فتویٰ دے دیں یا ریاست کویرغمال بناکر مفلوج کردیں ،مگر کیا یہ محض قرارداد مقاصد کی وجہ سے ممکن ہوا؟ میرا دیانتدارانہ جواب ہے کہ نہیں ۔ دلیل کے لیے پیش ہے انڈیا کی مثال جہاں سیکولر قرارداد مقاصد منظور کی گئی مگر اِس کے باوجود انڈیا کی اقلیتیں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ غیر محفوظ ہیں اور مودی کا انڈیا اب سیکولر نہیں ہندو ہوچکا ہے ۔اِس سے یہ پتا چلتا ہے کہ محض قرارداد مقاصد منظور ہونے سے بھارت یا پاکستان کے مسائل پیدا یا حل نہیں ہوئے بلکہ اُن کی وجہ کچھ اور تھی ۔پاکستان کے معاملے میں یہ مسائل اُس وقت گمبھیر ہونا شروع ہوئے جب عوام سے اُن کا حق حکمرانی چھینا گیا ، یہ مسئلے کی وہ بنیادی جڑ ہے جس کی وجہ سے آج بھی ہم یومِ پاکستان کو یومِ جمہوریہ نہیں کہہ سکتے۔ اگر قرارداد مقاصد منظور نہ ہوتی تو کیاآج ہمارا حال مختلف ہوتا؟ میری رائے میں شاید ہمارا حال پھر بھی ایسا ہی ہوتا کیونکہ خرابی کی اصل جڑ وہی حق حکمرانی پر ڈاکہ ہے ،1958 میں جب ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کیا گیا تو اُس دن سے آج تک ہم سنبھل نہیں پائے۔انڈیا نے یہ مسئلہ پیدا ہی نہیں ہونے دیا ،ملک بننے کے بعد پنڈت نہرو 17 برس تک زندہ رہے جبکہ قائد اعظم کی وفات ایک سال بعد ہی ہو گئی ۔ہم کچھ بھی کہہ لیں، لیڈر بہرحال قوم کے لیے ضروری ہوتا ہے ،قائد اگر چند برس زندہ رہتے تو نہ قرار داد مقاصد اِس شکل میں منظور ہوتی اور نہ ہی عوام سے اُن کا حق حکمرانی چھیننا اتنا آسان ہوتا۔

ہم تاریخ پر ماتم تو کر سکتے ہیں مگر اسے تبدیل نہیں کر سکتے۔مطالبہ پاکستان کی بنیاد پر ہی قرار داد مقاصد منظور کی گئی ،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے ، یہ آئین کا حصہ ہے اور اسے تبدیل کرنا اب تقریباً نا ممکن ہے ، لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا کیاجاوے؟یہاں مجھے معروف امریکی قانون دان Learned Hand یاد آگئے ، انہوں نے کہا تھا کہ (مفہوم) لوگ آئین ، قانون اور عدالتوں سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں ، یہ ایک قسم کا ڈھکوسلہ ہے،انصاف اور آزادی کی شمع انسان کے دل میں جلتی ہے ، اگر یہ بجھ جائے تو پھر چاہے جیسا مرضی آئین بنا لیں، کوئی بھی قانون نافذ کردیں، عدالتوں کی عمارتیں تعمیر کرکے وہاں جج بٹھادیں ، اِس سے فرق نہیں پڑے گا۔قرار داد مقاصد پر بعینہ یہی بات منطبق ہوتی ہے ،آپ اسے آئین کا حصہ رہنے دیں یا حذف کردیں، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،بالکل اسی طرح جیسے مودی کے انڈیا کو اِس سے فرق نہیں پڑ رہا کہ اُن کی قرار داد مقاصد میں کیا لکھاہے ۔میری رائے میں بانی پاکستان کی 11 اگست کی تقریر کے بعدقرار داد مقاصد منظور کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن اب یہ آئین کا حصہ ہے تو ہم اِس پر یہ تنقید تو کرسکتے ہیں کہ اِس کی وجہ سے مذہبی پیشواؤں کوریاست کو بلیک میل کرنے کا قانونی جواز مل گیا مگر اِس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں پھر عوام کے حق ِحکمرانی پر فوکس کرنا پڑے گا اوریہ سوچنا ہوگا کہ ہم آخر یومِ پاکستان کو یوم جمہوریہ والی اصل شکل میں کب اور کیسے واپس لا سکتے ہیں!

تازہ ترین