• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی اگر بات کی جائے تو اُن کی کامیابیوں کا تذکرہ مکمل کرنے کیلئے الفاظ بہت کم ہیں ۔کوئی ایسا میدان نہیں کہ جس میں اِن ممالک نے اپنی فتوحات کے جھنڈے نہ گاڑ ے ہوں ۔تعلیم، صحت اور سائنس سمیت ہر طرح کے عُلوم و فنون پر اِن کا بلا شرکت غیرے راج ہے۔ نت نئی ایجادات کے انبار نے انسانی عقل و دانش کو ورطہء حیرت میں ڈال رکھا ہے، سمندر کی تہوں سے لے کر آسمان کی بلندیوں تک مغربی ممالک نے مکمل دسترس حاصل کر رکھی ہے ان کی تحقیقی کاوشوں، سائنسی مُشاہدات اور تجربات کا سلسلہ پیہم جاری ہےاور روزبروز تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے ۔یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اِ ن ممالک کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا آخر راز کیا ہے؟ وہ بھی تو ہماری طرح کے انسان ہیں مگر وہ دن بدن ترقی و خوشحالی کی منازل برق رفتاری سے طے کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہم روز بروز ابتری اور بدحالی کاطوق گلے میں ڈالے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی کامیابیوں کی وجہ یہ ہے کہ اِن ممالک نے سب سے پہلے تعلیم و تربیت کی اہمیت کو جانتے اور مانتے ہوئے اِس پر بے پناہ توجہ دی، ہر شعبہ کے لئے پڑھے لکھے اور تجربہ کار ماہرین تیار کیے،تحقیق کے عمل پر خاص توجہ دی گئی ، شفاف ترین نظام ہائے حکومت بنائے گئے۔بعض ممالک میں بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا راستہ بند کرنے کیلئے موت کی سزا مقرر کی گئی، یہی وجہ ہے کہ آج ان ممالک میں کوئی کرپشن کا تصور بھی نہیں کر سکتا، اِن ممالک کے لوگ جھوٹ نہیں بولتے، فراڈ نہیں کرتے، دھوکہ نہیں دیتے، ملاوٹ نہیں کرتے، جعلسازی نہیں کرتے، اگر کسی کی کوئی لاٹری لگ جائے تو وہ سارا پیسہ خوشی خوشی کسی فلاحی ادارے کو دے دیتا ہے، وہ لوگ دوسروں کے حقوق کا بے حد خیال کرتے ہیں، اخلاقی تقاضے اور ملنساری بھی اُن پر ختم ہے، راہ گزرتے لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراہٹ کا اظہار کرتے ہیں بات بات پے تھینک یُو اور آئی ایم سوری اُن کا تکیہء کلام ہے،وقت کی پابندی اُن پر ختم ہے وعدہ پورا کرنا کوئی اُن سے سیکھے، بات کا پورا کرنا اُن کا خاصہ ہے وہ لوگ دوسروں کی زندگی اور معاملات میں دخل نہیں دیتے۔ حرص، طمع اور لالچ کا ان کو پتہ ہی نہیں،یہ خوبیاں اُن میں اسلئے نہیں ہیں کہ وہ اسے کوئی دینی فریضہ سمجھتے ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ اچھائیاں تعلیم و تربیت اور سماجی و معاشرتی ماحول کی وجہ سے اُن کی عادت، طبیعت اور مزاج کا حصہ بن چکی ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کی اکثریت اپنے اپنے دینی احکامات سے لاعلم ہے اور کوئی زیادہ پیروکار بھی نہیں جبکہ دوسری جانب ہم سب اپنے پیارے اور سچے دین کے پیروکار ہیں، ہمارا دین بلا شبہ ایک مکمل ضابطہء حیات ہے جو کہ ہمیں جوتا پہننے تک کے اصول اور آداب سکھاتا ہے اور ہم دین کے احکامات کی پیروی کرنے کے دعویدار بھی ہیں، جھُوٹ نہ بولنے کا حکم ہمیں ہمارے دین نے دیا ، فراڈ، دھوکے، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی سے ہمیں منع کیا گیا ، لالچ، حسد، کینہ، بُغض اور حِرص سے ہمیں باز کیا گیا ، دوسروں کو اپنی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رکھنے کا حکم ہمیں ملا ، جائیدادیں بنانے اور مال و دولت کے پیچھے بھاگنے سے ہمیں منع کیا گیا، دوسروں کی عزت اور جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ہم پر عائد کی گئی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم ان میں سے کون سے حکم اور فرمان پر عمل کر رہے ہیں؟ کس قدر بدقسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ جھوٹ، دھوکہ اور فراڈ ہماری پہچان بن چکا ہے، عیاری، مکاری، چالاکی اور چالبازی ہماری عادت بن چکی ہے، ملاوٹ اور فریب کو ہم کامیاب کاروبار کی ضمانت سمجھتے ہیں، اشیاء خورو نوش اور ادویات ملاوٹ کے بغیر ملنا ممکن ہی نہیں بغیر ملاوٹ کے دودھ کا ایک قطرہ تک دستیاب نہیں، حِرصِ دنیا اور طمعء ما ل میں ہم اپنی آخرت سمیت سب کچھ ہی بھُول چکے ہیں زیادہ سے زیادہ مال کے حصول کی دوڑ اور مقابلے نے ہمارے معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ جائیدادیں بنانا ہی ہے تعلیم حاصل کرنے کا حکم بھی ہمیں ہی دیا گیا تھامگر ہم مادہ پرستی میں مشغول و مغلوب ہو کر رہ گئے ہیں،درحقیقت علم ہماری میراث تھا، محمد ابنِ موسیٰ الخوازمی الجبرا کا ماہر ، جابر بن حیان کیمسٹری کا ماہر، ابن سینا طب اور فلسفہ کا ماہر،ابُو نصر الفارابی میوزک اور فلسفہ کا ماہر ،ابنِ اسحاق الکندی فلسفہ کا ماہر، ابنِ الحشام فلکیات کا ماہر، ابنِ خُلدون تاریخ کا ماہر، ابنِ ظہر طب کا ماہر، عمر خیام ، ناصر الطوسی، ابو بکر الراضی اور البیرونی سمیت ایک لمبی فہرست مسلمان شُہرئہ آفاق ماہرین کی ہے کہ جن کا علم اور تجربہ آج بھی سائنسی اصولوں اور قواعد کی بنیا دہے اور ان کی گرانقدر خدمات ہماری تاریخ کے ماتھے کا جھُومرہیں بس پھر ہم آہستہ آہستہ تعلیم اور علوم سے دور ہوتے چلے گئے اور اقتدار و اختیار کے پجاری اور رسیاء بنتے چلے گئے، علم کو چھوڑ کر دنیا کے پیچھے بھاگنے کے عمل نے آج ہمیں دنیا سے صدیوں پیچھے کر دیا ہے ہمارے دین کے احکامات کو دنیااور اغیار نے اپنالیا اور وہ کامیا ب و کامران ہو گئے اور ہم نے اپنے دین کے بتائے ہوئے رَستے سے بھٹک کر اپنی دنیا و آخرت دونو ں کو خراب کر لیا ہے۔

تازہ ترین