• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر 13 سال بعد قومی سلامتی پالیسی تیار کر لی گئی ہے جس کا بڑا مقصد ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہے ۔ اس دوران چار حکومتیں آئیں مگر کسی نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ ایک واضح سیکورٹی پالیسی بنائی جائے۔ موجودہ پالیسی تیار کرنے کیلئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بڑی محنت سے کام کیا اور تمام اداروں سے رائے لی لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ پالیسی صرف سویلین حکومت کی ہی نہیں بلکہ اس میں تمام سیکورٹی ادارے بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ پالیسی حتمی نہیں ہے اس میں تبدیلیوں کی گنجائش موجود ہے اور وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ وہ ممبران پارلیمنٹ کی تجاویز کو اس میں شامل کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔تاہم اپوزیشن کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ یہ پالیسی واضح نہیں ہے۔ لیکن اگر اسے غور سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہ بات چیت کا راستہ اختیار کرنے والے شدت پسند گروپوں سے مکالمہ ہوگا اور جو محض کشت و خون کرنا چاہتے ہیں ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ پالیسی میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا نہ ہی اس کی ضرورت تھی۔ افواج پاکستان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جہاں مناسب سمجھیں شدت پسندوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کریں جیسا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے کیا جارہا ہے۔ طالبان کے تمام گروپ نہ تو بات چیت چاہتے ہیں اور نہ ہی کشت وخون جاری رکھنا۔ لہٰذا حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان دونوں میں فرق ملحوظ رکھا جائے گا۔ مختلف گروپوں کی مختلف پالیسی ہونے کی وجہ ان کے اندرونی اختلافات ہیں جو کہ ایک لحاظ سے سیکورٹی اداروں کیلئے فائدہ مند ہیں۔ حکومت نے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ طالبان پاکستان سے اس وقت تک بات چیت نہیں ہوگی جب تک وہ سیز فائر کا اعلان اور اس پر عملدرآمد نہ کریں۔ مگر ابھی تک ٹی ٹی پی اس بات پر ایسا کرنے کو تیار نہیں ۔ پچھلے چند روز میں طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹرز نے جو مختلف قبائلی علاقوں میں بمباری کی ہے اور بہت سے دہشتگردوں کو ہلاک کیا ہے جس سے ٹی ٹی پی کو خاصا دھچکا لگا ہے ۔ بمباری کا اس کے پاس کوئی توڑ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اہم طالبان کمانڈر عصمت اللہ شاہین کی موت بھی کوئی چھوٹا نقصان نہیں ہے۔نیشنل سیکورٹی پالیسی میں تجویز کیا گیا ہے کہ مشترکہ انٹیلی جینس ڈائریکٹریٹ قائم کیا جائے گاجو ملک کی 26 خفیہ ایجنسیوں کے درمیان کوآرڈی نیشن کرے گا تاکہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کو مربوط اور موثر بنایاجاسکے۔ یہ بہت اچھی تجویز ہے مگر اس کو عملی جامہ پہنانا اتنا ہی مشکل ہے۔ خفیہ اداروں کی ایک اپنی دنیا ہے جس میں وہ کسی قسم کی مداخلت پسند نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی تمام معلومات دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ وزیر داخلہ کیسے ان تمام ایجنسیوں کو مائل کریں کہ وہ ایک چھتری کے نیچے رہ کر کام کریں۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ شدت پسندی کے مقابلے کے لئے سب سے بڑا کردار آئی ایس آئی کا ہے اور اگر چاہیں تو دوسرے ادارے بھی اس کام میں خاصا حصہ ڈال سکتے ہیں تو یقیناً کارکردگی یقیناً بہتر ہوسکتی ہے۔ حکومت نے انٹیلی جینس بیورو (آئی بی) کو کافی مضبوط کیا ہے اس کا کردار خصوصاً کراچی میں ٹارگٹ کلرز ، بھتہ خوروں ، اغواء برائے تاوان کے مجرموں اور مافیاز کے خلاف بہت موثر ہے جس کی وجہ سے سندھ رینجرز اور کراچی پولیس بڑی کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ قومی سلامتی پالیسی میں نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا ) کو فعال کرنے کا عزم بھی کیا گیا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ یہ ادارہ کئی سالوں سے قائم ہے مگر یہ صرف ایک عضو معطل ہے۔ نہ ہی اس کے پاس کوئی اسٹاف ہے اور نہ ہی فنڈ۔ نیکٹا پچھلی حکومت کے دوران بنایا گیا اور جھگڑا اس بات پر رہا کہ کیا یہ وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ماتحت ہوگا یا وزارت داخلہ کے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ عبدالرحمٰن ملک نیکٹا کو اپنی وزارت کے تحت ہی مضبوط کرنا چاہتے تھے مگر وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس کے خلاف تھے جس کی وجہ سے ایک قومی ادارہ اپنی اہمیت کھو گیا۔ اب آٹھ ماہ بعد وزیر داخلہ نیکٹا کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت سوائے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) یا صوبائی حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کی تیاری میں کچھ حصہ نہیں ڈالا۔ چوہدری نثار نے ان سب سے تجاویز مانگی تھیں۔ اگر ہم مختلف سیاسی رہنمائوں کے لمبے چوڑے بیانات دیکھیں تو ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وہ شدت پسندی کے بارے میں بڑے پریشان ہیں مگر جب تجاویز دینے کی بات آئی تو وہ اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صحیح انداز میں اپنا ہوم ورک نہیں کرتے تاکہ مربوط سفارشات دے سکیں۔ ایم کیو ایم نے تجاویز دیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر مسئلے پر کافی عرق ریزی کرتی ہے۔ دیگرتمام سیاسی جماعتوں کو اسی طرح اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ صوبائی حکومتوں خصوصاً خیبر پختونخوا(جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے)کو چاہئے تھا کہ وہ قومی سلامتی پالیسی کی تیاری میں اہم تجاویز دیتیں۔ وزیراعلیٰ پرویزخٹک کا یہ کہنا کہ وفاقی حکومت نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا مگر جب وزیر داخلہ نے ان سے سفارشات مانگی تھیں تو انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنی تجاویز ضرور دیتے۔ یہ ان کا ہی صوبہ ہے جو شدت پسندی سےسب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور ہو رہا ہے لہٰذا انہیں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ اسی طرح سندھ حکومت (جوکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی ہے) کو بھی چاہئے تھا کہ وہ بہت سی سفارشات وزیر داخلہ کے حوالے کرتی۔ اگر تمام بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتیں اور صوبائی حکومتیں اپنی تجاویز دیتیں اور اگر ان کو سیکورٹی پالیسی میں شامل نہ کیا جاتا تو وہ اس سیکورٹی پلان کو مسترد کرنے میں حق بجانب ہوتیں مگر جو کام ان کے کرنے کا تھا انہوں نے نہیں کیا اور جب چوہدری نثار نے سیکورٹی پالیسی تیار کرلی تو پھر اس میں کیڑے نکالنے جیسی باتوں کوکسی طور پردرست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش میں خاصی پیشرفت کی وجہ سے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کافی پریشان ہیں بظاہر ان کے ارد گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ لہذا وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں یا دہرا رہے ہیں جو کہ آئین اور قانون کے خلاف ہیں مثلاً ان کا یہ کہنا کہ اگر حکومت ملٹری آپریشن کیلئے پاکستان آرمی کا ساتھ نہ دے تو آرمی کو مارشل لاء لگا دینا چاہئے کو کوئی بھی ذی شعور سیاستدان یا پاکستانی نفرت کی نگاہ سے ہی دیکھتا ہے۔ ایک طرف انہوں نے کراچی میں جلسہ منعقد کر کے سیکورٹی فورسز اور پولیس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تو دوسری طرف انہوں نے مارشل لاء کا مطالبہ کر دیا۔ ساری کوشش یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح آرمی کو خوش کیا جائے تاکہ جو دو نوجوان لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے فوراً بعد براستہ سری لنکا کراچی پہنچے تھے اور جن کو پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا کو اسکاٹ لینڈ یارڈ کے حوالے نہ کیا جائے کیونکہ اگر ایسا کر دیا گیا تو قتل کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا جائے گا۔ مگر لگ یوں رہا ہے کہ بالآخر حکومت ان ملزمان کو اسکاٹ لینڈ یارڈ کے حوالے کر ہی دے گی اصل پریشانی ہی یہی ہے۔
تازہ ترین