• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب ثمینہ خاور حیات جیت چکی ہے مگر اس جیت کے لئے اسے طویل عرصہ لڑنا پڑا، وہ لڑتی رہی، اس نے ہار ماننے سے انکار کردیا، اس کا ایک ہی نعرہ تھا’’میں سچی ہوں اور سچائی کا علم بلند کر کے رہوں گی‘‘۔ ہماری سیاست میں دلیر اور دبنگ خواتین بہت کم ہیں، ثمینہ خاور حیات بے باک، نڈر، دبنگ اور بہادر خاتون ہے۔ قصور کی رہائشی ثمینہ خاور حیات نے 2002ء میں مسلم لیگ ق جوائن کی، اس وقت چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، انہوں نے اس با صلاحیت خاتون کو ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن بنایا۔

2008ء کا الیکشن ہوا تو ثمینہ خاور حیات پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی کی رکن بنی، وہ اسمبلی کے اندر اور باہر طاقتور اور توانا آواز کے طور پر سامنے آئی، اس نے اپنی صلاحیتوں سے حکومت کی ناک میں دم کیا تو اس وقت کے صوبائی وزیر قانون اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو ثمینہ خاور حیات کا وجود کھٹکنے لگا، سو انہوں نے اس آواز کو دبانے کے لئے سیاسی حربے کے طور پر یہ الزام لگایا کہ ثمینہ خاور حیات کی ڈگری جعلی ہے، مقصد صرف ایک تھا کہ اسے الجھا کر رکھ دیا جائے، سو اس وقت کی حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی، حکمرانوں نے اس بہادر خاتون کو سیشن کورٹ اور الیکشن کمیشن میں الجھائے رکھا پھر یہ الجھن ہائی کورٹ پہنچ گئی، یہ لڑائی 2008 سے 2012 تک انہی تین فورموں پر جاری رہی پھر 2013ء آ گیا ، 2013ء میں پارٹی نے ثمینہ خاور حیات کو پھر سے پنجاب اسمبلی کی رکن بنایا مگر اب کی بار سیاسی مخالفین مزید طاقتور ہو چکے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس دور میں ایک چیف جسٹس صاحب کو سو موٹو ایکشن لینے کا بڑا شوق تھا، ان صاحب کا رویہ بھی خاصا جانبدارانہ تھا، سو انہوں نے سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے جولائی 2013ء میں ثمینہ خاور حیات کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر نا اہل قرار دے دیا، اس دوران سیاست کی وادی میں وفا نبھانے والی یہ خاتون کہتی رہی کہ میری ڈگری اصلی ہے، جعلی ڈگری صرف الزام ہے مگر جب سب چیزیں طے ہو چکی ہوں تو پھر کون کسی کی سنتا ہے؟ ثمینہ خاور حیات نے ہمت نہ ہاری، اس نے لڑنے کا فیصلہ کیا، سو موٹو ایکشن چیلنج کر دیا، تاریخیں پڑتی رہیں، کئی مرتبہ یہ کیس دبایا گیا مگر اس خاتون نے حوصلے کو ٹوٹنے نہ دیا۔ 2013ء سے لے کر 2024ء تک پورے گیارہ سال لگ گئے، ان گیارہ برسوں میں ثمینہ خاور حیات اعلیٰ ترین عدالت کو بتاتی رہی کہ میری ڈگری سچی ہے، اصلی ہے، جعلی نہیں، میرے سیاسی مخالفین جھوٹے ہیں، میں ان کی الزام تراشی بھگت رہی ہوں۔ گیارہ برسوں کے بعد ثمینہ خاور حیات کی جیت پر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کو کہنا پڑا کہ ازخود نوٹس کی بنیاد پر نا اہلی ہو ہی نہیں سکتی، یہ لارجر بینچ کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا تھا، سو ثمینہ خاور حیات پر لگنے والا الزام غلط ثابت ہوا اور ان کی ڈگری سچ ثابت ہوئی۔ آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ میں نے یہ موضوع کیوں چنا؟ اس سے اہم موضوع کیا ہو سکتا ہے کہ محض جھوٹ کی بنیاد پر کسی شخصیت کا راستہ گیارہ برس کے لئے روک دیا جائے، زندگی کے ان قیمتی گیارہ برسوں کا حساب کون دے گا اور پھر ان گیارہ برسوں میں اس کی شہرت کو جو نقصان پہنچا، اس کا ازالہ کون کرے گا لیکن یہاں ایک سوال بڑا اہم ہے کہ ثمینہ خاور حیات پر جعلی ڈگری کا الزام لگانے والوں کو کیا سزا ملی؟ ایک شخصیت خود کو سچا ثابت کرنے کے لئے گیارہ برس دھکے کھائے اور اس پہ الزام لگانے والوںپر کوئی آنچ بھی نہ آئے، آخر انصاف کے تقاضے کیا ہیں؟ ثمینہ خاور حیات اپنی قیادت کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑی رہی مگر قیادت نے بھی اس بہادر خاتون کو نظر انداز نہ کیا۔ پارٹی نے ثمینہ خاور حیات کو دو مرتبہ ایم پی اے بنایا، جب چوہدری پرویز الٰہی ڈپٹی پرائم منسٹر بنے تو وفاق میں اس بہادر خاتون کو پروڈکشن اور انڈسٹریز کی چیئرپرسن بنایا گیا۔ 2021ء میں چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے ثمینہ خاور حیات کو وزیر اعلیٰ کا مشیر بنا کر جیل خانہ جات کا محکمہ دیا، جس طرح اس خاتون نے پارٹی اور قیادت کے ساتھ وفا نبھائی، پارٹی نے بھی اس کا بھرپور صلہ دیا۔ اب ثمینہ خاور حیات پی ٹی آئی کا حصہ ہیں، وہ عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی کو اپنا سچا لیڈر مانتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ’’میرے لیڈر بزدل نہیں، وہ بہادری سے جیل کاٹ رہے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں بہادر لیڈروں کو ماننے والی ہو کر بزدلی دکھاؤں۔ میں ہر موڑ پر اپنے لیڈروں کے ساتھ وفا نبھاؤں گی، وہ مجھے جدوجہد میں پیچھے نہیں پائیں گے‘‘۔ ہماری سیاست میں ابن الوقت بہت ہیں، چڑھتے سورج کے پجاری بھی بہت مگر ثمینہ خاور حیات جیسے وفادار بہت کم ہیں، ہمیں اپنی سیاست میں وفاداروں کی قدر کرنی چاہئے، بے وفاؤں سے تو بازار بھرے پڑے ہیں۔ بقول ڈاکٹر قمر تابش

کوئی صورت تیری صورت سے ملے بھی آخر

میں نے کھنگالا ہے اس شہر کا چہرہ چہرہ

تازہ ترین