تہران ایک خوبصورت شہر ہے۔ جس طرح لاہور میں مینار ِپاکستان ہے اسی طرح تہران میں برج ِآزادی ہے۔ دونوں مقامات زیادہ تر جلسوں کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ یادگار پاکستان بہت اونچا مینار ہے مگر آزادی ٹاور نہ تو بہت بلندہے اور نہ ہی مینار کی طرح ہے۔ اس کےدو طرف بڑی محرابوں والے راستے ہیں اور دو طرف چھوٹی محرابوں والے۔ اس کے ڈیزائن میں قدیم ایران، اسلامی ایران اور جدید ایران تینوں کے خدوخال رکھے گئے ہیں۔ ایران کے ٹی وی چینلز پر تہران سے آنے والی ہر بڑی خبر کے پس منطر میں یہی دکھائی دیتی ہے۔ پچھلے دنوں ایران میں ہمارے پاکستانی سفیر محمد مدثر ٹیپو نے یوم پاکستان اور نو روز کے تہواروں کے موقع پر اسے پاکستانی اور ایرانی پرچموں میں لپیٹ دیا۔ بہت ہی شاندار ویڈیو میپنگ کی گئی۔ آزادی ٹاور سہ جہتی لائٹنگ سے اس طرح منور کیا گیا کہ پاکستانی اور ایرانی پرچم بن گئے۔ مدثر ٹیپو ابھی کچھ ہی ماہ ہی ہوئے ہیں ایران میں سفیر مقرر ہوئے ہیں مگر پاکستان اور ایران کے درمیان تعلق کی نئی بلندیاں سامنے آنے لگی ہیں۔ ابھی جب دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کےسبب پاکستان اور ایران میں کشیدگی پیدا ہوئی تو انہوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ ایران وہ ملک جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا مگر پھر بھی ہمارے درمیان اتار چڑھائو کے کئی دور آئے اور گئے۔ جس میں بھارت کا خصوصی کردار رہا ہے۔ مجھے ایران، ترکی اور پاکستان کی تنظیم آر سی ڈی یاد آرہی ہے۔ جس کے تحت تینوں ممالک نے مشترکہ طور پر ڈاک ٹکٹ جاری کیے تھے جن پر شاہ ایران، مصطفی کمال اتاترک اور محمد علی جناح کی تصاویر لگائی گئی تھیں۔ یہ تنظیم انیس سو چونسٹھ میں بنائی گئی تھی، انیس سو پچاسی میں اسے اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (ای سی او) میں بدل دیا گیا، اس میں افغانستان، آذربائیجان، قازقستان، کرغزستان، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اس تنظیم کے تحت پاکستان ایران کی امداد سے 813کلومیٹر طویل ہائی وے این پچیس بنانےمیں کامیاب ہوا تھا۔
ایران میں پاکستانی سفارت خانہ بہت معیاری کام کر رہا ہے۔ ابھی پچھلے یوم اقبال بہت شاندار تقریب کی گئی۔ پاکستانی ایمبیسی نے فارسی زبان میں علامہ اقبال پر بیس منٹ کی انتہائی شاندار ڈاکو مینٹری بنوائی جو ایران کے سرکاری چینل پرآن ائیر ہوئی۔ اس سلسلے میں پاکستانی سفارت کار فرحت جبیں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ اب آتے اس موضوع پر جو برسوں سے ہمارے تعلق میں کاٹنے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ وہ ہے امریکہ اور ایران کے تعلقات کی خرابی۔ امریکہ ایک طویل عرصہ سے پاکستان پر دبائو ڈال رہا ہے کہ پاکستان کو ایران سے کسی طرح کا کاروباری تعلق نہیں رکھنا چاہئے۔ پاکستان نے اپنے طور بڑی کوشش کی کہ امریکہ اور ایران کے مراسم اس درجہ خراب نہ ہوں مگر معاملہ سلجھ نہ سکا۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ امریکہ کی وجہ سے عرصہ دراز سے التوا میں پڑا تھا مگر اب ہمارے لئے ممکن نہ تھا کہ اسے اور التوا میں ڈالتے۔ سو پاکستان نے اس پر کام شروع کر دیا اور امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں لگانے کی دھمکی بھی دے دی۔ اگرچہ بھارت ایک عرصہ سے ایران کے ساتھ بزنس کر رہا ہے اور چین نے بھی وہاں بہت بڑ ی انسوسٹمنٹ کی ہے مگر امریکہ کو شاید صرف مسئلہ ہم سے ہے۔ پاکستان سفارتی طور پر پوری کوشش رہا ہے کہ امریکہ اس مسئلہ میں رکاوٹ نہ بنے مگر امریکہ ہماری بات مان نہیں رہا یعنی پاکستان امریکہ کے مراسم میں پھر سے تلخی پیدا ہونے والی ہے۔ابھی جب پاکستان نے ایران گیس پائپ لائن کے سلسلے میں امریکی پابندیوں سے استثنیٰ کی کوشش کی تو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے روزانہ کی بریفنگ میں امریکہ کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ امریکہ کہہ چکا ہے کہ وہ پاکستان اور ایران پائپ لائن منصوبے کی حمایت نہیں کرتا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ہم نے پاکستان کو تقریباً 4 ہزار میگاواٹ صاف توانائی کی صلاحیت دی ہے۔ ہمارے منصوبوں کے سبب پاکستان کی بجلی کی صلاحیت میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے اور لاکھوں پاکستانیوں کے گھروں کو بجلی فراہم ہو رہی ہے۔ یہ خبر ہم عام پاکستانیوں کیلئے نئی ہے، ہمیں اس بات کا کوئی پتہ نہیں کہ ہم نے امریکہ کی مدد سے کونسے بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹ لگائے ہیں۔ یقیناً لگائے ہونگے امریکی ترجمان غلط بیانی سے کام تو نہیں لے سکتا۔ پاکستان نے امریکی دبائو میں ایران کے ساتھ کاروباری مراسم تقریباً ختم کر دئیےہیں مگر ہم گیس پائپ لائن سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے کیونکہ دوسری صورت میں ہمیں جرمانے کے طور پر ایران کو اٹھارہ ارب ڈالر دینا پڑیں گے۔ پہلے یہ منصوبہ ایران، پاکستان، انڈیا گیس پائپ لائن پراجیکٹ تھا مگر بعد میں انڈیا ’سکیورٹی تھریٹس‘ کا بہانہ بنا کر اس منصوبے سے باہر نکل گیا۔ اصل میں انڈیا چاہتا تھا کہ پاکستان ایران سے گیس کی قیمت پہلے طے کرے اور اس کے بعد اس پر کام ہو لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیا جس کے بعد انڈیا نے اس منصوبے میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ بہرحال یہ طے ہے کہ پاکستان اور ایران کے ثقافتی، مذہبی اور لسانی رشتے اتنے قدیم اور مضبوط ہیں کہ انہیں کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ میں آخر میں محمد مدثر ٹیپو کو ان کی اعلی ٰکارکردگی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔