• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان سے قبل امرتسر سے سیالکوٹ کے ایک دیہات چٹی شیخاں سے زندگی کے سفر کا آغاز کرنے والے ایم طفیل ( پا جی ) رمضان المبارک کے مقدس مہینے 22 رمضان المبارک کو تین سال قبل 2021میں رحلت فرما گئے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ زندگی کے ابتدائی ایام سے آخر تک کا سفر والد محترم نے انتہائی ایمانداری اور سادگی سے طے کیا جہاں انہیں دنیاوی علوم پر دسترس حاصل رہی وہیں دینی علوم پر بھی انہیں کمال کی دسترس تھی ہمیشہ سنت رسول کے پابند رہے ،محنت اور لگن ہی کو انہوں نے اولین ترجیح دی ،زمانہ طالب علمی کا دور چٹی شیخاں کے پرائمری سکول اور بعد ازاں گود پور میں ہائی سکول سے ہوتے ہوئے مرے کالج تک پہنچے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں پڑھانے کا بھی شوق تھا جو انہیں ضلع خوشاب میں واقع جوہر آباد لے گیا اور وہاں انہوں نے تدریس کے فرائض سرانجام دئیے۔ مسلسل محنت اور مزید تعلیم حاصل کرنے کی جستجو انہیں لاہور لے آئی اور یہیں سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سب سے اس وقت کے مشہور زمانہ روزنامہ کوہستان سے اپنی عملی صحافت کا آغاز کیا جو زندگی کے آخرتک روزنامہ جنگ سے وابستہ رہتے ہوئے اختتام پذیر ہوا۔ روز صبح سویرے آٹھ بجے سے پہلے تیار ہو کر دفتر جا نے کیلئے بے تاب رہتے، عمر کے آخری حصے میں بھی جب کہ ملک میں کرونا کی وبا شدید تھی وہ دفتر جا نے کیلئے ہمیشہ بے تاب ہوتے اپنے کام سے عشق کی حد تک انہیں جنون تھا۔ صبح نماز فجر سے پہلے قرآن مجید کی تلا وت ان کی زندگی کا معمول تھا ۔رات گئے جاگنے کی بجائے جلد سو جا تے ،اپنی ساری زندگی میں میں نے انہیں سنت رسول اور اللّٰہ کے احکام کی پاسداری کر تے ہوئے ہی دیکھا انسان بشر ہے غلطیوں کا پتلا ہے۔ نہ نجا نے کہاں اور کس موڑ پر کیسے غلطیاں کر بیٹھے کوئی ذی شعور اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ مگر پھر بھی والد صاحب مرحوم نے ہمیشہ عاجزی و انکساری کو اپنائے رکھا دنیا وی زندگی کے معاملات میں ان کی دلچسپی ہمیشہ سے نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان کا اللّٰہ پر توکل بہت زیادہ تھا اپنی وفات سے قبل انہیں جب اچانک ہسپتال لے جانا پڑا تو وہ ایمر جنسی وارڈ میں بھی سارا د ن یہی کہتے رہے کہ یا اللّٰہ رحمت کا مہینہ ہے رحم کر تکلیف کے آثار ان کے چہرے پرعیاں نہ ہوئے، اسی طرح سارادن ہسپتال میں رہنے کے بعد شام کو روزہ افطار کے بعد انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور انتہائی دردمندانہ الفاظ میں کہا کہ میں نے گھر جانا ہے ان کے یہ الفاظ آج بھی میرے دل میں تیر کی طرح لگتے ہیں۔ اپنی ساٹھ سالہ صحافتی زندگی میں دوستوں اور عام جا ننے والوں کیلئے ان کا کام کر وانے والے پاطفیل نے اپنے لیے کسی کو بھی فون کر نے کی زحمت نہ کی کہ رمضان کا مہینہ ہے کسی کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ صحافت کا طویل سفر ہمت اور عزم واستقلال سے انہوں نے بخوبی طے کیا کبھی تکبر یا غرور انکے پاس بھی نہ آیا۔ انہیں ذاتی زندگی میں جاننے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ طفیل صاحب میں دنیاوی دولت کی لالچ، عہدوں کی حرص یا تمنا ان کی زندگی کا کبھی بھی مقصد نہیں رہا۔ اداریہ نویسی میں کمال مہارت رکھنے کے باوجود وہ اپنے ہم عصروں میں انتہائی مقبول تھے۔ جب بھی کبھی کسی موقع پر والد صاحب اس وقت کے نامور اور صاحب طرز صحافیوں جن میں ارشاد احمد حقانی،منو بھائی عباس اطہر، عبدالقادر حسن، نذیر ناجی سب کو اللہ غریق رحمت فرمائے اور دور حاضر میں مجیب الرحمن شامی صاحب اللہ انہیں صحت والی لمبی عمر زندگی عطا فرمائے، میں بیٹھتے تو ایک طالب علم کی حیثیت سے سیکھنے کے انداز میں حالانکہ ان کے اداریہ نویسی کے طرز تحر یر کو ایک خاص پذیرائی حاصل تھی مگر وہ اس بات پر ہمیشہ مصر رہتے کہ میں ایک عام طالب علم ہوں۔ ابھی بہت کچھ سیکھنا با قی ہے۔ یہی کمال انہوں نے ہمیشہ اپنی اولاد کو بھی سکھا نے کی کوشش کی اور درس بھی یہی دیا کہ اپنے علم پر کبھی غرور نہیں کر نا۔ ورنہ انسانی تحر یر بے اثر ہو جاتی ہے۔

جا نے والوں کا غم اور ان کی یادیں بھی ایک حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتااور یہ غم انسان کو اپنی زندگی کے اختتام تک لا زمی رہتا ہے۔ میں اپنے والد کو جب بھی ان کی والدہ مرحومہ کی قبر پر لے جاتا تو وہ دعا مغفرت پڑھتے ہوئےان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے یہی کیفیت اب ہم بہن بھائیوں کے ساتھ بھی ہے ۔ میری تمام پڑھنے والوں سے یہ التجا ہے کہ اگر میرے والد محترم سے کسی کو کوئی دکھ پہنچا ہو یا ان کی دل آزاری ہوئی ہو تو برائے مہربانی انہیں معاف کر کے ان کی مغفرت کیلئے دعائے خیر ضرور کر دیں اللّٰہ آپ کو اس کا یقینا بہترین اجر دے گا۔

تازہ ترین