• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو کچھ عرصہ سے ملک دشمن عناصرپاکستان کیخلاف مختلف قسم کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ ایک طرف دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گردوں کی سہولت کاری، دوسری طرف ریاستی اداروں کو کمزور کرنا، فوج اور عوام میں دوری پیدا کرنے کی کوششیں، دفاعی اداروں پر حملے کرنا اور ان پر الزام تراشیاں، لیکن اب عدلیہ، دفاعی اداروں میں دوری اور عوام میں بے یقینی کی صورتحال پیدا کرنے کی کوششوں کی صورت ایک اور نہایت سنگین سازش نظر آرہی ہے۔ اس پر فوری توجہ دینے اور ملوث افراد کا پتہ چلا کر ان کا ہمیشہ کیلئے قلع قمع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیںکہ ملک دشمن عناصر ریاست کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور کچھ لوگ انکی سہولت کاری کر رہے ہیں لیکن ریاستی ادارے ان ملک دشمنوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کر رہےہیں۔ پوری قوم حیران و پریشان ہے، ذمہ داران کا فرض بنتا ہے کہ ملک و قوم کو بحرانی کیفیت سے نکالنےکیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کی طرف سے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھنے اور اس خط کو پبلک کرنے کا معاملہ چلے ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے کہ اب اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو عام ڈاک اور کوریئر سروس کے ذریعے دھمکی آمیز خطوط ملے ہیں۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ یہ سارا کچھ اسلام آباد میں ہی کیوں ہورہا ہے۔ اب یہ بھی خبر آئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چند معزز جج صاحبان کو بھی اس طرح کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔ ان خطوط کو بھیجنے والے نامعلوم عناصر کے خلاف دہشت گردی سمیت سنگین دفعات کے تحت مقدمات تو درج ہوئے ہیں لیکن تادم تحریر پولیس کی روایتی تفتیش جاری ہے جس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آرہا ، نئے تعینات ہونے والے آئی جی اسلام آباد نے ابھی تک اپنے عہدے کا چارج نہیں سنبھالا اس لئے اسلام آباد پولیس میں انتظامی معاملات تاخیر کا شکار ہیں ۔ بظاہر لگتا ہے کہ ملک کا کوئی والی وارث نہیں اور کوئی ہے تو پھر یہ نیرو اور رو م والا معاملہ ہے اور ملک کی کشتی طوفانی لہروں کے حوالے ہے کہ وہ جس طرف چاہیں کشتی کو لے جائیں۔

جج صاحبان کو دھمکی آمیز خطوط ملنے کا سلسلہ ایسے وقت میں شروع کیا گیاجب چھ جج صاحبان کی طرف سے انٹیلی جنس اداروں پر سنگین الزامات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ سات رکنی لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے جو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشن لینے کے نتیجے میں قائم کیا گیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے ’’موثر‘‘ مطالبے پر یہ بنچ فل کورٹ میں بھی تبدیل ہو جائے۔ کیا کہنے جناب۔ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان کے الزاماتی اور تحفظاتی خط کا ہے جو چیف جسٹس پاکستان کو بھیجا گیا ہے لیکن اس معاملے کی مدعی اور وارث ایک سیاسی جماعت بنی ہوئی ہے۔ اس میں ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ اس بارے میں بھی دیگر معاملات کی طرح اس جماعت کے تقریباً ہر مطالبے کو خاموشی کے ساتھ تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اگر اس غیر متعلقہ معاملے کا فیصلہ اس جماعت کی منشا کے مطابق نہ آیا تو وہ اس فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کرے گی حالانکہ اسی جماعت کے دور حکومت میںاس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کو اسی طرح ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا جس پر کوئی ایکشن لیا گیا تھا نہ ہی اس جماعت نے کوئی آواز بلند کی تھی۔

یہ بات اب کافی حد تک واضح ہوتی نظر آرہی ہے کہ مذکورہ جج صاحبان کو بھیجے گئے دھمکی آمیز خطوط کا تعلق ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ایک اور سازش ہے اور اس بار بندوق جن کے کاندھے پر رکھی گئی ہے وہی اس کا نشانہ بھی ہیں۔ یہ ریاست، عدلیہ اور اداروں کے خلاف ایک جامع اور منظم سازش ہے۔ متعلقہ اداروں کو ملک کی بقا کی خاطر اب ٹھنڈی میٹھی پالیسی فوری طور پر ترک کرنی چاہئے۔ اس کی فوری تفتیش کرنی چاہئے اور ملوث عناصر کو عبرتناک سزادینی چاہئے۔ بعض ملک دشمن لوگ دیگر بے سر و پا الزامات کی طرح اب جج صاحبان کو بھیجے گئے دھمکی آمیز خطوط کا الزام بھی انٹلیجنس اداروں پر لگا رہے ہیں جوسراسر جھوٹ اور مکاری پر مبنی ایک مذموم سازش ہے۔ ریاستی اداروں کو چاہئے کہ یہ بےبنیاد الزام لگانے والوں کے خلاف تو کارروائی کریں جو سامنے موجود ہیں۔ اصلی تفتیش تو ان ہی لوگوں سے کرنی چاہئے اور اگر نرم گرم کے بجائے ’’صحیح‘‘ تفتیش کی گئی تو ساری سازش اور اس میں ملوث عناصر سامنے آجائیں گے۔ انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے جج صاحبان کو دھمکی آمیز خطوط بھیجنا ایک طفلانہ حرکت کی مانند ہے جو نہ تو ممکن ہے نہ ہی اداروں کو اس کی ضرورت ہے۔ بلکہ یہ ان ہی سازشی عناصر کا کیا دھرا ہے جو پہلے سے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف سرگرم ہیں اور اسی لئے ہم نے گزارش کی ہے کہ اگر اس بے ہودہ الزام لگانے والوں سے ’’صحیح‘‘ تفتیش ہو جائے تو عدلیہ اور اداروں کے خلاف ان سازشوں میں ملوث افراد اور سہولت کاروں تک بہ آسانی پہنچا جاسکتا ہے۔

عدلیہ کی آزادی کا راگ الاپنے والوں کا حال اور حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ کے صرف ان فیصلوں اور احکامات کو مانتے ہیں جوان لوگوں کے مفاد میں ہوں۔ کے پی کے اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر آنے والے ممبران سے حلف نہ لینے کا حکم دیاگیا جس کی عدولی کی گئی۔ اب ان ممبران کی طرف سےہائی کورٹ پشاور میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسی وجہ سے کے پی کے میں سینٹ انتخابات بھی ملتوی کر رکھے ہیں۔ جو صورتحال ملک کو درپیش ہے یہ فوری راست اقدام کی متقاضی ہے ورنہ معاملات ایسے بگاڑ کی طرف جارہے ہیں کہ پھر کسی سے سنبھالے نہیں جاسکیں گے۔

تازہ ترین