پاکستان کا شمار اُن دس ممالک میں ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں(گلوبل چینج) سے شدید متاثر ہیں، جب کہ عالمی ماہرین ان ممالک میں اموات کا سب سے بڑا سبب ماحولیاتی آلودگی کو قرار دے رہے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اثرات ہماری صحت، بالخصوص گیسٹروانٹیس ٹینل ٹریک،(Gastrointestinal tract) یعنی نظامِ ہاضمہ، معدہ، جگر اور پیٹ پر مرتّب ہو رہے ہیں۔ ہوا، پانی اور خوراک میں زہریلا مواد شامل ہونے کے باعث جسم کے اہم اعضا کی سُوجن، دماغی امراض، آکسیجن کے توازن میں بگاڑ اور معدے کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں، جو کئی صُورتوں میں کینسر، دل اور پھیپھڑوں کے امراض کا بھی سبب ہیں۔
دنیا کی دو تہائی زرعی زمین کیڑے مار ادویہ کی آلودگی (Pesticide Pollution) کے خطرات سے دوچار ہے اور ان جراثیم کُش ادویہ میں شامل مُہلک کیمیکلز ہماری خوراک کا حصّہ بن جاتے ہیں، جو انسانی جسم میں داخل ہو کر نظامِ ہاضمہ کے قدرتی فلورا (Flora) کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ فلورا، دراصل ہمارے نظامِ انہضام (Digestive System) کے ایسے مفید بیکٹیریا ہوتے ہیں، جو ہاضمے کی درستی، بیرونی جراثیم کی افزائش کی روک تھام، آنتوں کی کارکردگی معمول پر رکھنے اور وٹامن’’کے‘‘ کی تیاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے زیرِ اثر بہت سے زہریلے مادّے، جیسے mycotoxin ، گرمی اور نمی زدہ ماحول میں ذخیرہ کردہ خوراک میں پیدا ہوتے ہیں اور جگر کے سرطان کا سبب بن سکتے ہیں۔ دریائوں، جھیلوں اور نہروں پر جمی کائی میں نائٹروجن اور فاسفورس پائی جاتی ہے، جو تازہ اور صاف پانی کو آلودہ کرتی ہے۔ اس پانی میں Cynobacteria بھی ہوتے ہیں، جو گُردوں اور جگر کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ سمندروں پر جمی ایک خاص قسم کی کائی، جسے Fish Killer بھی کہتے ہیں، مچھلیوں کو بڑے پیمانے پر ہلاک کر دیتی ہے، جب کہ انسانوں میں یادداشت کو نہایت کم زور کرنے کا سبب بنتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا اہم عُنصر یہ ہے کہ زمین کا درجۂ حرارت1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے بقدر بڑھ گیا ہے، جس کی ایک اہم وجہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی زیادتی ہے، جو سورج سے خارج ہونے والی اِنفرا ریڈ روشنی کو روک دیتی ہے، جس کے سبب زمین دن بدن گرم ہورہی ہے اور اِسے ہی’’ گلوبل وارمنگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اِس گلوبل وارمنگ کے اثرات ہماری فصلوں پر بھی نظر آرہے ہیں کہ پیداوار میں کمی اور آبادی میں اضافے کے باعث آج دنیا بَھر کے نصف بلین سے زائد افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔
نیز، خوراک میں غذائیت کی کمی اور موٹاپے جیسے مسائل بھی سامنے آرہے ہیں۔ یاد رہے، خوراک کی قلّت اور اس میں اہم غذائی اجزاء، وٹامن بی وغیرہ کی کمی سے بچّوں میں سوکھا پن، نشوونما کا رُک جانا اور جسمانی و ذہنی کم زوری جیسی طبّی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں، جب کہ غذا کے اہم اجزاء میں ردّ وبدل موٹاپے کا سبب بن سکتا ہے اور یہ فیٹی لیور کی بھی ایک اہم وجہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کے تقریباً40فی صد علاقوں میں موجود7.9 ارب انسانوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور جو پانی دست یاب بھی ہے، وہ غیر معیاری اور آلودہ ہے، جس سے پیٹ کی بیماریاں جیسے ہیضہ، پیچش، اُلٹی، متلی، جگر کی بیماریاں جیسے ہیپاٹائٹس اے، ای، آنتوں کی سوزش، بڑی آنت کا کینسر اور میٹابولک ڈیزیزز جنم لے سکتی ہیں۔پھر قدرتی آفات کے باعث معاشرے میں ذہنی تنائو بڑھ رہا ہے، جو معدے کی صحت متاثر کرتا ہے۔ کلائمیٹ چینجز، عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ، مضرِ صحت فضائی معیار، پانی اور خوراک کی تنگی، فراہمی و نکاسی آب کے مسائل، وہ عوامل ہیں، جو ہمارے اور ہمارے جسم میں موجود جراثیم کے مابین تعلق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
پیش گوئی یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے اور جراثیم کے درمیان تعلق میں اسی طرح تبدیلیاں رُونما ہوتی رہیں، تو انفیکشنز کی ہیئت ہی تبدیل ہوسکتی ہے، جو خطرناک وبائی امراض کا سبب ہوگی۔ان ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی شدید بارشوں اور سیلابوں سے گند، کچرا بہہ کر پانی کے ذخائر میں شامل ہوجاتا ہے اور پھر اس آلودہ پانی سے ڈائریا جیسی بیماری پھیلتی ہے۔
یاد رہے، ڈائریا کا شمار دنیا کی پانچ بڑی بیماریوں میں ہوتا ہے، جس سے ہر سال لاکھوں بچّے مر جاتے ہیں۔عالمی درجۂ حرارت میں مسلسل تبدیلی کے باعث دنیا کے امیر ممالک میں بھی حیران کُن طور پر گیسٹرو انفیکشن دیکھنے میں آرہا ہے، جو پہلے شاذ و نادر ہی رپورٹ ہوتا تھا۔ہیضہ اس کی ایک بڑی مثال ہے، جو شمالی امریکا اور بالٹک ریاستوں میں مسلسل رپورٹ ہورہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اوزون کی تہہ پَتلی ہورہی ہے۔ یہ ایک جھلّی نُما چادر ہے، جو ہمارے پورے ماحول پر تَنی ہوئی ہے۔ یہ ایک طرح کی حفاظتی شیلڈ ہے، جو ہمیں سورج سے خارج ہونے والی خطرناک شعاؤں سے محفوظ رکھتی ہے۔ اوزون کی تہہ پَتلی ہونے کی وجہ سے الٹرا وائلٹ شعائیں ہماری زمین تک پہنچنے میں کام یاب ہو رہی ہیں، جن سے صحت کے کئی مسائل سامنے آرہے ہیں، جیسے ہیٹ ویو، قبل از وقت جِلد پر جھریوں کا نمودار ہونا، اِسکن کینسر، آنکھوں میں موتیا کا اُترنا، جگر اور معدے کے امراض وغیرہ۔
ماحول آلودہ کرنے میں گرین ہائوس گیسز کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ یہ ماحول دشمن گیسیز ہیں، جن میں سرِفہرست کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پھر میتھین، سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ شامل ہیں۔ ہماری فضا میں سلفر اور نائٹروجن آکسائیڈ کے موجود ہونے سے تیزابی بارش کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
تیزابی بارش کا نظریہ 1852ء میں ایک اسکاٹش کیمیا دان،Robert Angus Smith نے دیا تھا۔ فضا میں شامل یہ نائٹروجن اور سلفر بارش کے پانی سے مل کر کیمیائی عمل کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں تیزابی بارش بنتی ہے اور یہ بارش ماحول، حیاتیاتی تنوّع اور انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے کہ اس کے منفی اثرات ہمارے اعصاب، تنفّس اور انہضام کے نظام پر مرتّب ہوتے ہیں۔ اس تیزابی بارش کو’’ اسٹون کینسر‘‘ کا بھی نام دیا گیا ہے کہ یہ تاریخی، نایاب اور یادگار عمارتوں کی تباہی کا بھی سبب بنتی ہے۔
یاد رہے، دنیا کے ساتویں عجوبے،’’ تاج محل‘‘ کی خُوب صُورتی آگرہ کی فیکٹریز سے نکلنے والے زہریلے مواد ہی سے ماند پڑ رہی ہے۔بلاشبہ، ہمارے قدرتی ماحول کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے شدید خطرات لاحق ہیں اور اِس ماحول دشمن گیس کا بڑا محرک رکازی ایندھن یعنی کوئلہ، تیل، گیس اور پلاسٹک ہیں، جن کے جلنے سے بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔
یاد رہے، روزمرّہ کے کئی کاموں کے دَوران بھی یہ گیس خارج ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً گھروں کو گرم یا ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہیٹر اور ایئرکنڈیشنز کے استعمال، کھانا بنانے، ڈیری فارمنگ، فیکٹریز، صنعتوں، ٹرانسپورٹ، گندم اور چاول کی باقیات جلانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ قدرتی ماحول میں شامل ہوجاتی ہے اور اس پورے عمل کو’’ Carbon foot print ‘‘کا نام دیا گیا ہے، اسی لیے طبّی ماہرین، شہریوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ گھروں سے نکلتے وقت ماسک کا ضرور استعمال کریں۔
واضح رہے، امریکا جیسے ترقّی یافتہ مُلک میں محض صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے دَوران مجموعی قومی پیداوار کی تقریباً آٹھ فی صد کاربن گیس خارج ہوتی ہے، خصوصاً ہیلتھ انڈسٹری میں اینڈو اسکوپی مراکز کو اس کی تیسری بڑی وجہ قرار دیا جارہا ہے، جہاں سے Carbon footprint کے علاوہ طبّی فضلہ بھی پیدا ہوتا ہے، خاص طور پر پلاسٹک کا کچرا بڑی تعداد میں جمع ہوتا ہے، جو ماحول اور انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ایک اینڈو اسکوپی پروسیجر میں تقریباً 1.5 کلو گرام پلاسٹک ویسٹ پیدا ہوتا ہے، جو ریڈیالوجی کے بعد پلاسٹک ویسٹ کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔
یہ پلاسٹک فضلہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتا ہے اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی کہ یہ پلاسٹک کچرا نہایت چھوٹے چھوٹے ذرّات میں تقسیم بھی ہوسکتا ہے، جن کا سائز پانچ ملی میٹر سے بھی کم ہوتا ہے اور جو ماحول میں تحلیل ہو کر ہمارے جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔ بحرالکاہل کی انتہائی گہرائی میں بھی پلاسٹک کے ذرّات پائے گئے ہیں اور یہ مائکرو پلاسٹکس انسانی بڑی آنت کے نمونوں میں بھی ملے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی سے ہمارے اسپتال، آپریشن تھیٹرز اور اینڈو اسکوپی مراکز بھی محفوظ نہیں۔ مٹّی، گند یا کچرے میں مہلک جراثیم موجود ہوتے ہیں اور اگر آپریشن تھیٹرز، اینڈو اسکوپی مراکز میں آلاتِ جرّاحی کو اسٹرلائز نہ کیا جائے، وہاں جراثیم کُش اسپرے نہ ہو، تو خدانخواستہ تشنّج کا بیکٹیریا آلاتِ جراحی کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔
اِس ضمن میں عام مشاہدہ یہی ہے کہ بہت سے اسپتالوں کی انتظامیہ غیر ذمّے داری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ طبّی فضلے کو سائنسی طریقے سے ٹھکانے لگانے کی بجائے کچرا کونڈی میں پھینک دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے، دونوں صُورتوں میں اس سے ماحول کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ طبّی فضلے کو سائنسی طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے مخصوص مشین کا استعمال کیا جائے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے پیشِ نظر اینڈو اسکوپی مراکز میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کہ یہاں لائف سیونگ پروسیجرز ہوتے ہیں۔ اینڈو اسکوپی سے معدے کے امراض سے بچائو، تشخیص اور بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے، لہٰذا اینڈو اسکوپی سوٹ کا ماحول مثالی ہونا چاہیے۔اِس سلسلے میں دنیا بَھر میں گرین اینڈو اسکوپی کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے، جس سے مُراد یہ ہے کہ اینڈو اسکوپی سینٹرز مکمل طور پر صاف شفّاف اور آلودگی سے پاک ہونے چاہئیں، اینڈو اسکوپی طریقۂ کار سے متعلق مکمل آگاہی فراہم کرتے ہوں، مریض کے اعتماد کو ٹھیس نہیں لگنی چاہیے، وہ ذہنی طور پر اینڈو اسکوپی پروسیجر کے لیے تیار ہو، جس کے مریض کی صحت پر دُور رَس اثرات مرتّب ہوتے ہیں اور بار بار اینڈو اسکوپی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اور اِس پوری مشق کو’’ گرین اینڈو اسکوپی‘‘ کا نام دیا گیا۔
گرین اینڈو اسکوپی کے لیے ماہرین نے تھری آرز یعنیReduce, Reuse, Recycle پالیسی متعارف کروائی ہے، جس سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔اس پالیسی کے تحت اینڈو اسکوپی سوٹ میں ایسے معیاری، کم لاگت والے آلات استعمال کیے جائیں، جن سے طبّی فضلہ کم پیدا ہوتا ہے اور جو ایک سے زائد مرتبہ استعمال کیے جاسکیں، پھر یہ کہ جو طبّی فضلہ جمع ہوتا ہے، اُسے ری سائیکل کرکے قابلِ استعمال بنایا جائے۔ اس تھری آرز پالیسی کے ذریعے اینڈو اسکوپی مراکز سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج میں یقینی طور پر کمی لائی جاسکتی ہے۔
اینڈو اسکوپی کے لیے جو سامان خریدا جائے، وہ ماحول دوست ہونا چاہیے، اسے’’ Green Purchasing ‘‘کہتے ہیں۔ اینڈو اسکوپی سوٹ میں جو آلات یا اشیاء استعمال ہوتی ہیں، وہ عموماً پلاسٹک کی بنی ہوتی ہیں، جن میں Pthalates/Polyviny/ chloride شامل ہوتے ہیں، جو بعض صُورتوں میں سرطان کا موجب بن سکتے ہیں۔ اب کچھ کمپنیز پی وی سی فِری آلات متعارف کروا رہی ہیں، جو ایک اچھی پیش رفت ہے۔
خیال رہے، Duedenoscopy پروسیجر میں ایک ہی مرتبہ استعمال ہونے والے آلات سے تقریباً 29.3 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پیدا ہوتی ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں استعمال شدہ آلات سے1.55 کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے، یعنی20گُنا زاید کاربن ڈائی آکسائیڈ Single use Device سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا معمول کی اینڈو اسکوپی کے لیے استعمال شدہ آلات (Reused Devices) استعمال کی جائیں۔البتہ ایسے کیسیز، جن میں مریض مدافعتی نظام کی کم زوری کا شکار ہوں یا مختلف جراثیم کُش ادویہ کے خلاف قوّتِ مدافعت کم ہوگئی ہو، تو پھر Single use device ہی بہترین آپشن ہے۔
اینڈو اسکوپی سوٹ میں ٹشو بائیوآپسی کی جگہ Optical Diagnosis پر کام کی ضرورت ہے کہ اس کے استعمال سے ٹشو بائیو آپسی میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ، اینڈو اسکوپی یونٹ میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی بھی متعارف کروانی چاہیے۔معمول کی کولونو اسکوپی میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے اینڈو اسکوپی کے معیار میں بہتری لائی جاسکتی ہے اور مرض کی تشخیص کے لیے بار بار اینڈو اسکوپی سے بھی نجات مل سکتی ہے جب کہ Fecal Calprolin / Urea Breath ٹیسٹس کی مدد سے ہم معدے کی متعدّد بیماریوں کی تشخیص بغیر اینڈو اسکوپی کی مدد کے بھی کرسکتے ہیں، جس سے طبّی فضلہ کم سے کم پیدا ہوگا۔
گویا، غیر ضروری اینڈو اسکوپی سے بچتے ہوئے اینڈو اسکوپی الٹرا سائونڈ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اینڈو اسکوپی سے پہلے غیر ضروری بلڈ ٹیسٹس، ایکو کارڈیو گرافی اور چیسٹ ایکسرے تجویز نہ کیے جائیں، اِس طرح Carbon foot print میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ہاں جہاں انتہائی ضروری ہو، وہاں ٹیسٹ کروانے میں کوئی حرج نہیں۔
نیز، اینڈو اسکوپی یونٹ میں صاف اور متبادل توانائی کے ذرائع استعمال کرنے کی بھی ضرورت ہے، جب کہ سینٹرز کا درجۂ حرارت معمول پر رکھنا چاہیے کہ بہت زیادہ کولنگ یا گرمی، کاربن گیس کے اخراج کا سبب بنتی ہے۔ درجۂ حرارت معمول پر رکھنے سے انفیکشن کنٹرول میں بھی مدد ملتی ہے اور مریض بھی پُرسکون رہتا ہے۔
دنیا بَھر میں عوام کی سہولت کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دیا جارہا ہے، جس سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی آسکتی ہے، تو اینڈو اسکوپی کو بھی مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنے پر غور کرنا چاہیے، اِس طرح پیپر ورک سے نجات مل جائے گی اور پیپر ویسٹ میں کافی حد تک کمی ہوگی۔ اینڈو اسکوپی سوٹ میں ٹیلی میڈیسن کا بھی شعبہ قائم کرنا چاہیے تاکہ دُور دراز کے مریضوں کی بہتر رہنمائی کی جاسکے۔جیسا کہ کوِوڈ-19 کے دوران ٹیلی میڈیسن کے ذریعے مریضوں کی بہت مدد کی گئی۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مریضوں کے لیے ماحول دوست ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے، ماحولیاتی و دیگر کانفرنسز کو ورچوئل طرز پر فروغ دیا جائے، کیوں کہ لائیو اینڈو اسکوپی کے ذریعے بھی ماہرین اپنی تعلیمی سرگرمیاں آگے بڑھا سکتے ہیں، جس سے ٹرانسپورٹ کا خرچ بچے گا اور ایندھن کے اخراج میں بھی کمی ہوگی۔ تعلیمی سرگرمیوں کے لیے مقامی ماہرین اور دانش وَروں سے مدد لینی چاہیے، جو صحت کے مسائل اور اُن کے حل سے کسی دوسرے کی نسبت زیادہ باخبر ہوتے ہیں۔
کوِوڈ میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ جب تقریباً تمام ہی بین الاقوامی میٹنگز، کانفرنسز آن لائن ہو رہی تھیں، تو اوزون کی تہہ کافی مستحکم ہوئی اور فضائی معیار بھی بہتر ہوا۔ مریضوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے باخبر رکھنے کے لیے اُنہیں صحت مند زندگی کے رہنما اصولوں سے روشناس کروانا بھی بے حد ضروری ہے، اِس طرح بہت سی گیسٹرو کی بیماریوں گرڈ فنکشنل Dyspepsia ،بڑی آنت کے کینسر اور فیٹی لیور سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، جن کے لیے عموماً اینڈو اسکوپی کی ضرورت پڑتی ہے۔
گیسٹرو کے مریضوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، تو مریضوں کی بہتر نگہہ داشت کے لیے چھوٹے بڑے شہروں میں بہترین گیسٹرو وارڈز اور اینڈو اسکوپی سوٹ تعمیر ہونے چاہیئں۔ وقت آگیا ہے کہ مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین مِل جُل کر کوئی ایسا لائحۂ عمل تشکیل دیں، جس کی روشنی میں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ اِس سلسلے میں حکومتوں پر دبائو بڑھانا ہوگا کہ وہ ماحول کی بہتری کے لیے قانون سازی کرتے ہوئے ماحول دوست پالیسیز کا اطلاق ممکن بنائیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے پیشِ نظر شعبۂ تحقیق میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔عوام میں شعور و آگہی کے فروغ کے لیے ماحولیاتی مسائل تعلیمی نصاب کا حصّہ ہوں، تو دوسری طرف، گرین ہائوس گیسز کے مضر اثرات سے باخبر رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر آگاہی مہمّات کا آغاز کیا جائے۔ سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے گھر گھر ماحول دوستی کا پیغام عام کیا جائے۔نیز، موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے سائنس اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ بھی ضروری ہے کہ متبادل ایندھن کے استعمال ہی سے ماحول کا تحفّظ ممکن ہے۔
پلاسٹک شاپرز کی جگہ کاغذ کی تھیلیاں یا کپڑے کے تھیلے استعمال کریں۔ ان تمام اقدامات کا بنیادی مرکز و محور یہ ہے کہ ماحول کو آلودگی سے پاک رکھا جائے اور 2050ء تک گرین ہائوس گیسز کے اخراج کو صفر کی حد تک کم کردیا جائے۔ ایسے تمام افراد جو اینڈو اسکوپی مراکز سے وابستہ ہیں، اُن کی اوّلین ذمّے داری ہے کہ وہ گرین اینڈو اسکوپی کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کی سوچ پروان چڑھائیں۔ ماہرینِ صحت ذمّے داری کا ثبوت دیں اور قدرتی آفات میں گِھرے مریضوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ ان مریضوں کے لیے بہتر حکمتِ عملی، حفاظتی تدابیر، بروقت تشخیص اور فوری علاج کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔