• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نوید سنائی ہے کہ 54فیصد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں، چند سال پیشتر یہ شرح چالیس فیصد تھی پاکستانیوں نے ترقی کاسفر کرکے اس شرح کو54 فیصد تک پہنچا دیا ہے اور اس ترقی کا ذکر کوئی عام آدمی نہیں ملک کاوزیر خزانہ کررہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ’’ترقی‘‘ کی بڑی وجہ ٹیکس چوری ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹیکس چوروں کا مافیا بڑا مضبوط ہے اس کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مافیا پورے ایف بی آر کو ہلانے کی صلاحیت رکھتا ہے، دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ اس مافیا کا بڑا حصہ پارلیمنٹ کے اندر مضبوط لابی کا مالک ہے۔ امریکہ کے علاوہ کئی ممالک میں ٹیکس چوری سے بچنا مشکل ہے مگر ہمارے ہاں یہ کھیل بہت آسان ہے ۔ اس آسانی کو ختم کرنے کیلئے جاوید ہاشمی نے جو نسخہ تیار کیا ہے اس کا نفاذ بڑا مشکل ہے۔ اس مشکل ترین تیربہدف نسخے میں ہاشمی صاحب فرماتے ہیں کہ ٹیکس چوری کی سزا موت ہونی چاہئے۔ ہاشمی صاحب کو اپنے دائیں بائیں دیکھ لینا چاہئے کہ کون کون بچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سیاستدانوں میں جہانگیر ترین ایک مثالی سیاستدان ہیں جہانگیر ترین ایمانداری سے پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں قدرتی طور پر ان کا بزنس بھی بھرپور ترقی کررہا ہے شاید اس کی وجہ ٹیکس کی ادائیگی ہو، کاش ہمارے باقی سیاستدان بھی جہانگیر ترین کی تقلید کریں تاکہ ملک ٹیکس چوری سے پاک ہوجائے ۔ میری خاص طور پر پانچ ہزار روپیہ ٹیکس دینے والوں سے گزارش ہے کہ وہ پورا ٹیکس ادا کیا کریں تاکہ تمام لوگ ٹیکس کی ادائیگی کوفرض سمجھیں۔ ٹیکس کی ادائیگی سے ہماری معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
پارلیمنٹ سے یاد آیا کہ گزشتہ دنوں جمشید دستی نے دھماکہ کردیا تھا جس کی آواز بڑی دور تک سنائی دی۔ اس دھماکے کی صفائیاں اب تک جاری ہیں اب پارلیمنٹ لاجز صاف ہوچکے ہیں۔ صفائی کے بعد وہاں کے نگراں ڈائریکٹر کو تبدیل بھی کیا جاچکا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک ڈائریکٹر کی تبدیلی سے وہ مائنڈ سیٹ بدل جائے گا جو پارلیمنٹ لاجز کے اندر گل کھلاتا رہا ہے۔ جمشید دستی نے ادھورا سچ بولا ہے اگر وہ پورا سچ بول دیتے تو بھونچال کی شدت بہت زیادہ ہوجاتی۔ اس ادھورے سچ سے بھی درودیوار ہل رہے ہیں۔ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے اسلام آباد میں بسنے والے بہت سے غیر مسلموں کو پرمٹ ہمارے منتخب نمائندوں نے دلوا رکھے ہیں۔ دوسرے نقش ونگار بھی جھوٹ سے منسوب نہیں کئے جاسکتے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ تمام نمائندے ایک جیسے نہیں ہیں۔ دستی صاحب کو گھر کا بھیدی نہیں بننا چاہئے بلکہ انہیں خالد شریف کے اس شعر پر غور کرنا چاہئے تھا کہ
آشنائی کی یہ ہلکی سی جھلک بھی کیوں ہے!
یوں گزر جاؤ کہ جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ کراچی پر مافیا اور دہشت گردوں کا قبضہ ہے شہر میں تشدد، قتل وغارت اور دہشت گردی کی خبروں کی شہ سرخیاں بنتی ہیں ، نوجوان، خواتین، بزرگ اور بچے ماورائے عدالت قتل ہورہے ہیں، لوگوں کو فرقوں میں تقسیم کردیا گیا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آرہے ہیں، امن وامان کیلئے تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا مگر عملدارآمد نہیں ہوا…‘‘ یہ تمام باتیں چیف جسٹس نے کراچی بار کی تقریب حلف برداری سے خطاب کے دوران کہی ہیں۔ اگر ملک کے سب سے بڑے شہر کا یہ حال ہے تو باقی پورے ملک کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے سربراہ الطاف حسین نے کہا ہے کہ کراچی کے زیادہ علاقوں پر طالبان قابض ہیں۔
اس تمام صورتحال کو پیش نظر رکھا جائے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ کراچی میں بسنے والے عام شہریوں کاکیا قصور ہے، جنہیں ہر وقت موت اور خوف گھیرے رکھتے ہیں، حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ عام لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائیں کہ آخر حکومتوں کا اور کیا کام ہے؟
کراچی ہی کی رہنے والی شیری رحمن ملکی ترقی کیلئے کوشاں ہیں۔ شیری رحمن کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے ہے، وہ صحافی رہی ہیں، صحافیوں کی وزیر رہی ہیں، سفیر رہی ہیں آج کل جناح انسٹی ٹیوٹ کی سربراہ ہیں یہ انسٹی ٹیوٹ ملکی سلامتی کے حوالے سے بہت اہم ہے کیوں کہ اس کاکام بہت اہم ہے۔ ذہین ترین شیری رحمن جب وفاقی وزیر تھیں تو انہوں نے خود کوکرپشن اور کرپٹ افراد سے دور رکھا۔ جب وہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر تھیں تو پاکستان کیلئے جہاد کرتی رہیں انہوں نے پاکستان کو بہت سی مشکلات سے نکالا۔
شیری رحمن کی والدہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی وائس پریذیڈنٹ تھیں، ان کے والد نے سندھ بھر میں تعلیمی خدمات کوزندگی کا حصہ بنائے رکھا ۔ خود شیری رحمن پاکستان کی ترقی کیلئے ہمہ وقت چاک وچوبند نظر آتی ہیں۔ گزشتہ دنوں سفارت کاروں، عسکری ماہرین اور دانشوروں سے خطاب کرتے ہوئے اس خوش لباس خاتون نے دل کھول کر ملکی سلامتی کے حوالے سے باتیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ’’تنازعات ملک کیلئے بڑا خطرہ ہو سکتے ہیں، پاکستان خطے کی دوسری طاقتوں کومدنظر رکھ کر پالیسیاں بنائے۔پاکستان میں جمہوریت کا استحکام تبھی ممکن ہے جب قومی ایشوز پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ہو، بھارت کے ساتھ تجارت اور دوستی بڑھائی جائے، خوشحال افغانستان ہمارے لئے مفید ہوگا، آج پاکستان کواسی پیمانے کے تشدد کا سامنا ہے جس کا2012ء میں عراق اور افغانستان کوتھا ہمیں ملکی مسائل کے حل کیلئے ایک ہوجانا چاہئے …‘‘۔
شیری رحمن کی باتیں عمدہ ہیں مگر ان پر علمدرآمد کون کرے گا، یہاں تو کرپشن کی بات کی جائے تو جمہوریت کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں، بدامنی اور معاشی بدحالی کاتذکرہ کیاجائے تو پھر بھی جمہوریت کیلئے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں، اہم سوال یہ ہے کہ اس نام نہاد جمہوریت نے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں یا نہیں ؟ جاتے جاتے راحت زاہد کاشعر پیش خدمت ہے
ہے آج گھر کی فضا اجنبی سی کیوں راحت
دلوں سے حرفِ وفا کومٹا دیا کس نے
تازہ ترین