• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلی بار غزہ میں جنگ بندی کیلئے پیش کردہ قرار داد منطور کر لی تھی، سلامتی کونسل کے 10منتخب ارکان کی پیش کردہ قرارداد پر امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ قرارداد کے مطابق رمضان المبارک کے دوران فوری جنگ بندی کی جانی تھی۔ امریکہ کے سوا تمام 14 ممالک نے قرارداد کی حمایت کی جس میں چین اور روس بھی شامل تھے۔ قرارداد میں پوری غزہ کی پٹی میں شہریوں کے تحفظ کیلئے انسانی امداد کی فراہمی کو بڑھانے اور ان کو تقویت دینے کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا تھا اور بڑے پیمانے اور انسانی امداد کی فراہمی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو ہٹانے کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا تھا۔ مگر اسرائیل نے سلامتی کونسل کی غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کو ہوا میں اڑاتے ہوئے مزید 81فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 24گھنٹوں کے دوران غزہ میں اسرائیلی دہشتگردی کے8 واقعات میں مزید 81فلسطینی شہید اور 93 زخمی ہو گئے اسی طرح رفح میں ایک گھر پر رات گئے اسرائیلی بمباری میں18 افراد شہید ہوئے جن میں 9 بچے بھی شامل تھے۔ دوسری جانب، غزہ میں ہوائی جہاز سے گرائی گئی امداد کے حصول کی کوشش میں 18 افراد ڈوب کر اور 6 بھگدڑ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ گزشتہ کئی ماہ سے فلسطینیوں پر اسرائیل کی جانب سے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اسرائیلی جارحیت اور تباہی میں بچوں سمیت33 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں اسرائیل کی بربریت کے خلاف مظاہرے بھی ہو رہے ہیں اور لوگ اسرائیل کی حمایت کرنے والے کاروباری اداروں کا بائیکاٹ کر کے بھی یہ واضح کر رہے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح غزہ میں ہونے والے ظلم و ستم کو برداشت نہیں کریں گے۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل میں اس مسئلے پر کئی بار بات ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود غاصب اسرائیل جارحیت سے باز نہیں آ رہا۔ اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران ہمت اور غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکا پر یہ واضح کر دیں کہ اگر فی الفور غزہ میں جنگ بندی نہ کی گئی تو تمام مسلم ممالک مل کر غزہ کے دفاع کیلئے آگے بڑھیں گے۔

میں یہاں بتاتا چلوں کہ اسرائیل کی جانب سے اس قرارداد کو تسلیم نہ کرنے پر اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی عالمی برادری صرف عالمی دبائو کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں کر سکتی جبکہ صدام حسین کی عراق میں حکومت کے دوران عراق پر امریکی حملوں اور عراق پر پابندیاں عائد کرنے کے اقدام کو اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل چیپٹر 7کے تحت عالمی برادری کی ذمہ داری قرار دیا گیا تھا، اس سب کے باوجود یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ اقوام متحدہ کی اس قرارداد کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر عالمی برادری دبائو ڈال کر اس پر عمل کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو غزہ کے نہتے اور بربادی و تباہی کا شکار عوام کو امن کا ایک وقفہ حاصل ہو سکے گا۔ یہ خون کی ہولی بہت طویل عرصے سے جاری ہے، عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ اس خون کی ہولی کو رکوائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ جہاں تک امریکی پالیسی میں تبدیلی کا تعلق ہے تو یہ ایک طرح سے امریکی رائے عامہ کی جیت ہے کہ امریکی صدر جوبائنڈن کو الیکشن سے پہلے یہ احساس بہر حال ہو گیا ہے کہ اسرائیل کی بے جا حمایت، امریکی سرپرستی میں وہاں 33ہزار شہریوں کی شہادت لاکھوں افراد کا زخمی اور بے گھر ہو جانا ہولو کاسٹ سے کہیں بڑا انسانی المیہ ہے اور اس کی ذمہ داری براہ راست امریکی صدر پر عائد ہوتی ہے۔ بائیڈن حکومت کی جانب سے ویٹو سے گریز کی واحد وجہ یہ ہے کہ انہیں الیکشن میں اپنی شکست کا خوف لاحق ہے۔ دوسری جانب پاکستان سمیت عالم اسلام کو چاہئے کہ فلسطین کے انسانی المیہ کو روکنے کی خاطر چین اور روس کے ساتھ مل کر اسرائیل کے بائیکاٹ کو یقینی بنایا جائے۔ کم از کم اسرائیل کے پڑوسی عرب ممالک کو چاہئے کہ اب وہ بھی معقولیت کی راہ اختیار کریں اور جب تک اسرائیل جنگ بندی پر آمادہ نہیں ہو جاتا اسے پیٹرول اور اسلحہ کی سپلائز کیلئے راستہ فراہم کرنے سے انکار کر دیں۔ جب تک عالمی سطح پر اسرائیل کا بائیکاٹ کر کے اسے جنگ بندی پر مجبور نہیں کیا جاتا، یہ قرارداد بے فائدہ رہے گی۔

قارئین میں یہا ں آپ کو ایک قصہ سناتا چلوں سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس ان کے جاسوس آئے اور کہا کہ سرکار شہر میں ایک نیا عالم آیا ہے جو بہت اچھا بیان کرتا ہے اور لوگ اس کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں لوگ شوق سے اس کی بات سنتے ہیں۔ سلطان نے پوچھا کیا بیان کرتا ہے تو جاسوسوں نے جواب دیا کہ وہ کہتا ہے کہ جہاد نفس کا ہے اور ہمیں نفس کا جہاد کرنا چاہئے اور ہمیں دعا پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ تو سلطان نے کہا کہ اس میں غلط کیا ہے وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے تو جواب آیا سرکار اس میں غلط وہ نہیں کہتا مگر وہ غلط لگ رہا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے بھیس بدلا اور فوراََ اس عالم کے پاس پہنچ گئے اور اس عالم سے کہا کہ اگر مسلمانوں کو بیدردی سے قتل کیا جا رہا ہو اور بیت المقدس پر یہودیوں کا قبضہ ہو تو ہمیں بحیثیت مسلمان کیا کرنا چاہئے۔ تو عالم نے جواب دیا کہ ہمیں صبر کرنا چاہئے اور دعا پر بھروسہ کرنا چاہئے اس بات پر سلطان کو بہت غصہ آیا اور انہو ں نے اپنا خنجر نکال کر اس کی ایک انگلی کاٹ دی اور اس کے بعد اس کی گردن پر خنجر تان لیا تو وہ عالم چیخنے اور چلانے لگا تو سلطان ایوبی نے سوال کیا کہ بتائو کہ تم کون ہو اور تمہارا کیا مقصد ہے۔ تو عالم نے جواب دیا کہ میں ایک یہودی ہوں اور میرا مقصد مسلمانوں کے دلوں سےجذبہ جہاد کو ختم کرنا ہے۔ قارئین یہی مقصد آج بھی جاری ہے۔ آپ کے سامنے ہے کہ مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، فلسطین کو ختم کیا جا رہا ہے لیکن ہم چپ ہیں اور اسی طرح چپ ہی رہیں گے کیوں کہ ہمیں ہمارے مقصد سے ہٹا دیا گیا ہے۔

تازہ ترین