پاکستان میں روزانہ تقریباً سات ہزار بچے مختلف بیماریوں کے باعث جاں بحق ہو جاتے ہیں جن میں سے لگ بھگ 150 بچے مختلف پیدائشی نقائص کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
بچوں کے کونجینائٹل ڈیفیکٹس یا پیدائشی نقائص پیدائش کے فوراً بعد آپریشن یا سرجری کے ذریعے ٹھیک کیے جا سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں کے سرجنز کی تعداد 200 سے بھی کم ہے۔
اس بات کا انکشاف معروف پیڈیاٹرک سرجن اور ایسوسی ایشن آف پیڈیاٹرک سرجن آف پاکستان کے صدر ڈاکٹر محمد ارشد نے اتوار کے روز صحافیوں سے خصوصی گفتگو میں کیا۔
ورلڈ پیڈیاٹرک سرجری ڈے 2024 کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ارشد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 15 سال تک کے بچوں کی تعداد 33 فیصد ہے لیکن پاکستان میں ان بچوں کی سرجریز کے لیے بچوں کے سرجنز کی تعداد بہت کم ہے۔
دوسری جانب امریکا جہاں کی صرف 19 فیصد آبادی 15 سال تک کے بچوں پر مشتمل ہے وہاں سیکڑوں پیڈیاٹرک سرجنز بچوں کی جنرل اور پیچیدہ سرجریز کے لیے ہمہ وقت دستیاب رہتے ہیں۔
ڈاکٹر ارشد نے بتایا کہ بچوں کے پیدائشی نقائص ان میں اموات کی پانچویں بڑی وجہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پیدائشی نقائص کے علاوہ حادثات، گردے میں پتھری، کینسر اور دیگر بیماریوں کے لیے بھی بچوں کے سرجنز کی ضرورت ہوتی ہے مگر بچوں کے سرجنز کی شدید کمی کے باعث پاکستان میں ہر سال تقریباً 26 سے 27 ہزار بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ڈاکٹر ارشد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نجی اور سرکاری شعبوں میں ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے سبب پاکستانی ماہرین امراض اطفال خاص طور پر پیڈز ماہرین درجنوں کے حساب سے بیرون ملک چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں بچوں کی اموات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے اس موقع پر تجویز پیش کی کہ پاکستان کے تمام ضلعی اسپتالوں میں بچوں کے سرجنز کی اسامیاں پیدا کی جائیں تاکہ بچوں کے پیچیدہ آپریشن ضلعی اسپتالوں میں ہی سرانجام دے کر ان کی جانیں بچائی جا سکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف کراچی، لاہور اور اسلام اباد میں بچوں کے خصوصی اسپتال قائم ہیں جن پر پورے پاکستان سے آنے والے مریضوں کا دباؤ ہوتا ہے اور دیر سے تشخیص کے باعث سیکڑوں قابل علاج بچے امراض کی پیچیدگی کا شکار ہو کر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ضلعی اسپتالوں میں بچوں کے سرجنز متعین کیے جائیں تو جلد تشخیص اور فوری علاج کے ذریعے بچوں میں شرح اموات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر دیگر ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ پاکستانی ماہرین صحت کو بیرون ملک جانے سے روکنے کےلیے مقامی طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں ماہرین صحت کی بڑھتی ہوئی کمی کو روکا جا سکے۔