• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے والا ہے، حکومت اور اشرافیہ خوش ہیں، جبکہ عوام اس معاہدے سے ہونیوالی تباہی پر پریشان ہیں، مہنگائی کامزید طوفان آنے والا ہے، تاجر اور صنعت کار، سرمایہ کار روز روز گیس بجلی کی قیمتوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق اضافے سے بے یقینی کا شکار ہیں، انہیں اپنے بزنس میں خسارے کا خدشہ ہے، موجودہ حکومت کیلئے ملک کی موجودہ معاشی صورت حال کوئی نئی بات نہیں ، موجودہ حکمراںپی ڈی ایم حکومت کا تسلسل ،15ماہ کی حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی موجودہ کابینہ کے بیشتر وزیر تمام حقائق سے اچھی طرح واقف ہیں، اسلئے انہیں مالیاتی اداروں کیساتھ معاہدے میں اپنی قوم کو بھی دیکھنا ہوگا،قیام پاکستان سےاب تک ہماری معیشت قرضوں اور امدادوں پر ہی چل رہی ہے ، آج تک اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے،دو طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔جسکی ذمہ داری حکمراں طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر بھی عائدہوتی ہے۔ آئی ایم ایف نے اس ملک کو 75سال میں دو درجن کے قریب پیکیج دئیے پالیسیاں اور بجٹ وہی طے کرتا ہے۔ اسی طرح انفراسٹرکچر کے بیشتر منصوبوں میں ورلڈ بینک کی مشاورت اور قرضے شامل ہوتے ہیں۔ اگر آج یہ ملک اس نہج تک پہنچا ہے جہاں تعمیرات جان لیوا اور معیشت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ،عوام برباد ہیں تو اس کی ذمہ داری سے یہ ادارے ہر گز بری الذمہ نہیں ۔

ہم اس لئے بھی ناکام ہیں کہ کبھی بیرونی دبائو سے بھی باہر نہیں نکل سکے،ہم نے اپنے توانائی کےبحران دور کرنے کے لئے دوٹوک فیصلے نہیں کئے، امریکا کے دبائو میں آئے بغیر ہمیں ایران کے ساتھ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنا ہوگا، توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے ،ترکی، ملائیشیا اور انڈونیشیا کےساتھ نئے معاہدے کرنا ہوں گے ، وقت آگیا ہے کہ حکومت اور ماہر معاشیات مل کر پاکستان کو آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے چنگل سے باہر لانے کی حکمت عملی تیار کریں،آئی ایم ایف سے حاصل کیے جانے والے نئے قرضے کی کڑی شرائط ملک میں انتشار اور افر اتفری میں اضافے کا باعث بنیںگی،نئے قرضے کے بعد مجموعی قرضہ93ہزار ارب روپے تک پہنچ جانےکا خدشہ ہے جس سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا، اس قدر قرضوں کا بوجھ پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرے کی علامت بن سکتا ہے،پاکستان نے دہشت گردی کےخلاف جنگ میں ڈیڑھ کھرب روپے کا مالی نقصان اٹھایا، لاکھوں جانوں کی قربانی دی، کئی سو افراد آج بھی اس جنگ میں دہشت گردی کا شکار ہوکر مفلوج زندگی گزار رہے ہیں، حکومت اس جنگ میں ہونے والے مالی نقصانات کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی قسط کے ساتھ جوڑ کر رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرے،عالمی طاقتوں کی اس جنگ میں پاکستان نے جو مالی اور جانی قربانیاں دی ہیں اس کے اعتراف میں انہیں پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لئے تعاون کرنا چاہئے، اس وقت ہمیں ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنا ہوگا، ملکی سلامتی، ترقی کیلئے وفاق اور صوبوں کو مل کر کام کرنا چاہئے، عوام کو مہنگائی سےنکالنے کے لئے تمام صوبائی حکومتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے ،غریب آدمی اس میں الجھ کر رہ گیا ہے جبکہ بنیادی ڈھانچےمیںاصلاحات کے بغیر معیشت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا،ٹیکس نیٹ کے دائرے کو وسیع کرنا پڑے گا تاکہ قرضوں کا بوجھ کم کیا جاسکے۔22فیصد شرح سود کے سبب لوگ کاروبار چھوڑ کر بینکوں میں پیسے جمع کرارہے ہیں ،سرمایہ کاری ختم ہو رہی ہے۔افسر شاہی کی مراعات کم کی جائیں۔ تمام سرکاری دفاتر کو سولر پینل پر منتقل کیا جائے۔ نوجوان طبقے کو زیادہ سے زیادہ آئن لان بزنس کی طرف متوجہ کیا جائے۔ سی پیک کو مکمل کیا جائے، کالا باغ سمیت کئی ڈیمز بنائے جائیں۔ بھارت سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت بڑھائیں،بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، خصوصی طور پر توانائی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری ہونی چاہیے۔ ایکسپورٹ بڑھائی جائے، سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ سبزیوں اور پھلوں کی ایکسپورٹ بڑھائی جائے۔ ملکی ذخائرکا درست استعمال کیا جائے،فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے دکانداروں اور تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ڈیلرز، ریٹیلرز، مینوفیکچرز اور امپورٹر کم ریٹیلرز کی لازمی رجسٹریشن اسکیم کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے،ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ صنعت کاروں، سرمایہ داروں اور تاجروں کو جنرل ایمنسٹی دی جائے جس کے تحت انہیںملک میں روزگار کی فراہمی کے لئے کار خانے، صنعتیں لگانے کی اجازت دی جائے اور کم ازکم ان سے دس سال تک یہ نہ پوچھا جائے کہ وہ یہ رقم کہاں سے لائے، اسی طرح ملکی معاشی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔اس دوران ملک میں سیاسی استحکام کو بھی فروغ دیا جائے، عمران خان سمیت تمام سیاسی رہنمائوں کو ملک کو بچانےکیلئے اپنا سیاسی کردار ادا کرنا ہوگا،دہشت گردی کی روک تھام اور اسٹریٹ کرائم کے خاتمے کے لئے پولیس کے نظام میں تبدیلیاں لائی جائیں،پڑھے لکھے مقامی نوجوانوں کو پولیس میں شامل کیا جائے،اس سے امن و امان کی بحالی میںمدد مل سکے گی،کراچی اور بلوچستان میں اس حوالے سے زیادہ کام کی ضرورت ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو توجہ دینا ہوگی۔ اسلام آباد ججز کیس نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، حکومت اگر ان معاملات میں الجھ گئی تو مسائل کون حل کرے گا۔؟

تازہ ترین