• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اس وقت انڈسٹری کی صورتحال انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ایک طرف مارک اپ کی شرح 22 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے اور دوسری طرف بجلی کی فی یونٹ قیمت مسلسل اضافے کے باعث 60 روپے سے زائد ہو چکی ہے جبکہ گیس کی قیمت بھی 450 فیصد تک بڑھائی جا چکی ہے۔ ان حالات میں دنیا کے کسی ملک کی انڈسٹری بھی سروائیو نہیں کر سکتی ہے چہ جائیکہ پاکستان جہاں کل کا پتہ نہیں ہوتا کہ کیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی بھی حکومت معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکی ہے کیونکہ جب تک انڈسٹری کا پہیہ نہیں چلے گا حکومت کا برآمدات بڑھانے کا ہدف بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے مالیاتی پروگرام میں رہتے ہوئے ایکسپورٹ انڈسٹری کو سپورٹ فراہم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرے۔ اس حوالے سے پہلا کام یہ کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح ورلڈ بینک کی جاری سکیم کے تحت ٹیوب ویل اور کولڈ سٹوریج چلانے کے لئے چھ فیصد مارک اپ پر قرضے فراہم کئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کو سولر انرجی پر منتقلی کے لئے قرضے فراہم کئے جائیں۔ اس سے ناصرف ایکسپورٹ انڈسٹری کو سستی توانائی حاصل ہو سکے گی بلکہ پیداواری لاگت کم ہونے سے پاکستانی ایکسپورٹرز کی خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مسابقت کی استعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ علاوہ ازیں ملک کو درپیش معاشی مالی وسائل کی کمی ختم کرنے کے لئے ایک حل یہ بھی ہے کہ ٹیکس نیٹ میں توسیع کرکے اس میں نئے ٹیکس گزار شامل کئے جائیں اور پہلے سے ٹیکس دینے والوں کو مزید نچوڑنے کی پالیسی ترک کی جائے۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر یہ کیا جا سکتا ہے کہ بینکوں کے پاس پہلے سے موجود اکائونٹس میں جو شہری ٹیکس نیٹ کا حصہ نہیں ہیں انہیں فائلر بنایا جائے۔ علاوہ ازیں کالے دھن کی روک تھام کے لئے تمام کرنسی نوٹ منسوخ کرکے بینکوں کے ذریعے نئے نوٹ جاری کئے جائیں۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے تو کم از کم پانچ ہزار اور ایک ہزار روپے والے نوٹ ضرور منسوخ کئے جائیں کیونکہ ملک میں رشوت ستانی اور کالے دھن میں اضافے کے حوالے سے بڑی مالیت کے یہ کرنسی نوٹ بہت زیادہ مددگار و معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ اس طرح ناصرف گھروں اور گوداموں میں پڑی بلیک منی سے نجات ملے گی۔ پرانے نوٹ تبدیل کرنے والوں کے بینک اکائونٹ کھول کر نیا کیش ان کے اکائونٹس میں منتقل کیا جائے۔ اس طرح بہت سے نان فائلر مگر پرتعیش زندگی گزارنے والے افراد بھی ٹیکس نیٹ میں شامل ہو جائینگے اور حکومت آئندہ کیلئے ان کے ذرائع آمدن اور اخراجات کا موازنہ کر کے ان سے حقیقی شرح کے مطابق ٹیکس کی وصولی یقینی بنا سکے گی۔

اسی طرح بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو بہت زیادہ ہوائی سفر کرتے ہیں اور آئے روز ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرنے کے باوجود ٹیکس کی مد میں حکومت کو ایک روپیہ بھی ادا کرنے کے روا دار نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ایسا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے کہ بیرون ملک جانیوالے ہر شہری سے ائیرپورٹ پر پوچھ گچھ کی جائے اور اگر وہ نان فائلر ہو تو اسے وہیں پر فائلر بنا دیا جائے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ پاکستانی شہریوں کی جانب سے حج اور عمرے کے علاوہ دبئی، امریکہ ، یورپ اور دیگر ممالک کے تفریحی دوروں میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے لیکن ان میں سے اکثریت حکومت کو ایک روپے کا بھی ٹیکس دینے کی روادار نہیں ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ بڑی بڑی لگژری گاڑیاں خریدتے یا فروخت کرنے کے باوجود بطور ٹیکس گزار اپنی رجسٹریشن کروانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ایسے لوگ بطور نان فائلر اضافی ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے فائلر بننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اسلئے نان فائلرز کیلئے ون ٹائم زیادہ ٹیکس ادا کر کے ایف بی آر میں بطور ٹیکس گزار رجسٹریشن سے چھوٹ کی پالیسی بھی مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اس طرح شہریوں کو ٹیکس گزار نہ بننے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو گی۔ ہماری حکومتوں کی ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی عشروں کی کوششوں کے باوجود آج تک تاجر طبقہ ٹیکس نیٹ کا حصہ نہیں بنایا جا سکا ہے۔ اس حوالے سے جب بھی کوئی کوشش ہوتی ہے یا تو اسے تاجروں کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر سیاسی حکومتیں مصلحت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس مرتبہ بھی حکومت نے تاجروں کی رجسٹریشن کے لئے جو طریقہ اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے وہ زیادہ موثر ثابت نہیں ہو گا۔ اس سے بہتر ہے کہ ایف بی آر کی ٹیمیں مارکیٹس کا سروے کریں اور موقع پر ہی تاجروں کی رجسٹریشن کی جائے۔ اس حوالے سے بیشک ابتدائی طور پر تاجروں کو فکس ٹیکس رجیم کے تحت ہی رجسٹرڈ کر لیا جائے لیکن آنے والے وقت میں انہیں اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ اپنی حقیقی آمدن اور سیل پر ٹیکس کی ادائیگی یقینی بنائیں۔ اس طرح اگر حکومت کی کوششوں سے پچاس لاکھ سے زائد تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کر لیا جائے تو ناصرف ٹیکس محصولات میں قابل قدر اضافہ کیا جا سکتا ہے بلکہ معیشت کو دستاویزی بنانے کے حوالے سے بھی قابل قدر پیشرفت ہو سکے گی۔ اس کیلئے جہاں ایک طرف حکومت کو آہنی عزم کی ضرورت ہے وہیں تاجروں کو بھی اپنی قومی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے کہ اب ٹیکس نیٹ میں شامل ہوئے بغیر کاروبار جاری رکھنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

تازہ ترین