تحریر: نرجس ملک
ماڈل: فضّہ عارف
آرائش: Sleek By Annie
عکّاسی: ایم کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
معروف آئرش شاعر، ڈراما نگار (1890ء کی دہائی میں لندن کے مقبول ترین ڈراما نگاروں میں سے ایک) آسکروائلڈ کے مرد و عورت کی فطرت و سرشت، عادات و نفسیات سے متعلق کچھ چھوٹے چھوٹے خُوب صُورت اقوال ہیں۔ مثلاً: ’’عورتیں، محبّت کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں، سمجھنے کے لیے نہیں۔‘‘،
’’ایک مرد، جب کسی عورت کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے، تو وہ اُس کے لیے اپنی زندگی کا کچھ حصّہ، دل کا ایک گوشہ وقف کرتا ہے، جب کہ عورت، اگر کسی مرد کی محبّت میں گرفتار ہوجائے، تو وہ اپنی پوری زندگی اُس پر وار دیتی ہے۔‘‘، ’’مرد کسی بھی عورت کے ساتھ اُس وقت تک بہت خوش باش رہتا ہے، جب تک وہ اُس سے محبّت نہیں کرتا۔‘‘، ’’ایک شادی شدہ عورت کی کار گزاریوں، خدمات کا دنیا میں کوئی نعم البدل ہی نہیں اور ایک شادی شدہ مرد تو اُن کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔‘‘، ’’ایک عورت جب تک اپنی بیٹی سے دس سال چھوٹی نظر نہ آئے، وہ مطمئن نہیں ہوسکتی۔‘‘، ’’عورت، مرد کی پیش قدمی کے خلاف مزاحمت سے شروع ہوتی ہے اور اُس کی پسپائی روکنے پرختم ہوجاتی ہے۔‘‘، ’’خواتین کبھی تعریفی و توصیفی کلمات سے غیرمسلّح نہیں ہوتیں، جب کہ مرد ہمیشہ ہی ان سے بے نیاز رہتے ہیں اور اِن دونوں اجناس کے درمیان یہ ایک بڑا فرق ہے۔‘‘، ’’عموماً مرد اِس لیے شادی کرتے ہیں کہ وہ تھک چُکے ہوتے ہیں، جب کہ خواتین تجسّس کے جذبات و احساسات کے سبب، لیکن دونوں ہی کو بالآخر مایوسی ہوتی ہے۔‘‘،
’’تمام خواتین، ایک روز اپنی ماؤں جیسی ہوجاتی ہیں، یہ اُن کا المیہ ہے، جب کہ تمام مرد، اپنے باپوں جیسے نہیں ہو پاتے، اور یہ اُن کا المیہ ہے۔‘‘، ’’ مرد، ہمیشہ عورت کی پہلی محبّت بننا چاہتا ہے، لیکن عورتیں، مرد کا آخری رومان بننا پسند کرتی ہیں۔‘‘، ’’ایک مرد کا چہرہ، اُس کی سوانح عُمری ہوتا ہے، جب کہ عورت کا چہرہ اُس کی افسانہ نگاری کے مِثل۔‘‘ اور… ’’میرے خیال میں مرد و عورت کے درمیان محبت و اشتیاق، عبادت و عقیدت، عداوت و دشمنی کا تعلق اور جذبات تو ہوسکتے ہیں، لیکن دوستی کارشتہ نہیں۔‘‘ ممکن ہے، یہ سب تصوّرات و خیالات ایک شاعر، لکھاری کے ذاتی مشاہدات و تجربات کا نچوڑ ہوں، لیکن غور کیا جائے، تو اِن میں سے بیش ترسو فی صد حق، سچ ہی ہیں۔
خصوصاً عورت کی ہمیشہ کم عُمر نظر آنے، تعریفی و توصیفی کلمات سے مسلّح رہنے، افسانوی سی چھب ڈھب رکھنے اور غیر مشروط چاہے جانے کی خواہش، تمنّا، آرزو تو کسی طور چیلنج کی ہی نہیں جا سکتی۔
اور..... آسکر وائلڈ ہی کا کہنا ہے کہ ’’فیشن دراصل بد صُورتی کی ایک شکل ہے اور یہ اِس قدر ناقابلِ برداشت ہے کہ ہمیں ہر چھے ماہ بعد اِسے بدلنا پڑجاتا ہے۔‘‘ اب واقعی ایسا ہے یا یہ انسانی، خصوصاً نسائی فطرت کا شاخسانہ کہ چھے ماہ بھی کچھ زائد ہی ہیں، مَن تو گویا ہمہ وقت آمادۂ تبدّل، مائل بہ تغیّر ہی رہتا ہے۔ سو، اپنے تن و مَن، قلب و ذہن کے چین و آرام، راحت و آسودگی کے لیے ہمارے آج کے اِس بہت ہی منفرد و دل کش رنگ و آہنگ سے حَظ اُٹھائیں۔
ذرا دیکھیں، پیور سلک فیبرک میں ٹائی اینڈ ڈائی اسٹائل کے ساتھ حسین پونچو (Pouncho) کا ایک انداز ہے، تو ڈارک پِیچ رنگ (شفتالو) میں اسٹائلش لانگ ایپرن کے ساتھ کیولاٹ کی ہم آمیزی ہے۔ گہرے زرد رنگ کی بیس پر سیاہ اور چاکلیٹی رنگ کے چیتا پرنٹ کی ندرت لیے خُوب صُورت سی اسکرٹ کا جلوہ ہے، تو سیاہ و سفید کے سدا بہار کامبی نیشن میں روایتی شرٹ، ٹرائوزر بھی ہے اور پھر باٹل گرین رنگ میں بھاری سیکوینس ورک سے مزیّن شیفون کے تقریباتی پہناوے کے تو کیا ہی کہنے۔
چوں کہ ہر ایک رنگ و انداز اپنی جگہ جداگانہ ہے، تو یقین ہے کہ متنوّع، رنگا رنگ مزاج کی حامل خواتین کےمعیارپر ضرور پورا اُترے گا۔ ان دِنوں ایک بار پھر تقریبات کا بہت زور ہے، تو کسی موقع محل کی مناسبت سے یا یوں ہی اپنی دل بستگی یا سر کے تاج کی دل جوئی و سرخُوشی کے لیے جو اسٹائل منتخب کرنا چاہیں، کرلیں۔
چہار سُو جون ایلیاکی وہ غزل گونجتی سی محسوس ہوگی کہ ؎ تُو بھی چُپ ہے، مَیں بھی چُپ ہوں، یہ کیسی تنہائی ہے..... تیرے ساتھ تِری یاد آئی، کیا تُو سچ مُچ آئی ہے..... اُس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس..... جب اُس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے..... حُسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حُسن کو زِک پہنچتا ہے..... ہم نے عرضِ شوق نہ کرکے حُسن کو زِک پہنچائی ہے..... عشقِ پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے..... کیاری میں پانی ٹھہرا ہے، دیواروں پر کائی ہے..... حُسن کے جانے کتنے چہرے، حُسن کے جانے کتنے نام..... عشق کا پیشہ حُسن پرستی، عشق بڑا ہرجائی ہے..... آج بہت دن بعد مَیں اپنے کمرے تک آنکلا تھا.....جوں ہی دروازہ کھولا ہے، اُس کی خوشبو آئی ہے۔