ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ انکی رہائی کے حوالے سے خاصے متحرک دکھائی دے رہے ہیں ۔ وہ اس سلسلہ میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور الطاف شکور کے ہمراہ پاکستانی حکام سے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے برسر اقتدار آنے کے بعد ایک بار پھر یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی قید سے رہا ہو کر جلد اپنے وطن میں اپنی فیملی کے درمیان ہوں گی ۔وزیراعظم شہاز شریف اور وزیر خارجہ اسحق ڈار نے بھی گزشہ دنوں اس حوالے سے امید افزا بیان دیا تھا ۔حیرت ہے کہ یہ کاوشیں کئی برسوں سے بارآور کیوں ثابت نہیں ہو رہیں ؟ میرے خیال میں ان کاوشوں کو زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے ۔ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اس وقت مسلح افواج کا مورال بڑھانےاور ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اگر وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ سے خود بات کریں تو یہ قومی معاملہ فوری حل ہو سکتا ہے ۔قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی حکومت پاکستان اور پاک فوج کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنے گی ۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان نے ریمنڈڈیوس ، ایمل کانسی اور یوسف رمزی کو امریکہ کے حوالے کیا تھا ۔ امریکی پنٹاگون سے بھی ہماری فوج کے اچھے تعلقات ہیں ۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر ڈاکٹر عافیہ کو امریکی ظلم سے نجات دلا کر یقینی طور پر پاکستانی عوام کی توقعات پر پورا اتر سکتے ہیں ۔ یہ ایک نوبل کاز ہے جسے خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل کو پہنچا کر پاکستان کی موجودہ سول اور عسکری قیادت عوام کے دل جیت سکتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو اسمتھ کا بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستانی قیادت امریکی حکام کے سامنے یہ معاملہ اٹھائے تو عافیہ کی امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی فوری ممکن ہو سکتی ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اس حوالے سے دو طرفہ معاہدہ بھی موجود ہے۔ عافیہ صدیقی کو امریکہ کی تحویل میں اکیس سال ہو چکے ہیں ۔ اس دوران ان پر ہر طرح کا ظلم ڈھایا گیا ۔ اب تک ان کا زندہ بچ جانا ایک معجزہ ہے ۔ امریکی قید میںطویل حراست کے دوران انکی والدہ محترمہ بیٹی کی راہ تکتے تکتے اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی اپنی بہن کو پاکستان واپس لانے کیلئے اسلام آباد سے لے کر امریکہ تک جگہ جگہ جا کر انصاف مانگ رہی ہیں لیکن کہیں ان کی شنوائی نہیں ہو رہی ۔ اگر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر اس قومی مسئلہ کو حل کروا دیں تو پوری قوم ان کی ممنون ہوگی ۔ ایس آئی ایف سی ملکی معیشت کو سدھار سکتی ہے تو اس اہم معاملے کو بھی حل کر سکتی ہے۔ اسی تناظر میں انسانی حقوق اور ڈاکٹر عافیہ کے برطانوی نژاد امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ کا پاکستانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انکے حالیہ دورہ افغانستان کا مقصد ڈاکٹر عافیہ کی بے گناہی کے ثبوت اکٹھے کرنا تھا۔ ہم نے پاکستانی حکومت اور عوام سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے مدد طلب کی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کا امریکی قید میں یہ اکیسواں سال ہے۔ امریکی صدر سے پاکستانی سول اور عسکری قیادت عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرے تو امریکی قانون کے مطابق ڈاکٹر عافیہ اپنے ملک میں واپس آسکتی ہیں ۔
کلائیو اسٹافورڈ سمتھ اور ان کی ٹیم عافیہ کے اہم کیس پر افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں کام کر رہی ہے مگر افسوس کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے مطلوبہ امداد نہیں مل رہی۔کلائیو اسمتھ نے معظم بیگ کے ہمراہ افغانستان میں دس دن تک رات دن کام کیا تاکہ امریکی حراست میں ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے تشدد اور ان کی بے گناہی کے مزید شواہد تلاش کیے جا سکیں۔ کلائیو اسمتھ کا مزیدکہنا تھا کہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے،میں مئی میں دوبارہ پاکستان واپس آؤں گا۔وہ کہتے ہیں کہ اب ہم یہ انکشاف کر سکتے ہیں کہ متعدد گواہوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو 2003 سے 2008 تک جب وہ لاپتہ تھیں بیشتر عرصہ بگرام، افغانستان میں رکھا گیا۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ اس وقت آزاد تھیں، وہ سچ نہیں کہہ رہے ہیں۔17 جولائی 2008 کو اسے اس وعدے کے ساتھ غزنی بھیجا گیا کہ اس کی بیٹی مریم واپس کردی جائے گی۔ اب ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ ایک دھوکہ تھاجبکہ پولیس کو کال کی گئی تھی کہ وہ خودکش بمبار تھی۔ اس کی جان بچانے والا غزنی کا ایک بہادر درزی تھا جو خالد بن ولید مسجد کے پاس کام کرتا تھا اور وہ اردو زبان بھی بول سکتا تھا۔جب 40 افغان نیشنل پولیس اہلکار AK47 کے ساتھ مسلح ہو کر آئےتو اس درزی نے عافیہ اور افغان پولیس کے درمیان کھڑے ہو کراس کی جان بچائی اور انہیں بتایا کہ ٹیلی فون کرنے والا جھوٹ بول رہا ہے۔ ہم نے اس درزی کی گواہی کی تصدیق کیلئے کئی گواہ تلاش کر لیے ہیں۔ ہم نے اس بات کا ثبوت حاصل کر لیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے امریکی عدالتی ٹرائل میں پیش کیے گئے شواہد شروع سے آخر تک جھوٹے تھے۔ ویسے تو پاکستانی وزارت خارجہ کے ساتھ ہمارے معاملات ذاتی طور پر خوشگوار ہیں مگر وہ عافیہ پر کام نہیں کر رہے ۔ اس وقت سب سے زیادہ ضروری عافیہ کو FMC کارسویل سے کسی دوسری محفوظ جیل میں منتقل کرنا ہے جہاں اس نے بار بار جنسی حملوں کا سامنا کیا ۔
قصہ مختصر ! عافیہ کی رہائی کیلئے کام تیزی سے جاری ہے اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نیویارک کی عدالت میں فیصلہ چیلنج کرنے سے پہلے افغانستان کا کم از کم ایک اور تفتیشی دورہ کرے گا۔کلائیو اسمتھ کے مطابق 2024 کے اختتام سے پہلے عافیہ کی وطن واپسی کو یقینی بنانا ان کا ہدف ہے۔ اللہ کرے کہ یہ کاوشیں کامیابی سے ہمکنار ہوں اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ امریکی قید سے رہا ہو کر جلد اپنے بچوں اور فیملی میں واپس آسکیں ۔