• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے سیاسی معاشرے میں ہر شعبہ تضادات کا شکار ہے ایسا ہی ایک تضاد گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ کی اشاعت میں دیکھنے کو ملا جب مہاجر سیاست کے نقصانات کے عنوان سے ایک کالم نظر سے گزرا جس میں کالم نگار نے پاکستان کی 76سالہ تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے صرف 40سال کا احاطہ کرکے نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی اور منطقی نتیجہ تضاد کی شکل میں سامنے آیا۔ کالم نگار رقمطراز ہیں کہ 1987کے بعد کی مہاجر سیاست نے صرف نقصان پہنچایا ہے جبکہ اس سے قبل کی نفرت اور تقسیم پر مشتمل سیاست پر دو حروف بھی لکھنا مناسب ناسمجھاکہ جب نسل اور زبان کی بنیاد پر نفرت اور تقسیم عروج پر تھی اس وقت مہاجر سیاست کا وجود نہیں تھا جب صوبہ سندھ میں دو لسانی بل منظور ہوا اور ساتھ ساتھ کوٹہ سسٹم بھی نافذ کیا گیا جس میں دیہی اور شہری تفریق کو مزید ہوا دی اور نسل اور زبان کو بنیاد بناکر 22سے زائد ملازمین کو ملازمتوں سے بے دخل کیا گیا ۔کراچی میں شہدائے اُردو کی قبریں بھی اس امر کی غماز ہیں، جن نقصانات کا ذکر مظہر عباس صاحب نے اپنے کالم میں کیا اور اسکا سارا ملبہ مہاجر سیاست کے پلڑے میں ڈال دیا اسکی تاریخ 1987نہیں بلکہ قیامِ پاکستان سے شروع ہوتی ہے کہ جب ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے پاکستانیوں کو ایک اور ہجرت سے گزرنا پڑا اندرونِ سندھ اسکے نشانات آج بھی موجود ہیں یہ وہ چند حقائق تھے جس پر معزز کالم نگار نے نظر ڈالنے کی زحمت ہی نہیں کی ویسے تفریق اور نفرت کی فہرست بہت طویل ہے جسکا احاطہ ان صفحات پر ممکن نہیں لیکن 1987کے بعد کے جن چند واقعات کا ذکر کیا گیا اس پر تبصرہ کرنا راقم ضروری سمجھتا ہے۔ 1988میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین ہونے والے 52نکاتی’ اعلان کراچی‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شہری اور دیہی سندھ کو قریب لانے میں یہ معاہدہ مددگار ہوسکتا تھا لیکن ایم کیو ایم نے اس معاہدے کو ختم کیا گوکہ اس معاہدے کے مخالفین کی طرف کچھ اشارے بھی کئے گئے جو ناکافی تھے لیکن اعلان کراچی کے نکات پر اس وقت کی حکومت نے عمل نہیں کیا جو اسکی ذمہ داری تھی اس پر تبصرے سے گریز کیا اس طرح مسلم لیگ ن کی جانب سے 1992میں ایم کیو ایم مخالف آپریشن پر بھی اپنی قیمتی رائے سے اس کالم میں آگاہ کرتے ہیں لیکن کسی جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعت کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال کو مظہرعباس صاحب غلط نہ کہہ سکے کالم میں آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ جب پیپلز پارٹی دوبارہ حکومت میں آئی تو اس نے ایم کیو ایم کو سبق سکھانے کیلئے پولیس آپریشن شروع کیا اور ماورائے عدالت قتل کا طویل سلسلہ شروع ہوا جسے قبرستان بھرنے سے انہوں نے تعبیر کیا لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ راقم لکھنے پر مجبور ہے کہ کالم نگار ماورائے عدالت قتل کی مذمت میں چند لفظ نہ لکھ سکے جبکہ صدر لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کرتے وقت جو چارج شیٹ فریم کی تھی اسکا پہلا نکتہ کراچی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل تھے جسے بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے درست قراردیا ۔اسکے باوجود نہ کوئی کمیشن بنا نہ تحقیقات ہوئیں ناکسی کو سزا ہوسکی اور ناہی کالم نگار جیسے کہنہ مشق صحافی کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے آیا۔ اسکے بعد پرویز مشرف کے دور کا بھی ذکر خیر آتا ہے جسکا ذکر کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں سوائے چند انڈرپاسز اور فلائی اوورز کے شہر کیلئےکچھ نہ کرسکے اس دور میں کون کون سے ترقیاتی کام ہوئے اسکی تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ جتنا کام اس دور میں ہوا اسکا آدھا تو کیا چوتھائی کام بھی کوئی نہ کرسکا۔ پیپلز پارٹی کا یہ مسلسل چوتھا اقتدار ہے ،اسنے کیا کیا وہ عوام کو پینے کا صاف پانی تک فراہم نہ کرسکی نکاسی آب کے نظام بہتر نہ کرسکی روزگار کے مواقع اسی تفریق کی بنیاد پر فراہم کئے گئے جو مہاجر سیاست سے قبل موجود تھی۔ ایم کیو ایم کو گزشتہ 40سال میں کبھی کلی اقتدار نہیں مل سکا جسکا وہ حساب دے جبکہ مخالف سیاسی جماعت پندرہ سال سے مسلسل اور اسکے علاوہ گاہے گاہے حکومت میں رہی ہے۔ اسے صحافتی کٹہرے لانا چاہیے اسکے علاوہ کراچی، حیدرآباد میں ہونے والے پرتشدد واقعات بالخصوص قصبہ علی گڑھ کا واقعہ، سانحہ پکا قلعہ، سانحہ سہراب گوٹھ اور حیدرآباد مارکیٹ، ایسے واقعات ہیں جس میں سینکڑوں نفوس کی جانیں گئیں، لیکن کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی آج تک ان واقعات پر کوئی آواز بلند نہیںہوئی،کوئی مطالبہ سامنےنہیں آیا، صرف قبرستان بھرے گئے۔لہٰذا کوشش اس بات کی ہونی چاہئے کہ ہم اپنی تحریروں میں ان واقعات کو بھی لائیں جو نئی نسل کی آنکھوں سے محوکیے جارہے ہیں۔ اب آتے ہیں اس نتیجے کی جانب جو کالم نگار نے 40سالہ تاریخ کے تجزیے کے بعد اپنے طور پر اخذ کیا یہاں یہ حقیقت سب پر آشکار ہے کہ سندھ کےشہری علاقوں میں آباد مہاجر ہجرت کے بعد سے ہی پاکستانی قوم کو تلاش کررہے ہیں کبھی فاطمہ جناح کی شکل میں تو کبھی مذہبی سیاسی جماعتوں سے جڑکر ،کبھی قومی اتحاد میں شامل ہوکرلیکن افسوس مایوسی اور مظالم انکا مقدر بنے۔ مندرجہ بالا مختصر سی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں بالخصوص سندھ میں نفرت، تشدد، تفریق اور سیاسی امتیاز کی تاریخ 40سال پر نہیں بلکہ 76سال پر محیط ہے پاکستانیوں نے مہاجر سیاست نہیں کی بلکہ انہیں اس جانب دھکیلا گیا۔

تازہ ترین