• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے پہلے دور حکومت میں بی آر ٹی پشاور کی تعمیر 2017ء میں اس یقین دہانی کے ساتھ شروع کی گئی تھی کہ اسے چھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا لیکن چھ سال سے زیادہ مدت گزر جانے کے باوجود یہ منصوبہ اب تک تشنہ تکمیل ہے اگرچہ اگست 2020ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نے ادھوری حالت ہی میں اس کا افتتاح کردیا تھا۔ موجودہ صوبائی حکومت کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے گزشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ تعمیراتی کام نامکمل ہونے کے باعث بی آر ٹی کو سالانہ چار ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ چمکنی اور حیات آباد پلازہ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے جس سے حکومت کو ماہانہ 30 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں پلازے جلد تعمیر کریں گے تاکہ ریونیو بڑھایا جائے۔ تاہم قومی خزانے کو اربوں روپے کا مسلسل نقصان ایسی بات نہیں جس سے یوں سرسری گزر جایا جائے۔ اس منصوبے کے بارے میں بھاری کرپشن کی شکایات منظر عام پر آتی رہی ہیں جس کی بنا پر 2019ءمیں اس وقت کے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں ایک بینچ نے ایف آئی اے کو اس منصوبے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔تاہم صوبائی حکومت کی درخواست پر سپریم کورٹ نے 2020 ءمیں تحقیقات کا عمل بند کرادیا تھا جبکہ اگست 2022ءمیں آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں بی آر ٹی پشاور میں پچاس ارب روپے کی کرپشن اور بے قاعدگیوں کی نشان دہی کی تھی جس کے باعث مارچ2023ء میں نگراں صوبائی حکومت نے اس کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس تحقیقات کی شفاف طریقے سے تکمیل اور کرپشن کے ذمے داروں کا قانون کی گرفت میں لایا جانا عین قومی مفاد کا تقاضا ہے کیونکہ کرپشن ہماری زبوں حالی کا اصل سبب ہے جس کی وجہ سے وسائل ملکی ترقی پر خرچ ہونے کے بجائے بدعنوان عناصر کی تجوریوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔

تازہ ترین