• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام!اکیسویں صدی کے جاری تیسرے عشرے میں ڈی گلوبلائزیشن (عالمگیریت کی تحلیل) کا عمل جو واضح طور پر مئی 2003ء میں عراق پر غیر قانونی (بقول یو این سیکرٹری جنرل کوفی عنان) امریکی حملے سے ہوا تھا، وہ عشروں پر محیط کھلی اور مسلسل اسرائیلی لاقانونیت اور سخت مذہبی متعصبانہ رویے کی اختیاریت سے فلسطینیوں کی بے قابوہائی سکیل نسل کشی (جینوسائیڈ) پر پہنچ کر تیز تر ہو گیا ہے۔عالمی امن و استحکام کیلئے بڑا خطرہ بن گئی سلگتے بھڑکتے تنازع فلسطین کے تسلسل سے بنی اس خطرناک صورتحال میں اب وسعت ایران کے خلاف جاری اسرائیلی پراکسی وار کے حملوں کے بعد اب کھلی اور محتاط اور محدود بھی جاری جنگ سے آئی ہے۔ امریکی پشت پناہی سے ایران کے خلاف اسرائیلی پراکسی جنگ جنوری 2020میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر ایرانی فوجی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی پر ڈرون اٹیک سے ،ان کی شہادت سے شروع ہوئی ۔ایران نے بحیثیت مجموعی اسے اپنے خلاف اسرائیل و امریکہ کی مشترکہ کارروائی برائے اسرائیلی مفادات قرار دیا کہ امریکہ سے اس کا کوئی براہ راست تنازع تھا نہ ہے ۔یہ حادثہ ہوا بھی اس صورتحال میں جب صدر ٹرمپ دیرینہ عرب دوست ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرانے میں تیزی سے ’’سفارتی کامیابیاں‘‘ سمیٹ رہے تھے۔ اسرائیل کے بنیاد پرست صہیونی گریٹر اسرائیل کے متعلقہ قیام کا یقین تسلسل سے دلا رہے تھے اقوام متحدہ میں اسرائیلی مستقل مندوب (غالباً ڈینڈی) مسجد اقصیٰ اور مقبوضہ علاقوں کے علاوہ خالصتاً فلسطینیوں کی صدیوں سے آباد بستیوں پر قبضے اور رمضان میں افطار و نماز کی ادائیگی کو روکنے کی یومیہ شرانگیزیوں کے دوران عالمی میڈیا پر اسرائیلی بین الاقوامی قوانین و معاہدوں کی خلاف ورزی کا جواز تو ریت میں ہونے والی گریٹر اسرائیل کے قیام کی بشارت اور یہودی مذہبی عقائد سے دے کر واضح کر رہا تھا کہ ہمارے مذہبی عقائد ان قوانین اورمعاہدوں کی پابندیوں کے مقابل کہیں زیادہ مقدم ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف ان بڑھتی شرانگیزیوں جو مسجد اقصیٰ کے نواح میں چار پانچ سال سے ہو اور بڑھ رہی تھیں، گرفتاریوں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروںتک پہنچ گئی تھی اور ان پر عقوبت گاہوں میں شدید تشدد کی مصدقہ اور غیر مصدقہ خبریں غزہ اور ویسٹ بینک کی آبادیوں میں اشتعال و اضطراب کو بڑھا رہی تھیں۔مسلح اسرائیلیوں اور نہتے فلسطینیوں کی شدت اختیار کرتی چپقلش اسرائیل پر حماس کے راکٹوں سے حملے اور جواباً اسرائیل کے غزہ پر مہینوں پر محیط تباہ کن ہوائی حملوں کی وجہ بنا اس بے ضرر لیکن پھر بھی حیرت انگیز اور یہودی ریاست کو چونکا دینے والے حملے کا مقصد بے حس دنیا اور امن کے عالمی اداروں کو تنازع فلسطین کی شدت اور حساسیت کی جانب متوجہ کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا؟اس پر دہشت گردی کے الزامات سے دہشت گردی اپنا مفہوم کھو بیٹھی۔

دنیا، عالمی امن کے ادارے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں یا تو مکمل بے حسی کا مظاہرہ کرتی رہیں یا اپنی کھال بچانے کےلئے زبانی جمع خرچ سے آگے نہ جا سکیں۔مقابل اسرائیلی ہلہ شیری اور فلسطینی مایوسی میں مزید شدت اور اس کے اظہار میں اضافہ ہوتا گیا لیکن فقط مایوسی نہیں اب فلسطینیوں میں کہیں نہ کہیں اپنی سکت بڑھانے اور اس کے محتاط و محدود استعمال (خواہ دنیا کو متوجہ کرنے کے لئے ہی سہی ) کا منظم سلسلہ موجود ہے اور اسرائیل کے بھی ناقابل تسخیر ہونے کی کہانی ختم صہیونی ریاست جو خلیجی ممالک سے سفارت کاری میں آنے کے بعد خود اعتمادی اور زبردست امریکن اینگلو پشت پناہی سے آپے سے باہر ہوتی رہی چونکہ مشرق وسطیٰ میں دنیا بھر کی اقوام خصوصاً امریکی و مغربی اور اب تیزی سے بڑھتے چینی و امریکی مفادات واضح ہوتے جارہے تھے اور ان کے حصول کی سفارتی ،سیاسی اور عسکری سرگرمیوں کا گراف بھی بڑھ رہا تھا ایسے میں دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی فضائی حملہ کے بعد عالمی امن کے لئے خطرہ بن گئی صورتحال ہے جس میں جو اب الجواب کا سلسلہ اسرائیلی پہلے سے اختیار خطرناک رویہ ہے یہ اسرائیلی جنونی رویہ پورے مشرق و سطیٰ کے لئے بلنکنگ فلش پوائنٹ بن گیا ہے جہاں سے فلسطینیوں کے خلاف مسلسل ہلاکت و تباہی نکل رہی ہے خطے کے لئے عدم استحکام اور خود اسرائیل کی سلامتی خطرے میںپڑ گئی ہے جو امریکہ و مغرب کو بھی مسلسل پراکسی اور بڑی جنگوں کی پشت پناہی کی تیاری اور الرٹ پوزیشن میں رکھے ہوئے ہے ،یہ ان کی مشرق وسطیٰ حلیف یورپین اور دنیا بھر کے سیاسی و معاشی عدم استحکام قائم کی گھمبیر صورت ہے۔ ترقی پذیر دنیا میں مشرق وسطیٰ بحیثیت مجموعی خوشحال خطہ ہی نہیں اس کا حصہ کمزور معیشت کے نواحی خطوں کے معاشی استحکام کو سنبھالا دینے حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی جزوی میں نمایا ںہے، عالمی سیاسی مفادات کی اہمیت و حساسیت بھی بہت واضح ہے۔ ایسے میں اسرائیل، ایران عسکری ہو گئی مخاصمت پوری دنیا کے لئے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا سردجنگ کے خاتمے (90کے آغاز) کے بعد بھی نیٹو کے بلاجواز مزید قیام اور نیو ورلڈ آرڈر اور تہذیبوں کے تصادم جیسے کرافٹڈ پیرا ڈائم تشکیل دینے کی کوششوں کےساتھ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے پروگلوبل ازم استعمال اور اس کے متوازی اپنے ہی پیرا ڈائم گھڑ کر عالمی معاشرے پر مسلط کے دہرے اور متضاد عمل کی لپیٹ میں آگئی تھی۔

ہوا یہ کہ تیز تر گلوبلائزیشن کا عمل حل سے محروم تنازعات اسلحہ بندی، جنگوں اور تہذیبی تفریق اقتصادی اور عالمی سماجی ایجنڈے کے اہداف کے مقابل ظہورپذیر عالمگیریت کےرجحان سے فائدہ اٹھاتے HAVESاور HAVE NOTS کی تقسیم کو کم کرنےکی عالمی سماجی ضرورت، خودبخود بن گیا اس فطری ایجنڈے سے ٹکرائو نے گلوبلائزیشن کے ثمر آور عمل کو بری طرح ڈسٹرب کیا اور کر رہا ہے۔یوکرین کو نیٹو کا سرگرم رکن بنانے کی امریکن اینگلو سیاست اور اس پر حریف کا غیر متوقع ردعمل یوکرین پر روسی حملے کی شکل میں نکلا اس سے یورپ کی اقتصادی حالت کتنی متاثر ہوئی اس کا بالکل درست اندازہ لگانا بھی کوئی آسان نہیں۔CONNECTIVITY کے چینی عالمی فلسفہ، دو بڑے متحارب کیمپس کی بجائے ریجن ٹو ریجن اور ریجنز کے باہمی تعاون کی وسیع تر شکل اختیار کر رہا تھا جو اب مشرق وسطیٰ کی تشویشناک صورتحال سے جیسے تھم گیا۔بڑا سوال دنیا بھر کے سنجیدہ اور معیاری تھینک ٹینکس سے یہ ہے کہ مافیاز اور جائز و ناجائز مال سے تشکیل مافیا راج اور ان کے معاونین کے مقابل دنیا کی اربوںکی آبادی کا امن، ضروریات، استحکام و خوشحالی کے مقابل انٹرنیشنل اولیگارکی (مافیا راج) کی مداخلت قبضے تسلط اور ناجائز اور تکلیف دہ غلبہ انسانیت کیلئے لازم ہے اقوام متحدہ کی بے بسی بلکہ عالم نزاع میں گلوبلائزیشن کی بحالی یا انٹرریجنل کوآپریشن یا جنگوں اور فلسطین و کشمیر جیسے سلگتے مسائل کے اسٹیٹس کا خاتمہ کس کا متقاضی ہے؟ اور آخر الذکر عالمی ضرورت ہرعالم تقاضا ہو تو یہ کیونکر ہو؟

تازہ ترین