اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق فروری 2022ءسے اب تک یوکرین میں دس ہزار چار سو اور 7اکتوبر 2023ءسے غزہ میں 34ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور کئی یورپین ممالک اسرائیل اور یوکرین کو اسلحے سے لیس کر رہے ہیں۔ امریکہ اور G7کے ممالک اپنا اسلحہ بیچنے کیلئے تیسری دنیا کی سرزمین پر جنگوں کیلئے منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے نفرت اور تعصب کے ساتھ ساتھ انسانیت بھی تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے۔ دوسری طرف ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک برکس (BRICS)کے فورم پر اکھٹے ہو کر امریکہ اور یورپ کے مقابلے میںاپنے تحفظ کیلئے سرگرم ہیں۔کئی بین الاقوامی دانشور مشرق اور مغرب کی اصلاحات استعمال کرکے نفرت اور تعصب کو ہوا دیتے ہیں ۔ مغرب کی تہذیب و تمدن اور ٹیکنالوجی کے عروج اور مشرقی اقتصادی بے حسی کو تاریخ سے جوڑتے ہیں ۔ تمام ایجادات کو مغرب کا مرہون منت سمجھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپین ممالک نے بین الاقوامی اداروں کی تشکیل اس طرح سے کی ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک کیلئے وبال جان بن گئے ہیں ۔ وہ مشرق اور مغرب کے تہذیب و تمدن کی تاریخ سے واقفیت کے بجائے ایسے زعم میں مبتلا ہیں اور ایسے ایسے مفروضے گھڑ لیتے ہیں جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مشرق و مغرب ملکر کبھی اس دنیا کو امن، مساوات، جمہوریت ، خوشحالی اور گرین ماحولیات کا گہوارہ نہیں بننے دیں گے۔
اس جنگ و جدل کے دور میں ایک طرف G-7 ممالک ہیں اور دوسری طرف چین تیسری دنیا کے ممالک کو BRICSفورم کے تحت اکٹھا کر رہا ہے۔بین الاقوامی مبصرین اسرائیل اور غزہ ، روس اور یوکرین کی جنگوں کو G-7بمقابلہ BRICSکے تناظر میںبھی دیکھ رہے ہیں جس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دنیا ایک تصادم کی راہ پر گامزن ہے۔چین اس وقت تیسری دنیا کے ممالک کی سرپرستی کر کے ایک مضبوط معاشی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ۔اگر برکس کا فورم کامیابی کی طرف بڑھا تو ڈالر کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور یوں تیسری دنیا پرامریکی تجارتی پابندیاں بے اثر ہوسکتی ہیں۔ امریکہ نے پوری کوشش کی کہ وہ چین کی ابھرتی ہوئی اقتصادی ترقی کی راہ میں سخت سے سخت اقتصادی رکاوٹیں کھڑی کرے لیکن اسکے باوجود اب بھی چین کی جی ڈی پی کی حالیہ ترقی 5.5فیصد ہے اور امریکہ کی 2.5فیصد ۔ جس سے مبصرین کا خیال ہے کہ جلد یا بدیر امریکی ایمپائرزوال پذیر ہو سکتی ہے لیکن وہ یہ خطرہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ایسے حالات میں امریکہ تائیوان کو محصور کر کے سائوتھ چائینہ سی میں جنگ و جدل شروع کر سکتا ہے جیسا کہ برطانیہ نے1776اور 1812ء میں بھی اپنی گرتی ہوئی نو آبادیاتی سلطنت کو سہارا دینے کیلئے کوشش کی لیکن وہ دونوں جنگیں ہار گیا ۔ان جنگوں میںانسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تباہی بھی ہوتی ہے۔
جیوگرافر جونی سیگر نے یونیورسٹی آف ورمنٹ میں ایک ریسرچ اسٹڈی کرتے ہوئے لکھا کہ فوجی صرف جنگ میں تباہی نہیں مچاتے بلکہ وہ امن کے زمانے میں بھی ماحولیاتی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔صنعتی انقلاب نے منافع کے لالچ اور ہر قیمت پر پیداوار کے اضافے کو سرمایہ داری کا شعار بنا دیااور یوں یہ کرہ ارض ماحولیاتی نظام سے مطابقت برقرار نہ رکھ سکا۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی فراوانی کے بعد جہاں نئی نئی ایجادات ہوئیں ، وہیں بڑی بڑی کارپوریشنز نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنا مطیع بنا لیا۔سرمایہ دارانہ نظام ہر قیمت پر منافع کمانے کی جستجو میںاتنا آگے چلا گیاکہ ایک طرف ماحولیات کو تباہ و برباد کر دیا ،دوسری طرف تمام سماجی رشتوں کو بڑی بڑی کارپوریشنز کے توسط سے دیکھنا شروع کر دیا۔کرونا وائرس کے دنوں میں نیویارک میں جو ماسک پہلے 75سینٹ کا مل رہا تھا ، وہ 7ڈالر تک چلا گیا، جس کو خریدنے کی سکت نیویارک ریاست کے پاس بھی نہ تھی۔کرونا وائرس نے اکیسویں صدی میں ایک پیغام کھل کر دے دیا ہے کہ یہ بے لگا م سرمایہ دارانہ نظام بہت دیر تک نہیں چل سکتا اور اسکے لیے ضروری ہے کہ پوری دنیا کے ممالک بین الاقوامی نظام کے تحت نیچر سے اپنا ٹوٹا ہو ارشتہ جوڑیں، کیونکہ دنیا کے تمام ممالک اب ایک گلوبل ویلیج بن گئے ہیں اور وہ اچھے اور برے حالات میں برابر کے حصہ دار ہونگے اور کوئی بھی قوم خواہ وہ کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو،ماحولیات اور نیچر سے الگ ہو کر اپنی خوشحالی کا اہتمام نہیں کر سکتی۔آج اکیسویں صدی میںجنگی سازوسامان پر اپنی دولت برباد کرنے کی بجائے دنیا کی معاشی نشو ونماکی مشترکہ تدابیر پر وسائل خرچ کرنا ہونگے۔ اسکے ساتھ ساتھ جنگ و جدل کے خاتمے اور ماحولیاتی نظام کی بقا کیلئے ایک واضح ، مکمل اور قابل عمل بین الاقوامی نگہداشت کا نظام اپنانا ہوگا۔ یہ بین الاقوامی نظام صرف اور صرف اقوام متحدہ فراہم کر سکتی ہے۔اس سے پہلے اقوام متحدہ کے تحت تخفیف اسلحہ ، نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور اسلحہ سازی کی نگہداشت ، اور متنازع علاقوں میں اقوام متحدہ کی افواج بھیجنے کے معاملات میں بین الاقوامی نگہداشت کا طریقہ کار موجود ہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ آج تمام اقوام ملکر تہذیب و ثقافت ، عقائد کے اختلافات اور نیشنل ازم کے تضادات کو بالائے طاق رکھ کر اقوام متحدہ کو وہ طاقت فراہم کریں تاکہ دنیا کی تمام سرمایہ دارانہ کارپوریشنز اور ممالک اس فورم کے فیصلوں کے پابند ہوں۔ یوں بین الاقوامی نگہداشت کا طریقہ کار ارتقا پذیر ہوکر ایک بہتر دنیا کی نوید سنا سکتا ہے جہاں امن اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ نوع انسانی کا تحفظ بھی ممکن ہوگا۔