مبشرہ خالد، گلشنِ اقبال، کراچی
یوں تو پاکستان میں ہر شعبہ ہی روبۂ زوال ہے لیکن اس انحطاط کے سب سے زیادہ اثرات ہمارے شعبۂ تعلیم پر مرتّب ہوئے ہیں۔ مُلک بَھر میں جا بہ جا پرائیویٹ اسکولز کے نام پر کاروباری مراکز وجود میں آ چُکے ہیں، جن کی ہوش رُبا فیسز کی وجہ سے غریب طبقہ تو کُجا، مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اپنے بچّوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور کر دیے گئے، جب کہ دوسری جانب کالجز اور جامعات کا ماحول بھی کسی طور پر حصولِ تعلیم کے لیے سازگار نہیں رہا۔
زیرِ نظر مضمون میں کالجز اور جامعات کے ماحول اور ان میں زیرِ تعلیم طلبہ کے طور طریقوں اور رنگ ڈھنگ پر روشنی ڈالی جا رہی ہے، جو ہمارے معاشرے کی مجموعی صورتِ حال کی بھی عکّاسی کرتی ہے۔
پھٹی ہوئی جینز، کُھلے گریبان
علی حیدر کا مشہورِ زمانہ گیت، ’’پُرانی جینز اور گٹار‘‘ شاید 90ء کی دہائی کے طلبا کے لیے تھا، کیوں کہ آج کل کے طالب علم تو پھٹی ہوئی جینز اور کُھلا ہوا گریبان زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہماری طلبہ بالخصوص طالب علموں سے گزارش ہے کہ وہ کم از کم اپنے حلیے اور وضع قطع سے تو خود کو طالب علم ثابت کریں، نہ کہ لوگ انہیں کوئی سرپھرا،آوارہ گلی محلّے کا غنڈہ سمجھتے رہیں۔
ہوائی چپّل
ویسے چپّل تو امّاں کے ہاتھ سے ہوا میں اڑتی ہوئی ہی اچّھی لگتی ہے،نہ کہ جامعہ جاتے ہوئے طلبہ کے پائوں میں پہنی ہوئی۔ ہماری گزارش ہے کہ براہِ مہربانی کم از کم جامعہ جاتے ہوئے تو بہتر جوتے پہن لیا کریں، تاکہ کسی طور تو کچھ مہذّب انسان دکھائی دیں۔
قلم ہے، میزائل نہیں
جامعہ جاتے ہوئے راستے میں اگر کوئی ضرورت مند بچّہ قلم بیچ رہا ہو، تو اُس سے خریدنے میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں۔ یوں اُس بے چارے کا بھی کچھ بھلا ہو جائے گا اور آپ کو اپنے ساتھ بیٹھی رِدا ، سونیا، شبانہ، فرزانہ سے بھی قلم نہیں مانگنا پڑے گا۔
نشے کی لت
آج کل کالجز اور جامعات میں سگریٹ نوشی اور منشیات کا استعمال بھی بے دریغ ہو رہا ہے۔ پہلے پہل تو صرف طلبا ہی ان منفی سرگرمیوں میں ملوّث تھے، مگر اب طالبات بھی کُھلے عام سگریٹ سمیت دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال معیوب نہیں سمجھتیں۔ نیز، اب درس گاہوں میں منشیات کی سپلائی بھی اس ’’احسن انداز‘‘ سے جاری ہے کہ طلبہ کے لیے صرف دُعا ہی کی جا سکتی ہے۔
وقت کی قدر
کچھ پروفیسرز تو دیر سے آنے پر کلاس میں قدم بھی نہیں رکھنے دیتے ،مگر بعض بے چارے خاموش ہو کے رہ جاتے ہیں۔ بہتری اسی میں ہے کہ آپ اُن کی خاموشی سے ناجائز فائدہ اٹھانا چھوڑ دیں، کیوں کہ جامعہ سے فارغ التّحصیل ہونے کے بعد آپ جس ادارے میں بھی ملازمت کریں گے، وہاں وقت کی پابندی کرنا لازم ہوگا، بہ صورتِ دیگر آپ کو کھڑے کھڑے فارغ کر دیا جائے۔
مذکورہ بالا ’’صفات‘‘ کے علاوہ آج کل کے طلبہ میں بعض ایسی عادات بھی پائی جاتی ہیں کہ جو ان کے وقت، پیسے اور توانائی کے زیاں کا سبب بن رہی ہیں۔ تو ہماری طلبہ سے التماس ہے کہ براہِ خدا اپنی وضع قطع اور عادات و اطوار سے خود کو طالبِ علم ثابت کریں، نہ کہ کوئی اوباش نوجوان۔