• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
پاکستانی قوم اتنی ہائپر کیوں رہتی ہے؟ یا پھر عصری کیفیات و حالات انہیں ہائپر کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمارے یہاں تو مرد و خواتین دونوںہی طرف کا عالم یہ ہے کہ کہیں سے بھی کوئی سکون و اطمینان میں نظر نہیں آتا۔ معلوم نہیں پاکستانی قوم کی یہ طبیعت و مزاج کس طرف کا اشارہ ہیں۔ کن حالات کی یہ کارفرمائی ہے کہ انسان ہی انسان کو تو چھوڑیئے قوم ہی قوم کی دشمن نظر آتی ہے۔ گاڑیوں تلے روندنے والے سوچتے ہی نہیں کہ یہ بھی انسان ہیں اور جان سے جا بھی سکتے ہیں مگر ہم نے تو اپنا غصہ نکالنا ہے، اپنی پاور دکھانا ہے کہ ہم کون ہیں اور کتنی پاور رکھتے ہیں اور کیا کچھ کرسکتے ہیں کہ ہمیں ہاتھ لگانے والا کوئی نہیں۔ سرعام ہی ڈھٹائی کا عالم ہے کہ انسان کا باؤلا پن دیکھو کہ وہ یہ سوچے بغیر گاڑی تلے آپ کو روند دے گا کہ اگر سامنے والا شخص ان کی ڈھٹائی سے قتل ہوگیا تو وہ قاتل کہلائیں گے۔ رپورٹ درج ہوگی، مقدمے بھگتیں گے، میڈیا اور سوشل میڈیا پر بدنام ہوں گے مگر ایسی کوئی فکر اونچی رسائی رکھنے والوں کو کہاں ہے۔ ہمارے لوگ طاقت کی مستی میں بھی مطمئن نہیں ہیں ورنہ وہ خاتون بے چارے پولیس مین کو غصے کی شدت نہ دکھاتیں۔ غصے اور طاقت کا ملاپ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو آپ کو تو شانت ہو جانا چاہئے۔ کیا پاکستانی قوم کو بددعا ہے کہ وہ ہر حال میں ہائپر ہی رہے اور اپنا غصیلہ پن اپنوں ہی کو دکھاتے رہیں۔ آپس میں ہی جھگڑ کر تمام ہو جائیں، کیسی قوم ہیں ہم۔ بھارتی قوم تو غربت کی شدت سے بھی ہائپر نہیں ہوتی۔ مرچوں کی چٹنی سے روٹی کھا کر بھی اطمینان سے سوتے ہیں مگر آبادی خوب بڑھ رہی ہے ان کی۔ وہ حالات جو ہمارے کراچی میں ڈاکہ زنی کے ہیں ویسے ہی حالات بھارت کے کسی شہر کے بھی نہیں ہیں اگر ہیں تو کم ہی ہوں گے زیادہ نہیں۔ ایک مرتبہ ان کے معروف اداکار سلمان خان نے سڑک پر سوئے کچھ غریب لوگوں کو اپنی کار سے روند ڈالا تھا تو وہ ابھی تک اس حادثے کے مقدمے بھگت رہے ہیں۔ ان کے جرم کو صاحب حیثیت ہونے کی وجہ سے چھوٹ نہیں دی گئی بلکہ ان پر باقاعدہ چابک دستیاں برسائی گئیں۔ حالانکہ وہ غصےمیں ہائپر ہو کر کار نہیں چلا رہے تھے اور نہ ہی کسی سے دشمنی تھی بلکہ وہ نشے میں تھے۔ ہمارے یہاں بھی ایک تو ہائپر ہو کر اور دوسرے نشے میں دھت ہو کر اور تیسرا طاقت کے زور پر عام لوگوں کو روند دیتے ہیں۔ اب دیکھئے کہ وہ خاتون ہو کر اپنا غصیلہ پن دکھا گئیں اور پولیس مین سے بدتمیزی کرنے کے بعد دوسرے پولیس مین کو ویسے ہی کہا کہ ’’سامنے سے ہٹ جاؤ‘‘۔ وہ نہیں سائیڈ پر ہوا تو گاڑی سے ہٹ کرکے آگے بڑھ گئی۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ کسی اینکر کی بیوی ہیں۔ لوگوں کو اور سوشل میڈیا کو ایک نیا چٹکلا ہاتھ آنے والا ہے۔ پھر دیکھئے کہ خاتون کو کس نوعیت کی سزا ملتی ہے یا پھر دوسرے جرائم والے بڑے بڑے لوگ جیسے بچ جاتے ہیں اسی طرح یہ بھی بچ جائے۔ اب دیکھئے کہ دنیا میں ہر طرح کے زیادہ تر دن خوشی کے عالمی طور پر منائے جاتے ہیں مگر ایسا کیا ہوا کہ یہ عجیب دن منانے کی ضرورت بھی پڑ گئی۔ جسے ’’رواداری اور برداشت‘‘ کا دن کہا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تمامم قوموں کو یہ سمجھانا ہے کہ عدم برداشت اور عدم رواداری کے کیا نقصانات ہیں۔ کسی بھی قسم کے اخلاقیات سے متعلق دن کا اثر پاکستانی قوم پر تو ہونے سے رہا۔ پاکستانی قوم مرڈر ڈے منا سکتی ہے یعنی قتل اور قاتل کے دن منا سکتی ہے مگر رواداری اور برداشت کا دن منانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ شکر ہے کہ کچھ اخلاقی دن ہماری قوم منا لیتی ہے جیسے کہ مدرز ڈے، فادرز ڈے، خواتین کا عالمی دن، ویلنٹائن ڈے اور دیگر اچھے دن منا لیتے ہیں مگر یہ برداشت کا عالمی دن نہیں منائیں گے کیونکہ ہائپر ہوتی قوم کو برداشت کچھ نہیں ہوتا تو یہ دن وہ کیوں پھر منائیں؟ اب سوال یہ ہے کہ پاکستانی قوم میں ہائپر ہونے کی اور عدم برداشت کی وجہ کیا ہے؟ اور پاکستان دسویں نمبر پر کیوں ہے اس فہرست میں؟ تو اس کی بڑی وجہ میرے نزدیک یہ بھی ہے کہ سیاست دانوں کے ٹھاٹ باٹ، ان کے پروٹوکول کی شان دھان، عام لوگوں پر گراں گزرتی ہے۔ ٹریفک کے مسائل سے محنت کش طبقہ پریشان ہوتا ہے یہ سب دیکھ کر ان میں احساس کمتری بھی ہے، دنیا بھر میں مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور ظلم و ستم کی کہانیاں اور واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ مگر پاکستان میں تو یہ مسائل بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ہر کسی کو جیسے ہائپر ہونے کا موقع چاہئے۔ اگر کسی نے دوسرے کو گھور کر بھی دیکھ لیا تو جان لو کہ اس سے برداشت نہیں ہوگا۔ معمولی معمولی باتوں پر گھروں ہی میں قتل و غارت گری شروع ہے کہ ساس نے بہو کے عیب پرزبان بند نہ کی تو بے دردی سے قتل کردی گئی۔ بیٹی نے باپ کے کہنے پر شادی نہ کی تو ذبح کردی گئی۔ جذباتی سطح کی تکرار بھی ہائپر کر دیتی ہے تو یہی حالیہ و عصری حالات ہیں جو قوم کو نفسیاتی مریض بنا رہے ہیں۔
یورپ سے سے مزید