• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ڈاکٹر نعمان برلاس۔نیوکاسل
نوجوان نے بجلی کی سی تیزی سے اپنا چہرہ اسٹیج کی طرف موڑ لیا، اگرچہ اس کے چہرے پر شرمندگی کے تاثرات صاف عیاں تھے۔ اس بھری کلاس سے نکل بھاگنا بھی تقریباً نا ممکن تھا، اس کی خوش قسمتی یہ کہ ایک تو طب شرعی کا کلاس روم کالج کے باقی لیکچر تھیٹرز سے کافی بڑا تھا اور دوسرے لڑکی کی آواز بھی کچھ ایسی اونچی نہ تھی، اس لئے قریبی قطاروں میں بیٹھے چند ہی لوگ اسے سن سکے، اس سے قطع نظر کہ لڑکے نے واقعی اسے گھورا تھا یا نہیں لڑکی کی دلیری قابل تعریف تھی اور ارد گرد بیٹھے طالب علموں کیلئے ایسا سبق بھی جو انہیں اس سے پہلے شاید کسی نے نہ پڑھایا تھا، لڑکی نے بس اتنا ہی کہا کہ میرے منھ پر کیا لکھا ہے، اس زمانے میں میڈیکل کالج میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں آٹھواں یا دسواں حصہ ہوتی تھی، کلاسز میں لڑکیاں اگلی قطاروں میں لڑکوں سے علیحدہ بیٹھتی تھیں۔ مگر یہ دراصل ایک مختلف قسم کی تقریب تھی لہٰذا کچھ طالبات پچھلی قطاروں میں بھی آ بیٹھی تھیں، پچھلے دنوں یو کے میں کام کرنے والے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ڈاکٹرز کے گروپ میں ایک ممبر نے بی بی سی اردو میں لکھے گئے ایک مضمون جس کا عنوان پاکستانی مردوں کا خواتین کو گھورنے کا مسئلہ، لڑکوں کو بچپن سے یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ یہ رویہ غلط ہے کو سب کے ساتھ شیئر کیا، بہت سے ممبران نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جس میں مرد اور خواتین دونوں ہی شامل تھے، کچھ لوگوں کا خیال تھاکہ شائد یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کی خواتین کو ہی درپیش ہے اور یہ بیماری صرف پاکستانی مردوں کو ہی لاحق ہے ،اس کے مقابلے میں عرب ممالک کے مرد حضرات خواتین کو دیکھ کر اپنی نظریں جھکا لیتے ہیں ایسے ہی مغربی ممالک میں بھی ایسا رویہ شاز ہی نظر آتا ہے پھر اس کی وجوہات پر غور وخوض ہونے لگا۔یہ خیال بھی پیش کیا گیا کہ یہ بیماری جدید اداروں میں جہاں بھاری بھر کم فیس لی جاتی ہے کے مقابلے میں ان اداروں میں زیادہ ہے جہاں متوسط اور دور دراز علاقوں سے آئے طالب علموں کی اکثریت ہوتی ہے، ایک ممبر نے ہوشیاری سے بحث کا رخ موڑتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ کیوں نہ اسے تعلیمی اور تحقیقی انداز میں دیکھا جائے، یہ جانچا جائے کہ یہ طبی مسئلہ ہے یا ذہنی بیماری ہے، علاقائی، ملکی یا بین الاقوامی سطح پر اس رویہ سے متعلق کیا رائے ہے۔ اس رویئے کی وجوہات کیا ہیں، ایک سوچ یہ بھی تھی کہ اس کا مذہب، رنگ، نسل اور علاقے سے کوئی تعلق نہیں، غور کیا جائے تو ذاتی تجربات کو چھوڑ کر یہ رائے زیادہ درست معلوم ہوتی ہے، دراصل مضمون کو پڑھا جائے تو اس کے عنوان ہی میں اس کا جواب بھی ہے جس میں سکھانے یعنی تربیت کا ذکر ہے۔ یہ تربیت ہی ہے جس سے حیوان ناطق کو انسان بنایا جا سکتا ہے، تربیت سے تو شیر جیسے درندے کو بھی سدھایا جا سکتا ہے، مسئلہ حیوانی جبلت پر قابو کا ہے،اس سلسلے میں سالہا سال پیشتر بچوں کے ایک مشہور ماہانہ رسالے’’تعلیم و تربیت‘‘ کا نام ذہن میں آتا ہے، یہ نام تعلیم کے ساتھ تربیت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، قرآن کریم پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر آخر الزماںﷺ کی شان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور انہیں پاک ( ان کا تزکیہ) کرتے ہیں، خالی تعلیم حکمت کے بغیر ادھوری اور دونوں تزکیہ کے بغیر بے فائدہ۔ مجھ جیسے ناظرہ یا زیادہ سے زیادہ اردو ترجمہ پڑھنے والے تزکیہ کی ہمہ جہتی کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں جس کا تعلق تعلیم اور حکمت سے حاصل کی گئی رہنمائی پر مبنی تربیت سے ہے، تزکیہ یا پاک ہونا نہا دھو کر پاک صاف ہونا نہیں بلکہ مسلسل تربیت سے اپنے آپ کواور اپنے معاشرے کو بری عادات، مکروہات، تعصبات اور برائیوں سے پاک کرنا ہے، نبی اکرمﷺ نے یہ فریضہ نبھایا اور پھر اسے اپنے بعد اپنی امت کے حوالے کر دیا، اللہ کی طرف سے دی گئی کتاب میں اوپر بیان کئے گئے مسئلے اور اسی طرح کے بے شمار مسائل پر صاف ہدایات دی گئی ہیں جو اس طرح کی معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کیلئے کافی ہیں، اس ملک میں آ کر معلوم ہوا ان مسائل سے بچنے کیلئے یہاں لازمی کورسز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے یعنی تربیت پر تربیت، اسکولز سے شروع ہونے والی مسلسل تربیت ایک معاشرتی رویئے کو پروان چڑھاتی ہے، اجتماعی رویہ سماجی دباؤ یا سوشل پریشر کو جنم دیتا ہے۔ جس سے مختلف رویہ اپنانا خاصا دشوار ہو جا تا ہے، ضرورت قرآن میں دی گئی ہدایات کو رہنما اصول بناتے ہوئے یا کم از کم اپنے تئیں مسائل کی نشاندہی کر کے تربیت کا اہتمام ہے مگر ہم اور ہمارے اکابرین کچھ اس طرح کے مسائل میں الجھے ہیں کہ دنیاوی اور دینوی دونوں میدانوں میں منصوبہ بندی سے عاری ہیں، اسکولز، طالب علموں اور ان کے والدین کا سارا زور اچھے نمبر حاصل کرنے پر ہے تاکہ مادی مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جدید ریاست، ماں باپ یہاں تک کہ ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اس معاشرتی ذمہ داری سےپہلو تہی نہیں کر سکتا، چنیدہ آیت میں مردوں کیلئے واضح ہدایت ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اس کیلئے تربیت کا انتظام بچپن سے ہی ضروری ہے تاکہ یہ ان کی فطرت میں راسخ ہو جائے۔ صرف خواہش سے اس طرح کی بہتری محال ہے۔ اس کیلئے ہر سطح پر اہتمام، انتظام اور تربیت درکار ہے۔ سورہ النور آیت 26 تا30،مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں، یہی ان 30 پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔
یورپ سے سے مزید