• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعدیہ اعظم، کراچی

بعض الفاظ کے سماعت سے ٹکراتے ہی ہمیں ایک فرحت بخش احساس ہوتا ہے اور اُنہی میں لفظ ’’چھٹیاں‘‘ بھی شامل ہے۔ یہ لفظ سُنتے ہی ہمارے تھکے ہوئے جسم اور بوجھل دماغ میں ایک تازگی کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ درحقیقت، انسان معمولات کی یک سانیت اور روزمرّہ کاموں کی وجہ سے تھک جاتا ہے اور ایسے میں ایک معمولی سی تبدیلی بھی اُس کے مزاج پر خاصے مثبت اثرات مرتّب کرتی ہے۔ 

دُنیا کے مختلف ممالک میں طلبہ کو ایک سے دو ماہ کی تعطیلات ضرور ملتی ہیں، جب کہ پاکستان میں موسمِ گرما کی تعطیلات دو سے تین ماہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور اِس عرصے کو بچّوں کے ساتھ گزارنے کے لیے سب والدین کو لازماً کوئی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

آج کل مسابقت کے ماحول کے باعث جہاں بچّوں کی تعلیمی مصروفیات خاصی بڑھ گئی ہیں، وہیں گرانی اور نت نئے اخراجات کے باعث والدین کی معاشی سرگرمیوں میں بھی بہت اضافہ ہوگیا ہے۔ بعض گھرانوں میں ماں اور باپ دونوں ہی اپنی ملازمت کے سلسلے میں سال بھر مصروف رہتے ہیں اور بچّوں پر بھرپور توجّہ نہیں دے پاتے۔

ایسے والدین کو چاہیے کہ وہ بچّوں کی تعطیلات کے دوران خُود بھی چھٹیاں لے لیں اور اپنے بچّوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ اور اگر طویل رخصت ملنا ممکن نہ ہو، تو اپنی ہفتہ وار چُھٹی ہی کو اپنے بچّوں کے ساتھ بھرپور انداز میں گزاریں۔ یاد رہے کہ جس اولاد کی ضروریاتِ زندگی کو بہتر طریقے سے پورا کرنے اور بہترین تعلیم و تربیت کے لیے آپ دن رات محنت کرتے ہیں، اُنہیں آپ کی توجّہ، وقت اور محبّت کی بھی اشد ضرورت ہے۔

آج کل ہم نئی نسل میں کئی منفی رجحانات، عادات اور رویّے دیکھ رہے ہیں، جس کا ایک اہم سبب، والدین کی طرف سے اُن کی تربیت کی ذمّے داری احسن طور پر پوری نہ کرنا ہے۔ نبیٔ کریم حضرت محمّدﷺ کی احادیث کے مطابق باپ کی طرف سے اولاد کو دیا جانے والا بہترین عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے اور ماں کی گود بچّے کی پہلی درس گاہ ہے۔ 

اِس لیے بچّوں اور اپنی تعطیلات کو اُن کی تربیت کا بہترین موقع تصوّر کرتے ہوئے اپنے بچّوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ یاد رہے کہ گھر سے باہر آپ کا بچّہ آپ کا اور آپ کے خاندان کا تعارف ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کی ایک بڑی ذمّے داری سے غفلت آپ کے بچّے کو معاشرے کے دیگر افراد کے لیے باعثِ آزار بنا دے۔

آج ہم معاشرے میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح دیکھ رہے ہیں۔ طلبہ کا اپنے اساتذہ سے ناروا سلوک، امتحانوں میں نقل کرتے ہوئے پکڑے جانے پر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنا، بے حسی اور سفّاکی، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مختلف جرائم میں ملوّث ہونا، شادی کے چند ماہ بعد ہی گھروں کا ٹُوٹ جانا، اپنی ذمّے داریوں سے غفلت برتنا اور لوگوں میں حرص اور طمع بڑھنے سمیت دیگر کئی مسائل عام ہوتے جا رہے ہیں۔ 

واضح رہے کہ یہ معاشرہ مجھ سے، آپ سے اور ہمارے بچّوں سے مِل کر ہی بنا ہے۔ لہٰذا، اپنے بچّوں کی تربیت احسن انداز سے کریں تاکہ معاشرے کو ایسی نسل دے سکیں کہ جو دل میں دوسروں کے لیے محبّت اور ہم دردی کا جذبہ رکھتی ہو، بڑوں کا ادب کرنا اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا جانتی ہو اور محنت، قناعت اور سادگی پر یقین رکھتی ہو۔ سو، اِن آنے والی تعطیلات میں اپنے بچّوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں۔ سب سے پہلے تو اُنہیں باقاعدگی سے نماز کی ادائی اور قرآنِ پاک مع ترجمہ پڑھنے کا عادی بنائیں۔ 

اُن سے، ان کی پسند کے ہر موضوع پر بات کریں۔ ان کےتمام تر دوستوں کے بارے میں، خود اُن ہی سے معلومات حاصل کریں۔ تعطیلات کے دوران انہیں مطالعے کے لیے مفید کُتب فراہم کریں اور پھر اُن کے بارے میں اُن سے گفتگو بھی کریں۔ اگر آپ نے وہ کُتب نہیں پڑھیں، تو بچّوں سے کہیں کہ وہ پڑھنے کے بعد آپ کو اُن کا خلاصہ بتائیں۔ اپنے بچّوں کو دُنیا کے لیے خدمات انجام دینے والے اور کام یاب ترین افراد کے بارے میں بتائیں۔ 

سیرت النبیﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی کے واقعات سنائیں۔ بچّوں سے ان کی دِل چسپی کے امور سے متعلق گفتگو کریں۔ سائنس، سیّاحت، تاریخ، مذہب اور سیاست سمیت حالاتِ حاضرہ پر نہ صرف بات چیت کریں، بلکہ اپنی رائے بھی دیں اور اُن کی رائے بھی جانیں۔ اس گُفت و شنید کے نتیجے میں ان کی ذہنی اُلجھنیں آپ کے سامنے آئیں گی اور آپ اُنہیں بہت حد تک دُور بھی کرسکیں گے۔

علاوہ ازیں، بچّوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی غرض سے ان کے لیے گھر میں چھوٹی چھوٹی مصروفیات تلاش کریں۔ مثال کے طور پر اپنے کمرے کی سیٹنگ تبدیل کرنا، کمرے اور گھر کی صفائی، کچن کے کاموں میں ہاتھ بٹانا، اپنے کپڑے استری کرنا یا الماری ٹھیک کرنا وغیرہ۔ 

نیز، گھر کی گنجایش کے اعتبار سے اُن کے لیے کسی آؤٹ ڈور یا اِن ڈور اسپورٹس کا بندوبست بھی کریں۔ انہیں اپنے ساتھ رشتے داروں سے ملوانے کے لیے لے جائیں تاکہ اُن میں صلۂ رحمی کا جذبہ پیدا ہو۔ یقین جانیے، اگر آپ اتنا بھی کرلیں، تو آپ کے بچّے معاشرے میں آپ کے لیے فخر اور صدقۂ جاریہ کا باعث بن جائیں گے۔