• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گفتگو: طلعت عمران

پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی کا شمار مُلک کے نام وَر گیسٹرو اینٹرولوجسٹ میں ہوتا ہے۔ تاہم، وہ معالج کے علاوہ ایک محقّق، مصنّف، مقرّر اور خواتین بالخصوص خواتین ڈاکٹرز کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی شخصیت کے طور پر بھی دُنیا بھر میں مشہور ہیں۔ پاکستانی خواتین کو درپیش صحت کے مسائل سے آگاہ بلند حوصلہ و عالی ہمّت ڈاکٹر لبنیٰ کمانی نے عام ڈگر سے ہٹتے ہوئے گیسٹرو اینٹرولوجی جیسے نسبتاً مشکل و کٹھن شعبے کا انتخاب کیا، جسے عام طور پر خواتین ڈاکٹرز اپنانے سے کتراتی ہیں۔ 

وہ گزشتہ کم و بیش 20برس سے ماہرِ امراض معدہ و آنت کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں اور اس وقت کراچی کے آغا خان یونی ورسٹی اسپتال اور لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ ہیں۔ وہ اپنی طبّی، علمی، تحقیقی اور سماجی کاوشوں کی بہ دولت نہ صرف کئی قومی و بین الاقوامی تنظیموں کا حصّہ ہیں بلکہ متعدد اعزازات بھی حاصل کر چُکی ہیں۔ 

پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی طبّ کے میدان میں اپنی گراں قدر خدمات کے صلے میں 2020ء میں برازیل میں منعقدہ ڈبلیو ای او کانفرنس میں ’’ورلڈ وَنڈر وومین اِن گیسٹرو اینٹرولوجی‘‘ کا اعزاز اور 2023ء میں’’ امریکن کالج آف گیسٹرولوجی‘‘ کے تحت کینیڈا میں منعقدہ کانفرنس میں’’وومین ڈسرپٹر آف دی ایئر ایوارڈ‘‘ اپنے نام کر چُکی ہیں۔ 

وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر لبنیٰ ایک سماجی رہنما اور محقّق کی حیثیت سے اقوامِ عالم میں پاکستان کی بھرپور نمائندگی کر رہی ہیں۔ نیز، انہیں اپنی علمی خدمات پر بھی مختلف قومی و بین الاقوامی ایوارڈز سے نواز جا چُکا ہے۔ ان کے کئی تحقیقی مضامین مختلف بین الاقوامی جرنلز میں شایع ہو ئے، تو اُن کے تحریر کردہ مضامین وقتاً فوقتاً پاکستانی انگریزی اور اردو اخبارات و جرائد کی زینت بھی بنتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں معدے اور آنتوں کے امراض سے متعلق ہماری ان سے خصوصی گفتگوہوئی، جو نذرِ قارئین ہے۔

س: ایک گیسٹرو اینٹرولوجسٹ نظامِ ہاضمہ سے متعلق کن کن اعضا کا علاج کرتا ہے؟

ج: گیسٹرو اینٹرولوجسٹ معدے و آنتوں کے امراض کا ماہر ہوتا ہے اور نظامِ ہاضمہ سے تعلق رکھنے والے تمام اعضا کا علاج کرتا ہے، جن میں ایسوفیگس، معدہ، آنتیں، جگر، لبلبہ اور پتّا وغیرہ شامل ہیں۔

س: کسی بھی فرد کو ماہرِ امراضِ معدہ و آنت سے کب رجوع کرنا چاہیے؟

ج: گرچہ معدے کی تیزابیت، پیٹ میں درد اور سینے کی جلن وغیرہ عام شکایات ہیں، لیکن میڈیکل سائنس کی رُو سے عام فزیشن یا فیملی ڈاکٹر سے علاج معالجے کے باوجود اگر چار سے چھے ہفتے مذکورہ علامات برقرار رہتی ہیں، تو پھر گیسٹرو اینٹرلوجسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کچھ تشویش ناک علامات جیسا کہ وزن گرنا، خون کی قے، پاخانے میں خون آنا، پیٹ میں شدید درد اور یرقان، نیز معدے، آنت اور جگر کے کینسر کی فیملی ہسٹری ہونے کی صُورت میں گیسٹرو اسپیشلسٹ سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے۔

س: کیا گیسٹرو اینٹرولوجسٹ کینسر کا علاج بھی کرتا ہے؟

ج: معدے، غذا کی نالی، بڑی آنت اور لبلبے سمیت نظامِ انہضام کا کوئی بھی حصّہ کینسر کی زد میں آسکتا ہے اور سب سے پہلے ایک گیسٹرو اینٹرولوجسٹ ہی اس کینسر کی تشخیص کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر دورانِ علاج کسی مریض کی غذا کی نالی میں کینسر تشخیص ہوتا ہے، تو اسے بائیوآپسی کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ بائیو آپسی کروانے سے کینسر پھیل جاتا ہے، جب کہ کینسر نے تو ویسے ہی پھیلنا ہے، چاہے آپ بائیو آپسی کروائیں یا نہ کروائیں۔

بائیوآپسی کروانے سے کینسر کی ٹائپ پتا چلتی ہے اور پھر اُسی اعتبار سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سی -ٹی اسکین کے ذریعے کینسر کی اسٹیج کا پتا لگایا جاتا ہے۔ البتہ کینسر کا علاج ملٹی ڈسپلنری ہوتا ہے اور اس میں گیسٹرو اینٹرلوجسٹ سمیت سرجن، ریڈیالوجسٹ اور اونکالوجسٹ پر مشتمل ڈاکٹرز کی پوری ٹیم حصّہ لیتی ہے۔ کینسر کی بات ہو رہی ہے، تو مَیں آپ کو یہ بھی بتاتی چلوں کہ ہر سال مارچ کا مہینہ کولوریکٹل کینسر کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے اور اسے ’’بلیو مَنتھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 

اس دوران دُنیا بَھر میں کولوریکٹل کینسر سے متعلق شعورو آگہی فراہم کی جاتی ہے۔ آج سے چند برس قبل کہا جاتا تھا کہ 50برس سے زائد عُمر کے افراد کو کولوریکٹل اسکریننگ یا کولونو اسکوپی کروانی چاہیے، جب کہ اب 45برس کے افراد کو بھی کولونو اسکوپی کا مشورہ دیا جاتا ہے، کیوں کہ اب جوان افراد بھی کولو ریکٹل کینسر میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

سرطان کی دیگر اقسام کی طرح اگر اس کینسر کی بھی بروقت تشخیص ہو جائے، تو اس کا علاج ممکن ہے۔ اسی طرح اگر کولونو اسکوپی میں مسّے ظاہر ہوتے ہیں، تو انہیں اُسی وقت جلا کر ختم کر دیا جاتا ہے، تاکہ وہ آگے چل کر کینسر کی شکل اختیار نہ کریں۔ عام طور پر مسّوں کے مرحلے میں مریض کو کسی قسم کی شکایت نہیں ہوتی، لیکن جب پاخانے میں خون آنے لگتا ہے اور وزن گرنا شروع ہو جاتا ہے، تو پھر مریض اسپتال کا رُخ کرتے ہیں۔

س: کولوریکٹل کینسر کے اسباب کیا ہیں؟

ج: کولو ریکٹل کینسر کی متعدد وجوہ ہیں۔ بریسٹ کینسر کی طرح یہ وراثت میں بھی ملتا ہے۔ یعنی اگر آپ کے خاندان میں کسی کو یہ کینسر ہے، تو پھر یہ آپ کو بھی ہو سکتا ہے، جب کہ دیگر اہم اسباب میں دائمی قبض، موٹاپا، پاخانے کی جگہ پر مسّے بننا اور تمباکو نوشی وغیرہ شامل ہیں۔

س: معدے، آنتوں اور نظامِ ہاضمہ کے دیگر امراض کے اعتبار سے پاکستان میں کیا صورتِ حال ہے؟

ج: ہمارے پاس اس ضمن میں باقاعدہ اعدادوشمار موجود نہیں ، لیکن ایک اندازے کے مطابق 25فی صد مریض سینے کی جلن اور تیزابیت سمیت نظامِ ہاضمہ کی دیگر امراض کی وجہ سے او پی ڈی میں آتے ہیں ۔ یہ تناسب بہت زیادہ ہے اور اس کا سبب ہمارا طرزِ زندگی ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر افراد نہایت بے ہنگم انداز میں کھانا کھاتے ہیں، حالاں کہ ہمارے تو دِین میں بھی پیٹ بھر کر کھانے کی ممانعت ہے، پھر بالخصوص کراچی میں زیادہ تر افراد رات کا کھانا خاصی تاخیر سے کھاتے ہیں، جو عموماً مرغّن غذاؤں پر مشتمل ہوتا ہے اور پھر یہ بھاری بھرکم کھانا کھانے کے فوراً بعد سو جاتے ہیں، نتیجتاً، کھانا ہضم نہیں ہوپاتا اور رات بھر معدے میں تیزابیت پیدا ہوتی رہتی ہے، جس سے سینے میں جلن شروع ہو جاتی ہے۔

علاوہ ازیں، تمباکو نوشی، موٹاپا، ورزش نہ کرنا، روزہ مرّہ کی خوراک میں فائبر کا فقدان، بازاری کھانے بالخصوص تَلی ہوئی اشیا کا استعمال اور بے وقت کھانا وغیرہ بھی نظامِ ہاضمہ کی خرابی کی بڑی وجوہ ہیں۔ اگر آپ اپنا ہاضمہ درست رکھنا چاہتے ہیں، تو ناشتے میں ابلا ہوا انڈا کھائیں، دودھ کا ایک گلاس پئیں اور پھل لیں، جب کہ اس کے برعکس ہمارے ہاں بیکری آئٹمز سے ناشتا کیا جاتا ہے، حالاں کہ ان میں کسی قسم کی غذائیت نہیں ہوتی، بلکہ الٹا یہ موٹاپے کا سبب بنتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ کھانا اچھی طرح چبا کر کھانا چاہیے ۔ڈِنر سونے سے تین گھنٹے پہلے کر لینا چاہیے اور رات سونے سے پہلے چائے نہیں پینی چاہیے۔ مَیں آپ کے توسّط سے قارئین کو یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ آج کل کی مائیں بچّوں کو مختلف کمپنیز کے تیار کردہ کباب، نگٹس اور نوڈلز وغیرہ تل کر کھلا رہی ہیں، تو ان ریڈی میڈفوڈ آئٹمز کی وجہ سے گیسٹرک کینسر ہو جاتا ہے، کیوں کہ یہ تمام اشیا ’’پروسیسڈ فوڈ‘‘ ہیں اور ان میں مختلف قسم کے کیمیکلز شامل کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیار مسالا جات بھی پروسیسڈ فوڈ ہی کی ایک قسم ہیں، جب کہ اس کی بہ جائے ماؤں کو خود گھر میں یہ تمام چیزیں تیار کر کے بچّوں کو کھلانی چاہئیں۔ 

اسی طرح رنگ برنگی پیکنگ میں دست یاب نوڈلز کے مسالے میں سیسہ پایا جاتا ہے اور بھارت سمیت کئی ممالک میں اس پر پابندی عائد ہے۔ اگر بچّے نوڈلز کھانے کے شوقین ہیں، تو مائوں کو چاہیے کہ وہ ان میں چکن اور مختلف سبزیاں ضرور شامل کریں اور گھریلو ساختہ مسالے استعمال کریں۔ گرچہ ان ریڈی میڈ کھانوں سے مائوں کو سہولت مل جاتی ہے اور بچّے بھی خوش ہو جاتے ہیں، لیکن یہ ہمارے بچّوں کے نظامِ ہاضمہ کے لیے بہت نقصان دہ ہیں۔ پھر ان دنوں پاکستان میں فیٹی لیور کا مرض بھی بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، کیوں کہ موٹاپے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے 10بڑے ممالک میں شامل ہے اور ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہے۔ موٹاپے کی وجہ ہی سے فیٹی لیور ہوتا ہے اور ابھی تک مارکیٹ میں اس کی ادویہ دست یاب نہیں ہیں۔ 

لہٰذا، اس سے بچاؤ کے لیے ہمیں اپنا کولیسٹرول، ذیابطیس اور وزن کنٹرول کرنا ہو گا اور اس کے لیے ورزش بھی نہایت ضروری ہے۔ فیٹی لیور سے بچائو میں بلیک کافی اہم کردار ادا کرتی ہے، کیوں کہ اس میں کیلوریز نہیں ہوتیں۔ نیز، یہ ہمارا میٹابولزم تیز اور چکنائی کی مقدار کم کرتی ہے۔ ہمیں روزانہ بلیک کافی کے دو کپ ضرور پینے چاہئیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں بلیک کافی اور گرین ٹی کی بہ جائے مٹھاس سے بھرپور ’’دودھ پتّی‘‘ پر زور دیا جاتا ہے، حالاں کہ یہ موٹاپے کا بہت بڑا سبب ہے۔ 

اس کے علاوہ مَیں یہ مشورہ بھی دینا چاہتی ہوں کہ ہمیشہ ابلا ہوا پانی استعمال کریں، کیوں کہ ہمارے مُلک میں نلکے کا پانی صاف نہیں ہے۔ پاکستان کے کم و بیش 70فی صد شہریوں میں ہیلی کوبیکٹر پائیلوری نامی معدے کا انفیکشن پایا جاتا ہے، جو معدے کا السر کا سبب بنتا ہے اور یہ آلودہ پانی ہی سے پھیلتا ہے۔ لہٰذا، پانی ابال کر پینا چاہیے۔ اس کے ساتھ روزانہ تازہ پھل اور سبزیوں کا استعمال لازماً کریں۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (تصاویر: جنید احمد)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (تصاویر: جنید احمد)

س: کیا مُلک میں پائی جانے والی بے یقینی اور منہگائی میں ہوش رُبا اضافے جیسے عوامل کے سبب بھی نظامِ ہاضمہ کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے؟

ج: جی ہاں۔ مُلک کے معاشی و سیاسی حالات، افراطِ زر اور امن و امان کی ناقص صورتِ حال سے شہریوں میں پیدا ہونے والا ذہنی تنائو بھی ان امراض میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے۔

س: زیادہ تر مریضوں کا تعلق کس ایج گروپ اور صنف سے ہوتا ہے؟

ج: چند برس قبل تک زیادہ تر ادھیڑ اور بڑی عُمر کے افراد کو نظامِ ہاضمہ کے عوارض لاحق ہوتے تھے، لیکن اب بچّوں اور ٹین ایجرز میں بھی معدے کے امراض سامنے آ رہے ہیں، جس کا سبب اُن کا طرزِ زندگی ہے۔ آج کل بچّے اور ٹین ایجرز دن بھر موبائل فون اور کمپیوٹر استعمال کرتے رہتے ہیں اور پھر جنک فوڈ کھا کر سو جاتے ہیں، جب کہ کھیل کُود سے کوسوں دُور ہیں۔ 

علاوہ ازیں، عالم گیر وبا کووِڈ۔ 19کی وجہ سے بھی معدے کے امراض میں اضافہ ہوا، کیوں کہ لاک ڈائون کے دوران آن لائن کلاسز اور ورک فرام ہوم کا سلسلہ شروع ہونے سے لوگوں کی بیرونی سرگرمیاں کم ہو گئیں۔

س: کیا ہمارے مُلک میں مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے گیسٹرو اینٹرولوجسٹس کی تعداد کافی ہے؟

ج: گرچہ اب پاکستان میں گیسٹرو اینٹرولوجسٹس کی تعداد کافی بڑھ چُکی ہے، لیکن ان کی اکثریت بڑے شہروں میں خدمات انجام دے رہی ہے اور دُور دراز دیہات میں یہ سہولت دست یاب نہیں ہے، جس کا سبب اُن علاقوں میں وسائل کی کمی ہے۔ علاوہ ازیں، ہمارے مُلک میں خاتون گیسٹرو اینٹرولوجسٹس بہت کم پائی جاتی ہیں۔ خواتین کی آبادی کے تناسب سے مُلک میں 50فی صد فی میل گیسٹرو اینٹرولوجسٹس ہونی چاہئیں، جب کہ ان کی تعداد 10فی صد سے بھی کم ہے۔ 

پھر ہمارے معاشرے میں فی میل گیسٹرو اینٹرولوجسٹس کا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہماری خواتین مَرد ڈاکٹرز سے کولونو اسکوپی کروانا پسند نہیں کرتیں، جب کہ بعض خواتین تو اس وجہ سے مَرد ڈاکٹرز سے اینڈو اسکوپی بھی نہیں کرواتیں کہ اس کے لیے اُنہیں نقاب اُتارنا پڑتا ہے اور یہ اُن کا حق بھی ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ دُور دراز علاقوں سے خواتین صرف اس لیے بڑے شہروں میں آتی ہیں کہ وہ کسی خاتون گیسٹرو اینٹرولوجسٹ سے اپنا علاج کروا سکیں۔ ایسا صرف پاکستان یا دیگر اسلامی ممالک میں نہیں ہوتا، بلکہ دُنیا بَھر میں خواتین کولونو اسکوپی کے لیے فی میل گیسٹرو اینٹرولوجسٹس ہی کو ترجیح دیتی ہیں۔ لہٰذا، ہمارے مُلک میں خواتین گیسٹرو اینٹرولوجسٹس کی اشد ضرورت ہے۔

س: اس شعبے میں خواتین ڈاکٹرز کی تعداد کم کیوں ہے؟

ج: کیوں کہ ایک گیسٹرو اینٹرولوجسٹ کی ٹریننگ خاصی سخت ہوتی ہے اور پھر کنسلٹنٹ شپ کا مرحلہ بھی خاصا دشوار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اینڈو اسکوپی یا فلورو اسکوپی سمیت دیگر ایڈوانسڈ پروسیجرز میں دورانِ حمل کام نہیں کیا جا سکتا اور پھر نائٹ شفٹ میں بھی کام کرنا پڑتا ہے اور جو فی میل ڈاکٹرز سخت ٹریننگ سے نہیں گھبراتیں، وہ گائنی کا شعبہ اختیار کر لیتی ہیں۔ ہر چند کہ اس وقت خواتین اس شعبے کا رُخ کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کی تعداد ناکافی ہے۔

س: گیسٹرو اینٹرولوجی کے علاوہ دیگر کن شعبہ جات میں خواتین ڈاکٹرز کا تناسب خاصا کم ہے؟

ج: اس کے علاوہ کارڈیالوجی، جنرل سرجری، آرتھوپیڈک، نیوروسرجری، ویسکیولر سرجری اور یورالوجی میں بھی مَرد ڈاکٹرز کا غلبہ ہے، جب کہ گائنی، ڈرماٹالوجی، ذیابطیس اور پِیڈز کے شُعبے میں خواتین ڈاکٹرز کی اکثریت ہے۔ تاہم، گیسٹرو اینٹرولوجی میں خواتین ڈاکٹرز کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ خواتین کی کولونو اسکوپی کرنا ہوتی ہے۔

س: کیا نظامِ ہاضمہ کے امراض کے جسم کے دیگر اعضا کی کارکردگی پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں؟

ج: اگر کسی فرد کو تیزابیت، سینے کی جلن یا قبض کی مسلسل شکایت رہتی ہے، تو وہ ٹھیک طرح کھا پی سکتا ہے اور نہ ہی صحیح طور پر اپنے معمولاتِ زندگی انجام دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں ذہنی تنائو جنم لیتا ہے، جو مزید بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں میں قبض کی شکایت بھی عام ہے اور اس کی بڑی وجہ فائبر اور پانی کا کم استعمال ہے۔ 

میرا قارئین کے لیے مشورہ ہے کہ وہ پانی پینے کے لیے پیاس کا انتظار نہ کریں، بلکہ پیاس کے بغیر بھی پانی پئیں۔ اس مقصد کے لیے آپ اُبلے ہوئے پانی کی بوتل ہمیشہ اپنے پاس رکھیں۔ عام دنوں میں 8سے 10جب کہ موسمِ گرما میں 10سے 12گلاس پانی ضرور پینا چاہیے۔ یاد رہے کہ قبض ہی سے تیزابیت، گیس اور بواسیر جیسے دیگر امراض جنم لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں، تیزابیت ہی دانتوں، گلے اور سانس کے امراض کاسبب بنتی ہے۔

س: ذیابطیس کے مریضوں میں نظامِ ہاضمہ کے عوارض کیا پیچیدگیاں اختیار کر سکتے ہیں؟

ج: اگر کوئی شخص ایک طویل عرصے سے ذیابطیس میں مبتلا ہے اور اس کی شوگر کنٹرول میں نہیں ہے، تو اس کے معدے اور آنتوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور اسے ڈائریا اور قبض بھی ہو سکتی ہے۔ البتہ شوگر کنٹرول میں ہو گی، تو مذکورہ امراض لاحق نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ ذیابطیس سے جگر اور لبلبہ بھی متاثر ہوتا ہے۔

س: جسم سے پِتّا نکلوانے کی صُورت میں نظامِ ہاضمہ پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں؟

ج: ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم کا کوئی بھی عضو بے مصرف نہیں بنایا۔ البتہ بعض اعضابہت اہم ہوتے ہیں اور کچھ کی اہمیت کم ہوتی ہے اور پِتّے کا شمار بھی موخر الذکر اعضا میں ہوتا ہے۔ اگر پِتّے میں پتھری ہو جائے، تو پھر وہ خراب ہونے لگتا ہے اور اسے نکالنا ضروری ہو جاتا ہے اور اس کے اخراج سے نظامِ ہاضمہ کی کارکردگی پر کوئی خاص فرق مرتّب نہیں ہوتا۔ البتہ ہم ایسے مریضوں کو چکنائی کے کم سے کم استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔

س: آلودہ پانی کے استعمال سے نظامِ ہاضمہ کے کون سے امراض لاحق ہو سکتے ہیں؟

ج: آلودہ پانی کے استعمال سے ہیلی کوبیکٹر پائیلوری انفیکشن ہو سکتا ہے۔ ہم ہیپاٹائٹس ’’اے‘‘ اور ’’ای‘‘ کا شکار ہو سکتے ہیں، جب کہ اس کے علاوہ ہیضہ بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی آلودہ پانی ہمارے معدے، آنتوں اور جگر کو بھی متاثر کرتا ہے۔

س: نظامِ ہاضمہ کو ’’دوسرا دماغ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

ج: اس کی وجہ یہ ہے کہ آنتوں میں بھی دماغ کی مانند نروز کی سپلائی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ہیلتھ سائیکالوجی میں ’’گَٹ برین ایکسز‘‘ کی اصطلاح عام ہے۔ آپ نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہو گا کہ ’’میرے دماغ میں گیس چڑھ گئی ہے۔‘‘ پہلے ڈاکٹر اس شکایت کو مضحکہ خیز قرار دے کر نظر انداز کر دیتے تھے، لیکن اب تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ دراصل بعض نیورونز کے دماغ میں داخل ہو نے سے یہ کیفیت ہو جاتی ہے۔ 

مثال کے طور پر ذہنی دباؤ کے شکار بہت سے لوگوں کو آئی بی ایس (ایریٹیبل بائول سینڈروم) ہو جاتا ہے، کیوں کہ حسّاس افراد کی آنتیں بھی حسّاس ہوتی ہیں۔ ہم آئی بی ایس میں مبتلا افراد کو عارضی طور پر اینٹی سائیکوٹک یا اینٹی اینزائٹی میڈیسنز لینے کا مشورہ دیتے ہیں، کیوں کہ اُن کا دماغ پُر سکون ہو گا، تو آنتوں کا تنائو بھی ختم ہو جائے گا۔

س: کیا معدہ خراب ہونے کی صُورت میں جگر بھی متاثر ہو سکتا ہے؟

ج: اگر کسی فرد کو معدے کا کینسر ہے، تو وہ جگر تک پھیل سکتا ہے۔

س: معدے اور آنتوں کے کون سے امراض جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں؟

ج: معدے اور آنتوں کا کینسر مُہلک ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اگر ابتدا ہی میں کینسر کی تشخیص ہو جائے، تو علاج ممکن ہے۔ مَیں یہاں ایک اور اہم بات بتانا چاہتی ہوں کہ معدے اور آنتوں کے کینسر کا ایک اہم سبب چھالیہ اور گٹکے کا استعمال بھی ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے افراد ان اشیا کو نشہ ہی نہیں سمجھتے، جو ایک نہایت غلط تصوّر ہے ، کیوں کہ معدے اور آنتوں کے کینسر کا ایک بڑا سبب یہی ہیں۔

س: گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ہاں خود کو سِلم اور اسمارٹ رکھنے کے لیے ایک وقت کا کھانا نہ کھانے کا رجحان عام ہو رہا ہے۔ کیا یہ دُرست ہے؟

ج: اسے ’’انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی آپ 8سے10گھنٹے میں دو مرتبہ کھانا کھائیں اور14سے16گھنٹے تک بھوکے رہیں۔ دراصل ’’انٹر میٹنٹ فاسٹنگ‘‘ رمضان المبارک سے ملتا جلتا ایک تصوّر ہے۔ ہمارے پیغمبرِ اکرم حضرت محمدﷺ نے آج سے ساڑھے1400برس پہلے بتا دیا تھا کہ جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور سائنس آج یہ ثابت کررہی ہے۔ فی الحقیقت، کھانا ہوتا ہی دو وقت کا ہے، جب کہ تیسری مرتبہ کھانا موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔ قصّہ مختصر، انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ ایک مفید عمل ہے اور اس سے وزن میں کمی واقع ہوتی ہے۔

س: کیا معالج کے مشورے کے بغیر زِنک کا استعمال کیا جا سکتا ہے؟

ج: جی ہاں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

’’وومین ڈسرپٹر آف دی ایئر ایوار‘‘ڈحاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شخصیت

پروفیسر ڈاکٹر لبنی کمانی کو گزشتہ برس کینیڈا میںاُن کی خدمات کے صلے میں ’’وومین ڈسرپٹر آف دی ایئر ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ اس ضمن میں انہوں نے بتایا کہ ’’مُجھے گزشتہ برس امریکن کالج آف گیسٹرولوجی کے تحت کینیڈا میں منعقدہ کانفرنس میں’’وومین ڈسرپٹر آف دی ایئر ایوارڈ‘‘ دیا گیا اور مَیں یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی ہوں۔ 

میری کیٹیگری میں مجھ سمیت 5 افراد شامل تھے اور ایوارڈ کے لیے پوری دُنیا میں ہونے والی ووٹنگ میں مُجھے سب سے زیادہ 39فی صد ووٹ ملے ۔ اس ایوارڈ کے لیے ’’امریکن کالج آف گیسٹرولوجی‘‘ نے مُجھے خود نام زد کیا تھا، جس کا سبب گیسٹرولوجی اور خواتین کے حقوق کے تحفّظ کے لیے میرے ریسرچ پر مبنی مضامین اور دیگر خدمات ہیں۔ 

مَیں نے ہمیشہ اس بات کی پُرزور وکالت کی ہے کہ گیسٹرو اینٹرولوجی خواتین کے اعتبار سے ایک امتیازی خصوصیات کا حامل شعبہ ہے، کیوں کہ اس سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹرز اور مریضاؤں کی ضروریات منفرد ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہیپاٹائٹس آف پریگنینسی سمیت معدے اور آنتوں کے بعض دیگر امراض صرف خواتین ہی کو لاحق ہوتے ہیں۔ اسی طرح خواتین گیسٹروانٹرولوجسٹس، دورانِ حمل فلورو اسکوپی کا پروسیجر نہیں کر سکتیں۔ 

نیز، اگر تمام خواتین ڈاکٹرز کی بات کی جائے، تو اُن کے لیے ہر اسپتال میں ڈے کیئر کی سہولت موجود ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ خواتین ڈاکٹرز کی ٹریننگ کا دورانیہ بڑھانا چاہیے، تاکہ طویل رخصت کے باوجود وہ اپنی تربیت مکمل کر سکیں۔ تمام اسپتالوں میں دورانِ زچگی رخصت کا معاوضہ دیا جائے، کیوں کہ زیادہ تر ڈاکٹرز اس رخصت کا معاوضہ نہ دیے جانے کے سبب ماں بننے سے کتراتی ہیں۔ ہمیں خواتین ڈاکٹرز کو آگے بڑھنے کے لیے مواقع فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ خود کو لیڈر ثابت کر سکیں۔