• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جیسے چھنتی ہوئی ستاروں کی کرن، کیا کہنا ....

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: ساجدہ خان

ملبوسات: ساجدہ وارڈ روب

آرایش: SLEEK BY ANNIE

کوآرڈی نیشن: کامران خان

عکّاسی: ایم۔ کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ پر ایک شخص بھاگا جارہا تھا۔ کسی نے روک کے پوچھا ’’کیوں اتنا تیز بھاگ رہے ہو؟‘‘ جواب ملا۔ ’’بیوی کا نیا ڈریس لے کے جارہا ہوں۔ ڈر ہے، دیر سے پہنچا، تو کہیں فیشن ہی نہ تبدیل ہوجائے۔‘‘ یہ فیشن نگری بھی عجب جادونگری ہے، پَل پَل رنگ نہ بدلے، تو اِس کا تو سروائیول مشکل، بقا و سلامتی ہی کو خطرہ لاحق ہوجائے کہ اس کی پوری عمارت اِک ’’تبدیلی، تبدیلی، تبدیلی‘‘ ہی کی بنیاد پرتوکھڑی ہے۔ 

اب یہ تبدیلی کیسی ہی بے ڈھب، اوٹ پٹانگ، بے تُک، بے جوڑ، بعیدالقیاس، اول جلول، نامعقول، حتیٰ کہ واہی تباہی ہی کیوں نہ ہو، بس کچھ نیا، کچھ تخلیقی و تجریدی ہونا چاہیے۔ جیسا کہ آج کل کئی فیشن شوز، ریمپ/ کیٹ واکس، کوٹیورویکس وغیرہ میں ایک سے بڑھ کر ایک نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ بندہ سوچتا ہی رہ جاتا ہےکہ عمومی زندگی میں یہ رنگ و انداز، یہ اسٹائل بھلا کوئی انسان اپنا سکتا ہے۔ لیکن دیکھ لیں، پچھلی چند دہائیوں میں اس فیشن انڈسٹری کو جس قدر سبقت و عروج، ترقی و فروغ حاصل ہوا ہے، کتنی اور صنعتوں کو حاصل ہوسکا ہے۔ فیشن ڈیزائنرز سے لےکر فیشن فوٹو گرافرز تک کے ارشادات فالو کیے جاتے ہیں۔ 

جیسا کہ امریکی فیشن کمپنی، ریلف لارن کا موٹو ہے، ’’ہم ملبوسات نہیں، خواب ڈیزائن کرتے ہیں۔‘‘ اور بھئی، خواب تو پھر خواب ہوتے ہیں۔ جاگتی آنکھوں کے ہوں، تو بامقصد وبامعنی ہو بھی سکتے ہیں، لیکن گہری نیند، مدہوشی و بے ہوشی کے خواب تو پھرقطعاً بےسروپا بھی ہوں، تو کچھ عجب نہیں۔ اسی طرح معروف اٹالین فیشن برانڈ، پراڈا کی روحِ رواں، میوچابیانکی پراڈا کا قول ہے، ’’آپ جو پہنتے ہیں، دنیا کے سامنے دراصل وہی آپ کی شخصیت کا اصل اظہار ہے۔ آج انسانی روابط میں جس قدر تیزی آچکی ہے، اُس میں فیشن سے زیادہ موثر اور برق رفتار زبان اور کوئی نہیں۔‘‘ پھرامریکی فیشن اینڈ لائف اسٹائل ماہنامے، ووگ کی سابق ایڈیٹر انچیف، ڈیانا ویریلینڈ کا ایک اسٹیٹ منٹ ہے، ’’فیشن، دراصل ہوا، پُروا کی مانند ہے، جو ہمہ وقت چلتی، مگر بدلتی رہتی ہے۔ 

کبھی بادِ بہاری، کبھی بادِ سموم، کبھی بادِ صبا، نسیمِ سحر، تو کبھی بادِ صرصر، بادِ تند۔ پھر اِسی ہوا میں کبھی خنکی ہے، تو کبھی لُو کے تھپیڑے، تو آپ یہ سب احساسات اپنے ملبوسات سے بھی بآسانی کشید کرسکتے ہیں۔‘‘ مقبول ترین امریکی جریدے ’’دی نیویارک ٹائمز‘‘ سے بطور کینڈڈ، اسٹریٹ فیشن فوٹوگرافر شہرت پانے والے، بِل کننگھم کا مشہورِ زمانہ قول ہے کہ ’’فیشن، دراصل روزمرّہ زندگی کے حقائق کو زندہ رکھنے کا ایک بہترین ہتھیار ہے۔‘‘ 

اِسی طرح ایک فرینچ فیشن ڈیزائنر، لکھاری، سونیا رائکیل کا بھی زبانِ زدِ عام قول ہے کہ ’’اگر آپ ہائی ہِیلز نہیں پہن سکتیں، تو آپ اعلیٰ طرزِ زندگی (ہائی سوسائٹی میں موو کرنا) کیسے افورڈ کر سکتی ہیں؟‘‘ اور فرینچ/بیلجیئن فیشن ڈیزائنر، ’’ہاؤس آف لوٹی ویٹون‘‘ کی سابق کری اٹیو ڈائریکٹر، نکولس گیزکیا کا کہنا ہے کہ ’’مجھے فیشن کی سب سے دل چسپ، خوب صُورت بات یہ لگتی ہے کہ یہ ہمارے وقت، ہمارے دَور کا عکس ہوتا ہے۔ 

ہم خُود اپنے حسین لمحات کے عینی شاہد، گواہ ٹھہرتے ہیں۔‘‘ جب کہ برطانوی فیشن ڈیزائنر، الیگزنڈر میک کوئن کا موقف ہے کہ ’’فیشن کو فرار کی ایک شکل ہونا چاہیے، نہ کہ قید کی۔‘‘ تو چلیں، اِن ہی فرمودات کی روشنی میں ذرا ہماری آج کی بزم دیکھیں کہ یہ فرار کی کوئی صُورت ہے یا قید کی۔ یا ؎ اتنے مانوس صیّاد سے ہوگئے، اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے۔

ذرا دیکھیے، پلین سیاہ ڈریس کی کام دار سلیوز سے ہم آہنگ چُنری دوپٹّا ایک حسین انتخاب ہے، تو بروشیا فیبرک میں گہرے زرد رنگ پونچو کے ساتھ سفید رنگ اسٹائلش کیولاٹ ہے۔ باٹل گرین رنگ میں خُوب صُورت لیس ورک سے آراستہ ایپرن اسٹائل میں روایتی ٹرائوزر شرٹ ہے، تو بے بی پنک رنگ میں سادہ سا قمیص، پاجاما، دوپٹّا اور پھر ویسٹرن اسٹائل سیاہ ہاف سلیوز شرٹ کے ساتھ سیاہ جینز اور سفید فُل سلیوز شرٹ کے ساتھ سیاہ جینز کی دل آویز ہم اہنگی بھی ہے۔

مشرق و مغرب کے امتزاج میں ڈھلا یہ رُوپ سروپ، ایک طرف دورِ حاضر کے فیشن کی تعریف پر سو فی صد پورا اُترتا دکھائی دے رہا ہے، تو ساتھ فراق گورکھپوری کی غزل کے کچھ اشعار کے بھی مصداق ہے کہ ؎ پیرہن میں تِرے رنگینی تَن، کیا کہنا..... کروٹیں لیتی ہوئی صبحِ چمن کیا کہنا..... ٹھہری ٹھہری سی نگاہوں میں یہ وحشت کی کرن..... چونکے چونکے سے یہ آہوئے ختن، کیا کہنا..... رُوپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ..... تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن، کیا کہنا..... جلوہ و پردے کا یہ رنگ دَم نظارہ..... جس طرح ادھ کُھلے گھونگھٹ میں دلہن، کیا کہنا..... دل کے آئینے میں اِس طرح اُترتی ہے نگاہ..... جیسے پانی میں لچک جائے کرن، کیا کہنا..... رنگِ شب گوں کی چمک، پیکرِ سیمیں کی دمک..... جیسے چَھنتی ہوئی ستاروں کی کرن، کیا کہنا۔