تحریر: نرجس ملک
ماڈلز: ایمن بٹ، ارم، عائزہ بٹ
ملبوسات: شاہ پوش، لبرٹی مارکیٹ، لاہور
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
ویسے تو عورت ہی کو عورت کی دشمن بھی کہا جاتا ہے، لیکن یہ بھی سو فی صد حقیقت ہے کہ ایک عورت کا دُکھ بھی (بلکہ سُکھ بھی) ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔ تب ہی تو خالص نسوانی تصوّرات و خیالات، جذبات و احساسات، سَت رنگے سپنوں، تلخ حقیقتوں کو جس خُوب صُورتی و عُمدگی سے خواتین نے شعر و نثر میں بیان کیا ہے، مرد سوچ بھی نہیں سکتے۔
ہاں، کبھی کبھی کچھ مَردوں کی نگارشات پر بھی خواتین کی چھاپ سی محسوس ہوتی ہے، تو اُس کی بڑی وجہ ایسےحضرات کی عورتوں سے زیادہ قربت، نسائیت کی طرف میلان و رجحان یا اُن کا صنفِ مخالف کے لیے حد درجہ حسّاس ہونا ٹھہرتا ہے۔ لیکن عمومی طور پر کسی عورت کے دل سے جو بات نکلتی ہے، وہ اکثر دوسری عورت کے دل پر ٹھاہ کرکے لگتی ہے۔
ایسے ہی تو پروین شاکر کی ’’خُوشبو‘‘ نے ہر تکیے تلے بسیرا، ہر دل معطّر نہیں کیا تھا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ..... ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ..... بچپنے کا ساتھ ہے، پھر ایک سے دونوں کے دُکھ..... رات کا اور میرا آنچل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ..... وہ عجب دنیا کہ سب خنجر بکف پِھرتے ہیں اور..... کانچ کے پیالوں میں صندل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ..... بارشِ سنگِ ملامت میں بھی وہ ہم راہ ہے..... مَیں بھی بھیگوں، خُود بھی پاگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ..... لڑکیوں کے دُکھ عجب ہوتے ہیں، سُکھ اُس سے عجیب..... ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ۔
بےشک، لڑکیاں ایسی ہی پگلی، جھلّی، سودائی، مَن چَلی سی ہوتی ہیں۔ کبھی بے وجہ،بے تکان بہت ہنسنے، بلند بانگ قہقہے لگانے والی، تو کبھی بے سبب، بے ارادہ نین کٹوروں سے سیروں نِیر بہانے والی۔ کبھی اِک ذرا سی بات پرعُمر بھر کے لیے رُوٹھ جانے والی، تو کبھی اِک ہلکی سی مسکان پرسب ہار جانے، دان کر دینے والی۔
اُن کے مَن مندر، پلکوں کی چلمن تلے کِن رُوپہلے سپنوں کا بسیرا ہوتا ہے، یہ بس وہی جانتی ہیں، اُنہیں ہی پتا ہوتا ہے۔ تب ہی تو کہتے ہیں کہ ’’جو مرد، کسی عورت کو جاننے کا دعوے دار ہے، وہ سو فی صد جھوٹا ہے۔‘‘ جب کہ عورتوں سے متعلق بھی معروف کہاوت ہے کہ ’’ایک عورت کیا چاہتی ہے، وہ اکثر خُود بھی نہیں جانتی۔‘‘ اور غالباً اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیش تر خواتین فطرتاً ہی زیادہ جذباتی، زُودرنج، زُود پشیماں، جلد باز، نرم دِل، پَل میں تولہ، پَل میں ماشہ، ابھی شعلہ، تو ابھی شبنم سے مزاج کی حامل ہوتی ہیں۔
چوں کہ اُن کی طبیعت کا تلوّن و تنوّع، گوناگونی، بُوقلمونی اُنہیں نچلانہیں بیٹھنے دیتی، تو وہ اکثر خُود بھی نہیں سمجھ پا رہی ہوتیں کہ وہ چاہتی کیا ہیں۔ اور بس، اُن کے ایسے ہی رویّے، طرزِعمل کے سبب اُن سے متعلق بھانت بھانت کی مثالیں، محاورے، کہاوتیں، مقولے زبانِ زدِ عام ہیں۔ مثلاً: تین ضدیں ضرب المثل کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ ’’راج ہٹ، بالک ہٹ اور تریا ہٹ‘‘ مطلب بادشاہ کی ضِد، بچّے کی ضِد اور عورت کی ضِد کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا،جب یہ اپنی بات پر اَڑ جائیں، تو پھر مَنوا کے ہی دَم لیتےہیں۔ عرب کہاوت ہے، ’’بِنا عورت کے گھر میں، رحمت نازل نہیں ہوتی۔‘‘
جاپانی کہاوت ہے، ’’عورت سائے کی طرح ہے، پیچھا کرو، تو دُور بھاگتی ہے اور دُور بھاگو، تو پیچھے آتی ہے۔‘‘ فرانسیسی کہاوت ہے،’’مَردوں کو سمجھو، عورتوں کو پڑھو۔‘‘ یونانی ادب سے ماخوذ ہے کہ ’’عورت کوکبھی انتقام کے لیے مت اُکسائو، ورنہ وہ ناگن کی طرح ڈس لے گی۔‘‘ اِسی طرح تُرک ادب سے اخذشدہ عبارت ہے کہ ’’عورت کو کبھی کسی امتحان میں مت ڈالو، تمہیں سخت مایوسی ہوگی۔‘‘ ایک ہندی کہاوت ہے، ’’نار سلکھنی کُتمب چکھاوے، آپ تلے کی کھرچن کھاوے‘‘ (نیک عورت کُنبے کواچھا کھلاتی اور خود بچا کُھچا کھاتی ہے) جب کہ شیکسپئر کا قول ہے کہ ’’دنیا پر بغیر فوج کے حُکم رانی ایک عورت ہی کام ہے۔‘‘
برنارڈشا کہتا ہے ’’عورتیں، مَردوں سے زیادہ ہوش یار ہوتی ہیں، کیوں کہ وہ کم جاننے کے باوجود، مَردوں سے زیادہ سمجھتی ہیں۔‘‘ سقراط کا قول ہے کہ ’’مَیں نے جس مسئلے پر غوروفکر کیا، اُسے گہرائیوں کے ساتھ بآسانی سمجھ لیا، لیکن مَیں اعتراف کرتا ہوں کہ مَیں عورت کی فطرت آج تک نہیں سمجھ سکا۔‘‘ ملٹن کہتا ہے، ’’عورت ایک ایسا پھول ہے، جو صرف سائے میں روشنی دیتا ہے۔‘‘ ایسے ہی کچھ اور افکار ہیں کہ ’’عورت زخم معاف کردیتی ہے، مگر خراشوں کو کبھی نہیں بھولتی۔‘‘، ’’عورت ایک معمّا ہے، جس کے صحیح حل پر آج تک کوئی پہلا انعام حاصل نہیں کرسکا۔‘‘،
’’عورت ایک تضاد ہے، جو شیر سے لڑجاتی، مگر چوہیا سے ڈر جاتی ہے۔‘‘، ’’عورت ایک فلسفہ ہے، جسے ہر شخص خُود نہ سمجھتے ہوئے دوسروں کو سمجھاتا رہتا ہے۔‘‘، ’’دنیا میں جتنی عورتیں ہیں، اُتنی ہی ان کی اقسام ہیں۔‘‘ ، ’’عورت صرف ایک راز مخفی رکھ سکتی ہے اور وہ ہے، اُس کی عُمر کا راز۔‘‘ اور..... ’’دنیا میں اچھی عورت سے زیادہ اچھی اور بُری عورت سے زیادہ بُری کوئی جنس نہیں۔‘‘ جب کہ اقبال کا وہ معروف مصرع ’’وجودِ زن سے ہے، تصویرِ کائنات میں رنگ‘‘ بھی اب ایک ضرب المثل ہی کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ مطلب، ایک ’’وجودِ زن‘‘ اور اُس پر ہزارہا بلکہ لکھوکھا فرمودات و ارشادت..... بات وہیں آکے ختم ہوتی ہے ناں کہ مزاج کے تلوّن و تنوّع، گوناگونی، بُوقلمونی ہی نے عورت سے متعلق دنیائے سخن و شعر و ادب کو اِس قدر وسیع و فراخ کیا ہے۔ ہم بھی تو برسوں سے، ہر ہفتےایک ہی موضوع کویوں ہی برتتے، نبھاتے چلے نہیں آرہے۔ کہنے کو کچھ نہ کچھ ہوتا ہی ہے۔
جیسا کہ آج ہماری بزم لڑکیوں بالیوں، کُڑیوں چڑیوں کے میل ملاپ، رَلنے ملنے، ہنسنے بولنے، چہکنے مہکنے، سجنے سنورنے، کھانے پینے، گپ شپ، اٹکھیلیاں کرنے اور دُکھ سُکھ بانٹنے کے کچھ بہت ہی حسین و دل کش، اَن مول و بے مثل سے لمحات سے مزیّن ہے۔ عید بعد سے تاحال کسی نہ کسی بہانے ایسے مِلن ملاقاتوں کےمواقع ڈھونڈے، سبیلیں بنائی ہی جارہی ہیں اور زیرِ نظر محفل ایسے ہی کچھ یادگار لمحات کی عکّاس ہے۔ جس میں رنگا رنگ پہناووں کی بہار ہے، تو سجائو سنوار، بنائو سنگھار کے خوش رنگ و خوش نُما اطوار اور دعوت و ضیافت کا اہتمام بھی۔ اور..... جب کچھ سکھیاں سہیلیاں کہیں مِل بیٹھیں، خُوب راز و نیاز ہوں تو پھر یہ تو ہوتا ہی ہے کہ ؎ ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ۔