دنیا کے ہر مُلک کا کوئی نہ کوئی قومی، تہذیبی اور ثقافتی تشخّص ہوتا ہے۔ کوئی مُلک جھیلوں کی سرزمین کے نام سے جانا جاتا ہے، تو کوئی کوہساروں کے دیس سے موسوم ہے۔کوئی خوش بوؤں، رنگوں، روشنیوں کا وطن ہے، تو کوئی امن و آشتی کا گہوارہ، تو کوئی کشمیر کی طرح جنّت نظیر ہے۔ پاکستان، اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ایک اسلامی سلطنت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ جب یہ ایٹمی طاقت بنا، تو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوّت کے اعزاز سے بھی جانا جانے لگا۔ پھر جانے کس کی نظر لگ گئی کہ ایک دہشت گرد مُلک کا لیبل چسپاں کر کے اِسے’’ گِرے لسٹ‘‘ میں ڈال دیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی اِسے عورتوں کے تحفّظ کے حوالے سے دنیا کے 5خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔ سماجی سہولتوں، انصاف کے فقدان اور پاسپورٹ کی بے توقیری کے حوالے سے پہلے ہی اس کا کوئی خاص مقام نہیں تھا۔رہی سہی کسر 20اپریل 2024ء کو آئی ایم ایف کی جاری کردہ ایک فہرست نے پوری کردی، جس میں دنیا کے بدترین اور بدحال معیشت کے حامل 6ممالک میں عراق، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے ساتھ پاکستان بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے علاوہ مذکورہ ممالک جنگ زدہ کہلاتے ہیں۔
یہ فہرست پاکستان کے اربابِ اختیار و اقتدار کے لیے ایک لمحۂ فکریہ تو ہے ہی، باعث ندامت بھی ہے۔اور اب حال ہی میں مُلک کو ایک اور دھبّا لگ گیا ہے، جس نے اس کی شہرت مزید داغ دار کر دی ہے اور وہ ہے، ایک گداگر قوم کا دھبّا۔ جس نے پاکستان کی سابقہ’’ عالمی شہرت‘‘ کو مزید ’’ چار چاند‘‘ لگا دئیے ہیں۔ اور اس ضمن میں افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیا بَھر میں یہ تاثر پھیلانے میں سب سے اہم کردار خُود پاکستانی حُکم رانوں نے اپنے غیر محتاط بیانات سے ادا کیا، جنہوں نے کشکول ہاتھ میں لے کر دوست اور امیر ممالک کے دروازوں پر دستک دیتے ہوئے اپنی غربت اور مجبوریوں کا ایسا رونا رویا کہ یہ پوری دنیا کے میڈیا کا موضوع بن گیا۔
مثلاً شہباز شریف نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’جو چیونٹی کے برابر ممالک تھے، ہم سے آگے نکل گئے، لیکن ہم آج 75 سال بعد بھی کشکول لے کر دربدر پِھر رہے ہیں، حتیٰ کہ ہمارے دوست ممالک بھی پاکستان کو ایسی نظر سے دیکھتے ہیں، جو ہر وقت دوسروں سے بھیک مانگتا رہتا ہے۔ جب پاکستانی وزراء دوسرے ممالک جاتے ہیں یا اُنھیں فون کال کرتے ہیں، تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ مدد کے لیے اپیل کریں گے۔‘‘
اِس سے قبل جب وہ اپوزیشن لیڈر تھے، تو اُنہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ’’Beggars can't be choosers ‘‘یعنی بھکاری کی کوئی اپنی پسند، ناپسند نہیں ہوتی۔ اور جب اُن کے اِس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، تو اُنہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ معاشی آزادی کے بغیر حقیقی آزادی کا حصول ممکن نہیں، جب کہ ہمارا مُلک غیر مُلکی امداد کے سہارے چل رہا ہے۔ اِس سے قبل خواجہ آصف بھی ایسے ہی فقرے دُہرا چُکے تھے کہ’’بھکاری کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔‘‘ اور یہ کہ’’ امریکا ہمارا وینٹی لیٹر ہے، ہم نے امریکا کی مرضی کے بغیر کوئی قدم اُٹھایا، تو گُھٹنوں پر آجائیں گے۔‘‘
اِس پر جب شہباز شریف سے تبصرہ کرنے کو کہا گیا، تو اُنہوں نے کہا’’بھکاری اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں کرسکتے، ہمیں اپنی قوم کا پیٹ پالنا ہے۔‘‘مسلم لیگ نون کے سیکرٹری جنرل اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی، احسن اقبال نے 16اپریل کو مُلکی اکانومی کا رونا روتے ہوئے کہا کہ’’ مُلکی آمدنی 7ہزار ارب روپے ہے اور ہمیں قرضوں کی ادائی کی مَد میں 8ہزار ارب روپے درکار ہیں، اِس لیے اُدھار لینا پڑے گا۔‘‘ سابق وزیرِ اعظم، میاں نوازشریف جب لندن میں تھے، تو اُنہوں نے ایک موقعے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’آج بھارت چاند پر چلا گیا ہے اور جی۔20 کے اجلاس وہاں ہو رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ہمیں کرنا چاہیے تھا۔ اُن کے پاس 600بلین ڈالرز کے ذخائر ہیں، لیکن ہم آج بھی مُلک مُلک جا کر قرضے مانگ رہے ہیں، تو دنیا کی نظروں میں ہماری کیا عزّت رہ گئی ہے۔‘‘عمران خان نے اقتدار سنبھالنے سے قبل کہا تھا کہ وہ خودکُشی کرلیں گے، لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، لیکن وہ جس طرح گھٹنے ٹیک کر بلکہ منتیں سماجتیں کرکے آئی ایم ایف کے پاس گئے، وہ بھی تاریخ کا حصّہ ہے، جب کہ اُن کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں قرضوں کی شرح پہلے سے تین گُنا بڑھ گئی۔ یہ صرف حالیہ حُکم رانوں کے بیانات ہیں، وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ہر حُکم ران عُہدہ سنبھالتے ہی ’’خزانہ خالی ہے‘‘ کا بیان دے کر کشکول اُٹھا کر وزراء کی فوج ظفر موج کے ساتھ غیر مُلکی دوروں پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔
ایک پرانی کہانی
پاکستان قرضوں کی اِس دلدل میں کیسے پھنسا، یہ کہانی بہت طویل اور دِل خراش ہے۔ جب پاکستان قائم ہوا، تو اس کی مالی حالت ابتر تھی اور بے سروسامانی کا عالم تھا۔ تب دوسری جنگِ عظیم کو ختم ہوئے دو سال ہی ہوئے تھے۔ بہرحال، مغربی ممالک نے 1950ء میں تباہ حال ممالک کی معاشی بحالی کے لیے’’ عالمی مالیاتی فنڈ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ بنایا، جس کا بنیادی مقصد قرضے دے کر اُن ممالک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا تھا۔ پاکستان نے پہلی بار 1958ء میں اس ادارے سے رجوع کیا تاکہ وسائل کی کمی پوری کی جاسکے۔ اسے اُس وقت ڈھائی کروڑ ڈالرز کی امداد ملی۔
پاکستان کے معاشی مسائل وقتی طور پر تو حل ہوگئے، لیکن قرض کی یہ مئے حُکم رانوں کو اِتنی اچھی لگی کہ پھر وہ اسی کے اسیر ہوکر رہ گئے اور قرضوں کے لین دین کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگیا، جو ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ ایّوب خان کے دور کی اقتصادی ترقّی پر بہت بات کی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 1961ء تک بیرونی امداد، بیرونی قرضوں کے حجم سے دُگنی سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔ 1964ء میں دوسرے 5 سالہ منصوبے میں کُل سرمایہ کاری میں سے 40 فی صد حصّہ بیرونی امداد پر منحصر تھا۔ یعنی معیشت کا زیادہ انحصار بیرونی امداد اور قرضوں پر تھا۔
ماہرین نے اسے اقتصادی ترقّی نہیں بلکہ چند ہاتھوں (22 خاندانوں) میں دولت کا ارتکاز قرار دیا۔ یوں اپنے پیداواری وسائل کو ترقّی دینے کی بجائے غیر مُلکی امداد کا جو رجحان ایّوب دَور میں شروع ہوا، وہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ بعد میں کس حکومت نے کتنا قرض لیا، پیچیدہ اعداد و شمار سے بھرپور اِس موضوع پر درجنوں مقالے اور کتابیں لکھی جا چُکی ہیں۔ ہر حکومت اقتدار سنبھالتے ہی یہ کہتی ہے کہ’’ جب ہم حکومت میں آئے، تو خزانہ خالی تھا۔‘‘تاہم ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ صدر ایّوب کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے تین بار قرضہ لیا۔
ضیاء دور میں دو بار، بے نظیر حکومت کے پہلے دَور میں دو بار، نواز حکومت کے پہلے دَور میں ایک بار، بے نظیر بھٹّو کے دوسرے دَور میں تین بار، پھر نواز شریف کے دوسرے دَور میں دو بار، پرویز مشرّف کے دَور میں دو بار، پیپلز پارٹی کے دَور میں دو بار، پیپلزپارٹی کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں ایک بار، نوازشریف کے تیسرے دَور میں ایک بار اور پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ایک مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کے دَور میں10 بلین ڈالرز کا قرضہ، پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ پیرس کلب، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، چین، سعودی عرب، عرب امارات اور دیگر ممالک نے ہمارے کشکول میں جو کچھ ڈالا، ان کے اعداد و شمار الگ ہیں۔ جب کہ مُلکی بینکس اور مالیاتی اداروں سے لی گئی ادھار رقم اس کے علاوہ ہے۔ ہم دنیا کو، اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر توانا دِکھانے کی خاطر اکثر سعودی عرب اور چین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کچھ رقم جمع کروا دیں، جسے ہم خرچ نہیں کریں گے۔یعنی ہم نے کوئی ایسا مُلکی اور غیر مُلکی دروازہ نہیں چھوڑا، جس پر دستک نہ دی ہو۔مطلب،’’جو دے اُس کا بھی بَھلا اور جو نہ دے، اُس کا بھی بَھلا‘‘ ہمارا قومی نعرہ بن چکا ہے۔
قرضے تو ہر دَور میں لیے جاتے رہے، لیکن بے نظیر بھٹّو، پرویز مشرّف، نواز شریف اور عمران خان کے ادوار میں تو گویا یہ پہاڑ سے لڑھکتے پتّھر کی طرح ہوگئے اور یہی وہ ادوار ہیں، جب پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ڈیفالٹ ہو جانے کے خطرے سے دوچار اور عالمی بھکاری کے عنوان سے دنیا بَھر میں بدنام ہوا۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، تو مُلکی قرضہ6 ہزار ارب روپے تھا، جو پانچ سالہ دَور میں 16 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا۔ 2013ء میں مسلم لیگ نون کی حکومت آئی، تو یہ قرضہ16 ہزار ارب سے بڑھ کر 30ہزار ارب تک پہنچ گیا۔
پھر 2018ء میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی، تو قرضہ50 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا۔ اِس وقت تک پاکستان23 مرتبہ آئی ایم ایف سے رجوع کرچُکا ہے اور مُلک پر مجموعی غیر مُلکی قرضہ تقریباً129 ارب ڈالرز ہے، جو اس نے آئی ایم ایف، عالمی بینک، پیرس کلب، ایشیائی ترقیاتی بینک اور چین کو ادا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کئی دیگر ممالک کو بھی ہم نے قرض واپس کرنا ہے۔ یورو بانڈز وغیرہ کی شکل میں قرضوں کی کئی دیگر صُورتیں اس کے علاوہ ہیں۔
ہمارا آدھے سے زیادہ قرض غیر مُلکی کرنسیز (ڈالرز وغیرہ) کی صُورت میں ہے، چناں چہ جب ڈالر کا ریٹ بڑھتا ہے، تو قرض کی شرح میں بھی راتوں رات کروڑوں روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔یوں مُلک کا بچّہ بچّہ قرض میں جکڑا ہوا ہے۔اندازہ لگائیں کہ 2008ء میں پیدا ہونے والا ہر پاکستانی بچّہ36 ہزار روپے، 2013ء میں88 ہزار روپے اور اب2 لاکھ27 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ اگرچہ حُکم ران کئی مرتبہ اپنی تقاریر میں کہہ چُکے ہیں کہ یہ مُلک قرضوں پر چلنے کے لیے قائم نہیں ہوا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ غیر مُلکی قرضوں سے حکومت کرنا اور بھیک مانگنا ہر حکومت کا منشور رہا ہے۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدوں کے وقت عوام کو مشکل فیصلوں سے بے خبر رکھا جاتا ہے اور پتا نہیں چلتا کہ حُکم رانوں نے غریب عوام کا کتنے میں سودا طے کیا ہے۔ عوام کو پتا اُسی وقت چلتا ہے، جب اُن پر پیٹرول، بجلی اور گیس بم گرتے ہیں اور منہگائی کا طوفان چھا جاتا ہے۔تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ مستقبل قریب میں بھی قرضوں اور بھیک مانگنے کا یہ نشہ اُترتا دِکھائی نہیں دیتا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کو آئندہ 5 برسوں میں مجموعی طور پر مزید20 ارب ڈالرز کے قرضوں کی ضرورت پڑے گی، جو کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر سے126 فی صد زاید ہے۔ پاکستان نے اگرچہ دنیا کے ہر بڑے مالیاتی ادارے کا کچھ نہ کچھ دینا ہے، لیکن مُلک چین کا سب سے زیادہ (67ارب ڈالرز کا) مقروض ہے۔یہ مجموعی قرضوں کا30 فی صد ہے اور یہ وہ قرضے ہیں، جو ’’ پاک، چائنا اکنامک کوریڈور‘‘ کے سلسلے میں لیے گئے ہیں، جب کہ پاکستان نے غیر ممالک کے علاوہ مُلکی مالیاتی اداروں سے بھی24 ہزار309 کھرب روپے ادھار لے رکھے ہیں۔واضح رہے، پاکستان آئی ایم ایف سے سب سے زیادہ قرض لینے والا دنیا کا پانچواں بڑا مُلک ہے کہ ارجنٹائن، مصر، یوکرین اور ایکواڈور کے بعد اس کا نمبر آتا ہے۔
مالِ مفت، دل بے رحم
اپنے قیام سے لے کر اب تک پاکستان اربوں ڈالرز قرض لے چُکا ہے اور لگ بھگ ہر امیر مُلک کا مقروض ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہم اِتنا قرض لینے کے باوجود اپنے پیروں پر کھڑے کیوں نہ ہوئے، جب کہ90 ممالک پر مشتمل آئی ایم ایف کے قیام کا بنیادی مقصد ہی خستہ حال معیشتوں کے شکار ممالک کو قرض دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ (تاہم، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف غریب ممالک کے لیے قرضوں کا بچھایا ہوا ایک جال ہے، جس کا درپردہ مقصد ضرورت مند ممالک کو ہمیشہ دوسروں کا دستِ نگر رکھنا ہے)۔
بہرحال، کئی ممالک اب تک آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل چُکے ہیں، جن میں برازیل جیسا غریب مُلک بھی شامل ہے، جب کہ کئی ممالک نے اس کے دئیے گئے قرضوں سے فائدہ اُٹھا کر اپنی مُلکی معیشت کو مضبوط کیا۔ اِس سلسلے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل پاکستان میں ان قرضوں کا درست استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ اگر ایک غریب گھرانے کا سربراہ قرض کی رقم سے اپنے لیے روزگار اور کاروبار کے مواقع پیدا کرنے کی بجائے گروی شدہ گھر کے لیے قیمتی فرنیچر، فریج، قالین، گاڑی وغیرہ خرید لے، تو اس کا انجام گھر کی نیلامی یا ڈیفالٹ کے سِوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
پاکستان کو ملنے والے قرضوں کا آج تک آڈٹ نہیں ہوسکا، لیکن عام تاثر یہی ہے کہ قرضوں کی یہ رقوم اشرافیہ کے لیے مراعات، بھاری بھر کم تن خواہوں اور غیر ترقیاتی منصوبوں پر ضائع کردی گئیں۔ غیر مُلکی قرضوں سے ایسے پراجیکٹس نہیں بنائے گئے، جن سے برآمدات میں اضافہ اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے، درآمدات و برآمدات میں ادائی کا توازن درست ہوتا اور یہی ہمارے معاشی مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔نیز، اکثر حُکم ران قرضوں کی رقوم ’’مالِ مفت، دلِ بے رحم‘‘ کی طرح خرچ کرتے رہے۔
غیر مُلکی قرضوں میں گھپلے
غیر مُلکی قرضوں کے استعمال سے متعلق اگرچہ کافی عرصہ قبل چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں، تاہم، ان کے بارے میں پہلی بار کُھل کر انکشاف یکم اپریل 2024ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا، جس میں 2008ء سے 2018ء تک غیر مُلکی قرضوں میں بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ وزیرِ اعظم، عمران خان کو پیش کی گئی غیر مُلکی قرضوں پر انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ رپورٹ در حقیقت 2020ء میں پیش کر دی گئی تھی، جسے سرد خانے کی نذر کر دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق دو درجن سے زائد اداروں سے وابستہ 300افراد نے یہ انکشاف کیا کہ 2008ء اور2018ء کے درمیان لیے گئے اربوں روپے کے غیر مُلکی قرضے قواعد و ضوابط کے خلاف استعمال کیے گئے۔ انکوائری کمیشن کو انکوائری ایکٹ کے تحت حکومت کے حاصل کردہ420 غیر مُلکی قرضوں کا مکمل ریکارڈ حاصل ہو گیا تھا، تاہم وفاقی حکومت نے 11رُکنی قرضہ انکوائری کمیشن کو مزید کام سے روک دیا۔
کابینہ ڈویژن کی جانب سے لکھے گئے خط کے مطابق، یہ کمیشن انکوائری ایکٹ کی روشنی میں بنا اور مدّت پوری ہونے پر خود بخود ختم ہو گیا، جس کے بعد کمیشن کے سربراہ نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر اور اُن کے عملے نے آفس چھوڑ دیا۔
رپورٹس کے مطابق تمام وفاقی وزارتوں، ڈویژنز اور محکموں سے ریکارڈ کے حصول میں 40 سینئر حکّام نے کمیشن کی مدد کی اور اس سلسلے میں انکوائری کمیشن نے گیارہ سو سے زائد منصوبوں کی تفصیلات حاصل کیں۔ تاہم، غیر مُلکی قرضوں کی داستان، بے شمار راز ہائے درونِ خانہ کے ساتھ دفن ہو گئی۔ انکوائری کمیشن نے جن میگا پراجیکٹس میں بے ضابطگیوں کی نشان دہی کی، اُن میں پشاور بی آر ٹی، نندی پور پاور پلانٹ، موٹروے، اورنج لائن میٹرو ٹرین، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور، دیامیر بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، مہمند ڈیم، کراچی نیو کلیئر پاور پراجیکٹس، لاہور سے کراچی تک کی موٹرویز اور دیگر میگا پراجیکٹس شامل ہیں۔
عیاشیاں اور غیر ترقیاتی اخراجات
حکومت چاہے کسی کی ہو، یہ بات سب جانتے ہیں کہ 1958ء ہی سے غیر مُلکی قرضوں کا غلط استعمال کیا گیا اور انہیں مُلکی معیشت سنوارنے کی بجائے محض تن خواہوں کی ادائی، اشیائے تعیّش کی درآمدات، اشرافیہ کی مراعات اور ایسے ہی دیگر غیر ترقیاتی کاموں اور فضول خرچیوں پر صَرف کیا گیا، جس سے معیشت سنبھلنے کی بجائے خراب تر ہوتی چلی گئی اور قرضوں کا حجم بھی بڑھتا گیا۔
دنیا بَھر میں قرضوں سے ڈیم بنائے جاتے ہیں، انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کی جاتی ہیں، پیداواری منصوبوں سے مُلکی برآمدات بڑھا کر ادائیوں کا توازن درست کیا جاتا ہے، مگر یہاں ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ایسا کچھ نہ ہوسکا۔
زرعی مُلک ہونے کے باوجود پاکستان ہر سال10ارب ڈالرز خوراک اور دیگر خوردنی اشیاء کی درآمد پر خرچ کرتا ہے۔ہم 4ارب ڈالر کا تو صرف خوردنی تیل درآمد کرتے ہیں۔ ماضی قریب تک غیر ممالک سے جن لگژری آئٹمز پر قیمتی زرِ مبادلہ ضائع کرتے رہے، ان میں غیر مُلکی چاکلیٹس، میک اَپ کا سامان، پھل، بڑی گاڑیاں، موبائل فونز، جِم کا سامان، جیولری، سگریٹ، لیدر مصنوعات، کراکری، امپورٹڈ کنفیکشنری، ڈرائی فروٹس، فرنیچر، فش، فروزن فوڈ، ٹشو پیپرز اور دوسرا سامان شامل تھا۔
اگرچہ پی ڈی ایم حکومت نے بعض اشیاء کی درآمد پر پابندی لگا دی تھی، لیکن گزشتہ 75سال میں ان پر جو زرِ مبادلہ ضائع ہوا، اس کا حساب کوئی دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری فضول خرچیوں کا عالم یہ ہے کہ وزیرِ اعظم ہائوس کے اعلیٰ افسران کو عید کی خوشی میں چار اضافی تن خواہوں کے برابر خصوصی بونس سے نوازا گیا۔
اِسی طرح ماضی قریب میں سینیٹ کے چیئرمین، صادق سنجرانی نے سینیٹ ارکان کی مراعات اور آسائشوں کا ایک ایسا منصوبہ پیش کیا، جسے سُن کر دو وقت کی روٹی کے محتاج کروڑوں پاکستانی سکتے میں آگئے۔
پاکستانیوں کی ٹیم جب قرضوں کے لیے غیر ممالک جاتی ہے، تو منہگے ہوٹلز میں ٹھہرتی اور قیمتی گاڑیوں میں گھومتی پِھرتی ہے۔ ان کے طرزِ عمل، اندازِ گفتگو اور مذاکرات کے دوران مُسکراتے چہروں سے بالکل نہیں لگتا کہ وہ قرضہ مانگنے آئے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں پی ڈی ایم دَور میں شہباز شریف کی 80رُکنی کابینہ موضوعِ بحث بنی رہی۔حُکم ران اپنی اور افسر شاہی کی مراعات کے لیے اربوں روپے لُٹاتے رہے، حالاں کہ اُنہیں اندازہ تھا کہ؎’’ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں …رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔‘‘
اور اب گداگروں کی ایکسپورٹ…!!
پاکستان اگر عالمی منظر نامے پر گداگر مُلک کے طور پر بدنام ہے، تو خود پاکستان کے اندر بھی گداگری کا پیشہ روز بروز اپنے پائوں پھیلا کر اب بین الاقوامی سرحدوں کو چُھونے لگا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب، عرب امارات اور دیگر ممالک میں جو گداگر گرفتار کیے جاتے ہیں، اُن میں 80فی صد تعداد پاکستانیوں کی ہوتی ہے۔ 27ستمبر 2023ء کو سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز کے چیئرمین، منظور کاکڑ کی زیرِ صدارت اجلاس میں سیکرٹری اوورسیز پاکستانیز، ذوالفقار حیدر نے کہا کہ پاکستان سے بھکاریوں کے جہاز بَھر بَھر کر بیرونِ مُلک جارہے ہیں۔
حرم سے جتنے جیب کترے پکڑے جاتے ہیں، اُن میں اکثریت پاکستانی گداگروں ہی کی ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی میں تقریباً دو کروڑ پیشہ وَر بھکاری ہیں۔ گدا گروں نے مانگنے کے لیے اب اپیلوں کی صُورت میں انٹرنیٹ کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کے ہر مُلک میں گدا گری کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، لیکن بدقسمتی سے بعض مفاد پرست عناصر نے اسے ایک باقاعدہ پروفیشن کی شکل دے کر دوسرے ممالک تک پھیلا دیا ہے۔
گزشتہ دنوں جب مسجد الحرام کے اطراف بھکاریوں کے خلاف سعودی حکومت نے مہم شروع کی، تو 4ہزار گداگر پکڑے گئے،جن میں 90فی صد پاکستانی تھے۔ اس خبر کو پاکستان مخالف ممالک نے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے کہا کہ’’ اب پاکستان نے گداگر بھی ایکسپورٹ کرنے شروع کر دیئے ہیں۔‘‘ اِس امر میں شک نہیں کہ غربت نے بہت سے لوگوں کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن محنت کیے بغیر دولت کمانے کے بڑھتے رجحان نے گداگری کو ایک انڈسٹری کی شکل دے دی ہے، جس میں ٹھیکے داری نظام کے تحت، گداگروں کی فوج ظفر موج باقاعدہ منظّم طور پر پیسے کماتی ہے۔
اب بھکاریوں کے منظّم گروہ وجود میں آگئے ہیں، جن کی نظریں ریال، درہم ، پائونڈز اور ڈالرز پر ہیں۔ گزشتہ دنوں ایف آئی اے نے لاہور ائیر پورٹ پر عُمرہ زائرین کے بھیس میں سعودی عرب جانے والے 4مرد و خواتین کو پکڑا اور جب اُن سے پوچھا کہ کیا بھیک مانگنے سے پاکستان کی بدنامی نہیں ہوتی، تو اُن کا جواب تھا’’ پہلے کون سے نیک نامی کے جھنڈے لگے ہوئے ہیں۔‘‘
ماہرین کیا کہتے ہیں…؟؟
گداگری کے حوالے سے پاکستان کی بدنامی کا داغ کیسے دُھل سکتا ہے، کیا غیر مُلکی قرضوں سے جان چُھوٹ سکتی ہے اور کیا ہماری اُدھار اور بھیک مانگنے کی عادت ختم ہو سکتی ہے۔یہ سوال اُس وقت سے زیرِ بحث چلا آرہا ہے، جب سے پاکستان نے قرضے لینے شروع کیے تھے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ قرضہ بڑھتا چلا گیا اور اب قرض اُتارنے کے لیے بھی قرض لینا پڑ رہا ہے۔ کئی بار مُلک ڈیفالٹ ہونے سے بال بال بچا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب تک کسی حُکم ران نے قرض اُتارنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
اِس سلسلے میں ماہرِ اقتصادیات، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق اعلیٰ آفیسر، آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کا حصّہ رہنے والے بینکر اور دو کتابوں کے مصنّف، محمّد منیر احمد کا کہنا ہے کہ’’ حُکم رانوں کو قرضوں اور ادھار پر مُلک چلانے کی جو عادت 75سال پہلے پڑی تھی، وہ اب ہمارے لاشعور میں رچ بس کر ہماری معیشت کا ایک ناقابلِ تنسیخ حصّہ بن چکی ہے۔یہ حُکم ران بس ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت اقتدار کی رسّہ کشی ہی میں گزرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے بیش تر حُکم رانوں نے اِس لعنت سے چھٹکارے کے لیے کبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں اور اب حالت یہ ہے کہ ہمارے غیر مُلکی قرضوں کا بیش تر حصّہ پہلے سے لیے گئے قرضوں کی ادائی میں صَرف ہو رہا ہے۔ میرے نزدیک قرضوں کی دلدل سے نہ نکلنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے قرضے اُتارنے اور معیشت سنوارنے کے غیر روایتی اور عارضی طریقے اختیار کیے۔ ہماری تان صرف پیٹرول، گیس، بجلی اور دیگر اشیاء منہگی کر کے خسارہ پورا کرنے پر ٹوٹتی رہی۔ اب یہی دیکھیں، ایک بینکر کو صرف اس لیے وزیرِ خزانہ بنا دیا گیا ہے کہ وہ قرضہ لینے میں فائدہ مند ثابت ہو سکیں۔
مطلب، حُکم رانوں اور ماہرین کے نزدیک قرض لینے کے علاوہ معیشت بہتر بنانے کی اور کوئی صُورت ہی نہیں رہی، حالاں کہ تاریخ گواہ ہے کہ مشکل اوقات میں صرف وہی لیڈر شپ کام یاب رہی، جس نے غیر روایتی اور مشکل فیصلے کیے۔ جیسا کہ 2000ء کے عالمی مالیاتی بحران میں مغربی حکومتوں نے غیر روایتی فیصلے کر کے عوام کو مشکل سے نکالا۔ ان ممالک میں 10سال تک شرحِ سود2فی صد سے کم رہی۔
سینٹرل بینکس میں یہ شرح ایک فی صد تھی۔ مگر ہمارا اسٹیٹ بینک، آئی ایم ایف سے زیادہ مارکیٹ اکانومی کا پرستار اور دل دادہ ہے۔ اِس لیے اس کے فیصلے پاکستان کی حقیقی مشکلات اور زمینی حقائق سے دُور، صرف ٹیکسٹ بُک آف اکنامکس کے مطابق ہوتے ہیں۔لہٰذا قرضہ کم ہوا اور نہ معیشت سنبھل سکی۔ یہی حال حکومتوں کا ہے، جن کی ترجیحات بغیر سُود کے قرضہ جات اور اشیائے ضرورت پر سبسڈی وغیرہ سے آگے نہیں جاتیں۔ ہمارے حُکم رانوں نے غیر مُلکی قرضوں کو معاشی سے زیادہ سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کی۔
ہم نے ان قرضوں کو معیشت کا پہیّا تیزی سے گھمانے کے لیے کبھی استعمال نہیں۔ پوری قوم جانتی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں، صنعت کاروں اور دوسرے مقتدر حلقوں کے غیر مُلکی بینکس میں فارن کرنسی اکائونٹس ہیں۔ اگر سارے اکاؤنٹس ہولڈر مل کر ایک سال کے لیے 10ارب ڈالرز ہی پاکستان لے آئیں، تو آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے کی راہیں ہم وار ہوسکتی ہیں یا کم از کم ہمیں بڑا ریلیف مل سکتا ہے ۔ایک تجویز یہ بھی ہے کہ مِڈل ایسٹ اور مغربی ممالک میں شرحِ سُود 2سے 6فی صد تک ہے۔
وہاں اوورسیز پاکستانیوں کی بچتیں اسی شرحِ سُود پر پڑی ہیں۔ اس کے برعکس، اسٹیٹ بینک آف پاکستان 22فی صد شرحِ سود پر کمرشل بینکس سے حکومت کے لیے قرضہ جات اکٹھے کرتا ہے۔ 22فی صد شرحِ سود اوورسیز پاکستانیوں کے لیے بہت بڑی ترغیب ہو سکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک ماضیٔ قریب میں اِس طرح کی بیرونی سرمایہ کاری حاصل کر چکا ہے، لیکن اب اس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
اِس سلسلے میں اسٹیٹ بینک ایک سال کی مدّت کا ٹریژری بِل جاری کر کے ڈالرز میں اچھی خاصی رقوم حاصل کر سکتا ہے۔ اگر ہم غیر مُلکی قرضوں سے نجات پانے کے لیے وہی روایتی اور وقت گزاری کا رویّہ اختیار کرتے رہے، جو پون صدی سے چلا آرہا ہے، تو اِس لعنت سے کبھی چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گے اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہا، تو وہ دن بھی دُور نہیں، جب منہگائی کے مارے عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔‘‘
’’قرض اتارو، مُلک سنوارو‘‘ ایک نیم دِلانہ، ناکام کوشش
عام طور پر کسی پاکستانی حُکم ران نے قرض اُتارنے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور ان کا بیش تر وقت اپنی کرسی بچانے اور عوام کا خون نچوڑنے ہی میں گزرا۔ تاہم، 1997ء میں پہلی مرتبہ، دوسری بار وزیرِ اعظم بننے والے، میاں نواز شریف نے مُلک کو قرضوں سے نجات دِلانے کا بلند بانگ نعرہ لگایا اور’’ قرض اُتارو، مُلک سنوارو‘‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا، جس میں مُلکی عوام، اداروں اور بیرونِ مُلک پاکستانیوں سے عطیات دینے کی اپیل کی گئی۔
خود نواز شریف نے اپنی طرف سے ایک کروڑ روپے عطیہ دینے کا اعلان کیا۔ اُنہوں نے شادیوں پر وَن ڈش پروگرام اور جمعے کی ہفتہ وار چُھٹی ختم کر کے اتوار کی چُھٹی کا اعلان کیا۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہوا، جب دوسری طرف آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بات چل رہی تھی اور بعض مبصّرین کے مطابق یہ سب کچھ عالمی ادارے پر اثرا انداز ہونے کے لیے تھا۔بیرونِ مُلک پاکستانیوں نے دیکھتے ہی دیکھتے 15کروڑ ڈالرز بھجوا دئیے اور عوام سے بھی تقریباً 150 ارب روپے قومی خزانے میں جمع ہوئے۔
اُس دَور کے اخبارات اور ٹی وی صنعتی اداروں، تاجروں، بینکس اور دیگر کمرشل اداروں کی طرف سے ’’قرض اُتارو، مُلک سنوارو‘‘ کے اشتہارات سے بَھرے نظر آتے ہیں۔ کئی بینکس نے کروڑوں روپے کے عطیات کا اعلان کیا۔ عطیات جمع کروانے کے لیے مُلک میں جگہ جگہ کیمپس لگائے گئے، جہاں’’ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ کے بینرز آویزاں کیے گئے تھے۔ قومی اداروں اور عساکرِ پاکستان نے ایک، ایک دن کی تن خواہ دینے کا اعلان کیا۔ مُلک میں 47ء اور65ء کا ساجذبہ نظر آتا تھا، لیکن پھر اچانک حکومت کی ترجیحات بدل گئیں اور سارا زور بے نظیر دَور کی بدعنوانیاں تلاش کرنے پر صَرف ہونے لگا۔
نواز حکومت نے بے نظیر حکومت کے عالمی معاہدوں پر نظرِ ثانی کا اعلان کیا، لیکن ان کی سب سے خطرناک کوشش عدلیہ اور صدر فاروق لغاری سے محاذ آرائی تھی۔ یہی وہ دَور تھا، جب سپریم کورٹ پر حملہ ہوا۔ اُن کے اِسی دَور میں وہ دن بھی آیا، جب مُلک میں دو چیف جسٹس اور دو سپریم کورٹس بیک وقت کام کر رہی تھیں۔ ابتدا میں سیاسی طور پر مستحکم نظر آنے والی نواز شریف کی حکومت جلد ہی سیاسی محاذ آرائی کا شکار ہو گئی اور پھر جس کے گرداب میں’’ قرض اُتارو، مُلک سنوارو‘‘ اسکیم بھی ڈوب گئی اور عوام کے عطیات بھی ’’لاپتا‘‘ ہوگئے۔