• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منو بھائی کی بیٹی گڑیا نے جب تتلا کے بولنا شروع کیا تو وہ مجھے پیتل آنٹی کہتی تھی۔ شاید اسکے معصوم بچپن کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ یہ جو اوپر سے سنہری سنہری آنٹی نظر آتی ہے۔ اصل میں ہے پیتل کی۔ یہاں سے شروع ہوتی ہے چالیس برس پہلے کی میری اور منو بھائی کی دوستی، ہم کرشن نگر میں رہتے ہوئے، یحیٰ خان کی عیش پرستیوں پر ہم سارے دوست مل کر روتے بھی تھے اور جب 16 دسمبر کو اعلان کیا گیا کہ ’’دونوں فوجوں کی باہمی مصالحت سے پاکستانی افواج نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں‘‘۔ وہ دن ہماری زندگی کا اتنا المناک دن تھا کہ ہم جو روز اگلو کی آئس کریم کھانے جاتے تھے۔ وہاں بھی نہیں گئے ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی نہیں رہے تھے کہ سب کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ایسا سانحہ ہمارے اوپر اسوقت بھی آیا جب 4 اپریل کو بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی اور اس وقت بھی آیا جب یوسف کامران نے ہم دوستوں کے درمیان سے رخصت چاہی۔
منو بھائی نے جب سے ریواز گارڈن میں گھر بنایا ہے۔ صبح ہوتے ہی چڑیاں بولتی ہیں اور منو بھائی کے دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ کوئی معذور عورت یا مرد، کوئی روزگار کی تلاش میں نوجوان لڑکا یا لڑکی، کوئی ٹی وی پہ کام کرنے کی حسرت لیے جوان اور کوئی ٹوٹا پھجا لکھنے والا موجود ہوتا ہے۔ منو بھائی سے مدد مانگنے کو۔ مشاورت کرنے کو، لکھنے کو سیکھنے کو، منو بھائی ان سارے عذابوں کو اپنی تحریر کے ذریعہ سارے پڑھنے والوں تک پہنچاتا ہے۔ بے آسرا لوگوں کی مدد کرتا ہے اور جب ظلم کو حد سے بڑھا ہوا دیکھتا ہے تو فلسطینی شاعروں نزار قبانی اور محمود درویش کو ترجمہ کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ یہ ہمارے مشترکہ پسندیدہ شاعر ہیں۔ فروغ فرخ زاد سے لیکر اپنا سیکسٹن تک کو ہم نے اکٹھے بیٹھ کر پڑھا ہے۔وہ بھی کیا دن تھے جب ہم نہر کے کنارے بیٹھ جاتے تھے۔ امانت علی خاں گنگنا رہا ہوتا تھا۔ حسن لطیف دھن بنا رہا ہوتا تھا۔ حبیب جالب اپنی تازہ غزل سنا رہا ہوتا تھا۔ جاوید شاہین، منو بھائی، یوسف اور میں سننے والے ہوتے تھے۔ ان سارے دوستوں نے اپنی بیئر کی بوتلیں نہر میں ٹھنڈی ہونے لٹکائی ہوتی تھیں اور رات گئے یہ فقیروں کا قافلہ واپس لوٹتا تھا۔ اس وقت کوئی جیل میں بند کرنے والا یا منہ سونگھنے والا نہیں ہوتا تھا۔
ضیا الحق کے زمانے میں مساوات سے لیکر قرآن شریف کی آیتیں تک سنسر ہوتی تھیں۔ منو بھائی کا کالم بھی سنسر ہوتا تھا۔ اسی زمانے میں منو بھائی نے ’’پر اجے قیامت نئیں آئی‘‘ جیسی ظالم نظم لکھی تھی۔ منو بھائی نے باقاعدہ شاعری کو اپنا اسلوب نہیں بنایا۔ اسے میں آج کے مردوں کا راشد الخیری کہتی ہوں کہ لوگوں کی وفات پر ایسے ظالم کالم لکھتا ہے کہ نہ جاننے والا شخص بھی رو پڑتا ہے۔اپنے بیٹے کاشف کی بیماری کو بھی بڑی ہمت سے سہا اور دوستوں یعنی شفقت تنویر مرزا، جاوید شاہین اور کئی دوستوں کی جدائی پہ جب میں نے کہا ’’منو بھائی! تمہارے ساتھ کون آرہا ہے‘‘ منو بھائی نے کہا کوئی رہا ہی نہیں‘‘ اس قافلہ دل زدگاں میں، تمہاری سہیلی کشور ناہید موجود ہے۔ بھولو مت ایک سا یہ بھی ساتھ دے تو رقم کرنے کو یہی تقویت کافی ہوتی ہے۔ ہمیں مارنے کے لیے رجعت پسند قوتیں بہت تیز گام ہیں۔ یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ روشن خیال چراغوں کو بجھا دیا جائے۔ یہ چاہتی ہیں کہ عورتوں کو گھروں میں مقید کردیا جائے۔ ہم نے یہ لڑائی ضیا الحق کے زمانے میں پہلے بھی لڑی ہے۔ حوصلہ مت ہارنا، میں تمہاری سہیلی ہوں۔ میں اور تم ساتھ ساتھ ہیں۔
مگر منو بھائی! تمہارے قلم کی سیاہی کیوں سوکھ گئی تھی جب لورالائی میں نوجوان جوڑے کو سنگسار کیا جا رہا تھا۔ جب جعفر آباد میں سات خواتین کو زندہ دفن کردیا گیا تھا اور اب جبکہ میرے بیٹوں کے گلے قلم کیے جا رہے ہیں تم دنیا بھر کی معیثت اور سیاست پر شاید اس لئے لکھنے لگے ہو کہ ملک کے مفلوک الحال لوگوں کے بارے میں لکھتے ہوئے تمہارے منہ کا ذائقہ کڑوا ہو جاتا ہے۔ میرا بھی یہی حال ہے۔ سہیلی! اگر ہم اپنی بولیں گے تو اور کون ہوتا ہے حریف ہم مرد افگن عشق! لب ساتھ ہے مگر ہے میرے بعد۔منو بھائی کو ضیا الحق کے زمانے میں سزا دینے کے لئے ملتان ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ وہاں پہ ادیبوں کا گروہ ان کا استقبال کرنے کے لئے پہلے سے موجود تھا۔ منو بھائی کا دل بہل گیا مگر لاہور لاہور ہے۔ بچے یہاں تھے۔ منو بھائی واپس لاہور آ گئے۔ صحافت پہ 60 سال سے اوپر عرصہ گزارنے کے بعد، جب پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو جنرل شیر علی سے لڑائیوں کے ساتھ ساتھ، ان دوستوں کی بے وفائیاں کو بھی یاد کرتے ہیں جو چند ہزار پیسوں کے معاوضے کی خاطر، اخبار در اخبار پھرتے رہے یا پھر اینکر پرسن بن جاتے ہیں۔
آج کل لوگ اخبار، خبروں کے لئے نہیں کہ خبریں تو چوبیس گھنٹوں میں سینکڑوں دفعہ سن کر کان پک چکے ہوتے ہیں۔ اصل مزا تو کالموں کا ہوتا ہے۔ جن میں سے کچھ منو بھائی کی طرح سوشل موضوعات اور دکھوں پر لکھے ہوتے ہیں۔ باقی سرکار کے اسپانسرڈ مضامین ہوتے ہیں جو کہ سرکار کی مدح اور اقدامات کو سراہنے کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ جب ہم لوگ انفارمیشن منسٹری میں تھے اس وقت ہم لوگ دو، دو سو روپے دے کر وقار انبالوی، حبیب اللہ اوج، عبدالمجید بھٹی معہ کوثر نیازی، سرکار کی تعریف میں مضامین لکھوایا کرتے تھے۔ اب افراد زر کے باعث، یہ قیمت ہزاروں میں بڑھ گئی ہے۔ اب کون کون خریدار ہے۔ آپ کالم پڑھ کے اندازہ لگا سکتے ہیں۔
فتح محمد ملک، ہر چند ایک اور اخبار میں کالم لکھ رہے ہیں۔ مگر وہ جب منو بھائی کے حوالے سے اپنی یادیں دہراتے ہیں تو ڈاکٹر غلام جیلانی برق، شفقت تنویر مرزا اور منظور عارف کو یاد کیے بغیر نہیں رہتے ہیں۔ بتاتے ہیں کہ اس زمانے کے استاد، اپنے شاگردوں کی سیاسی اور لسانی تربیت کس طرح کرتے تھے۔مجال ہے کہ شاگردوں کے وارنٹ نکل آئیں اور استاد، یہ احساس نہ کرے کہ مجھے اپنے شاگرد کو بچانا ہے۔ اب حالات اتنے بدل گئے ہیں کہ استاد اپنے بچوں کو سیاست کے اوراق کھنگالنے کی فرصت ہی نہیں دیتے ہیں۔ آج کے بچے، کمپیوٹر اور یوٹیوب پر وہ کچھ دیکھ لیتے ہیں، جس کی ان کی عمر اجازت بھی نہیں دیتی ہے۔ دیکھئے تو یہ کہ ایک صحافی منو بھائی جس نے 60 سال صحافت کو دئیے ہیں۔ وہ ہمیں آج تک اپنے قلم سے آبیار کر رہا ہے۔
تازہ ترین