• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: پرویز فتح… لیڈز
امریکہ کے شہر شکاگو کے مزدوروں نے 19ویں صدی میں جانوں کا نزرانہ دے کر 8گھنٹے یونیوسل شفٹ اور سوشل سیکورٹی کا جو فلسفہ دیا تھا، آج اُس سے نہ صرف مزدوروں بلکہ دُنیا بھر کے انجینئرز، ڈاکٹرز، اساتذہ سائنس دان، صنعت کاروں سمیت ہر شعبۂ زندگی کے انسان مستفید ہو رہے ہیں۔ مظلوم، محکوم اور پسے ہوئے طبقات پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کے بے لگام استحصال کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی سماج کی، دنیا میں روشن خیالی اور انسانیت پر مظالم کے خلاف تحریکوں کی داستانیں بھی اتنی ہی پرانی ہیں، البتہ ان کے خلاف منظم تحریکوں کی بنیاد صنعتی انقلاب کے بعد ہی پڑی، جب ہزاروں کی تعداد میں مزدور ایک ہی چھت کے نیچے کام کرنے لگے، صنعتی انقلاب کا محرک انسان تھے، جنہوں نے اپنے علم، سوجھ بوجھ اور تجربے کی بنیاد پر نئی نئی تخلیقات سر انجام دیں، محنت کشوں کی اس قربانی کے نتیجے میں 1889ء میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر یکم مئی 1890ء سے ہر سال مئی کی پہلی تاریخ کو مزدوروں کا عالمی دن، یوم مئی کے نام سے منانے کا اعلان کیا گیا۔ ہر سال یکم مئی کو منایا جانے والا یہ دن محنت کشوں کا عالمی دن ہے جو امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے قتل عام اور شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے، ہم ہر سال یکم مئی کو محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد اور اس کے لئے قربانیاں دینے والوں کے ساتھ یک جہتی کرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ، پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں ان تمام انسانوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہیں جو اجتماعی جدوجہد کررہے ہیں جو زیادہ تر انتہائی مشکل حالات میں کرنا پڑتی ہے اور قربانی مانگتی ہے۔ آج عارضی ملازمین یا پھر کنٹریکٹ لیبر نے دنیا بھر کی طرح برطانیہ اور پاکستان میں بھی کام کرنے والوں کے حقوق کو سلب کررکھا ہے، کیونکہ ان پر ملازمت کے تحفظ اور دیگر مراعات کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ برِصغیر پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کو تو سامراج نے بٹوارے کے وقت ہی ایسے مذہبی تعصب، نفرتوں اور قتل و غارت میں ڈال دیا کہ وہ اُس روایت کو آج بھی جاری رکھے ہوئے اپنے ہی پستی کے سفر پر رواں دواں ہیں۔ ٹیکنالوجی کی تخلیق تو محنت کار انسانوں نے کی ہے، لیکن اِس کا ثمر سرمایہ دار سمیٹ رہے ہیں۔ اُن کی طاقت اِس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ ہر چیز کو اپنی دولت سے پرکھتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے اُسی سے خرید بھی لیتے ہیں۔ حکومتیں بھی اُنہی کی بنتی ہیں اور اُنہی کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ کاپوریٹ میڈیا ایک بہت بڑا مافیا بن چکا ہے اور سامراجی ممالک اُس پر اربوں ڈالر لگا کر عام آدمی کا ذہن کنٹرول کر رہے ہیں۔ ہمارے جیسے ممالک میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نوآبادیاتی ڈہانچے تلے قائم حکومتی مشینری، مالی دباؤ اور اسٹیبلشمنٹ کے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ اشتہارات کی بندش، میڈیا مالکان پر دباؤ، صحافیوں کی بےدخلی، میڈیا مالکان سمیت صحافیوں پر مقدمات اور برسوں تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کرنے جیسے ہتھکنڈوں کو اِس مہارت سے استعمال کیا جاتا ہے کہ بڑے سے بڑا تیس مار خان بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس طرح عوام کا ووٹ لے کر اقتدار میں آنے والی روُلنگ الیٹ اُنہی عوام کا بڑی بے دردی سے معاشی، سماجی اور سیاسی استحصال کرتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کا انحصار مجموعی طور پر زراعت پر ہے۔ ملکی آبادی کا 64 فیصد کے قریب حصہ دیہی آبادی پر مشتمل ہے اور براہِ راست یا بالواسطہ زراعت کے پیشے سے بندھا ہوا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے حکمران طبقات اور اشرفیہ نے ملک کا حال اِس حد تک ابتر کر دیا ہے کہ ملکی آزادی کے 74 برس گزر جانے کے باوجود ہم بنیادی زرعی اجناس بشمول کندم، چینی، دالیں درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے چند اضلاع کو چھوڑ کر سارا ملک جاگیرداروں اور قبائیلی سرداروں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے، جبکہ محنت کش اور چھوٹا کسان اُن کے سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف سمیت تمام روُلنگ جماعتیں اُنہی جاگیرداروں اور سرداروں کی اتحادی ہیں اور اُنہی الیکٹیبلز اور اُن کے کارندوں کو ٹکٹ دیتی ہیں۔ پھر وہی جاگیردار اسمبلیوں میں پہنچ کر ایسا کوئی قانون پاس نہیں ہونے دیتے جو ملک میں جاری جاگیردارانہ تسلط کو چیلنج کر سکے۔ اِس طرح تبدیلی کے نعرے اور دعوے سادہ لوح عوام کو بےوقوف بنانے کے سوا کچھ ڈلیور نہیں کر پاتے۔ ہم عہد کریں کہ پاکستان کو ایک ترقی پسند، استحصال سے پاک عوامی جمہوری پاکستان بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے جو ایک حقیقی فلاحی ریاست ہو، جو مذہب، جنس، علاقہ اور رنگ کی بنیاد پر اپنے ملک کے عوام کو تفریق کرنے کی بجائے امن، محبت، بھائی چارے کی علمبردار ریاست ہو، جس میں ملک صرف ایک فیصد اشرفیہ اور بیوروکریسی کا نہ ہو بلکہ 99 فیصد محنت کش کام کرنے والے مزدوروں، کسانوں، اساتذہ، ڈاکٹرز، انجینئرز اور پسے ہوئے طبقات کا ہو اور اُن کے معاشی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی حقوق کا تحفظ ہو۔ ایسا ملک کے معاشی ڈھانچے کو توڑ کر تشکیل نو کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آؤ سب عہد کریں اور اس پر ثابت قدمی سے کاربند رہیں۔
یورپ سے سے مزید