گورنر ہاؤس لاہور کے رہائشی حصہ کے مرکزی دروازے پر کہ جہاں صدر ایران ابراہیم رئیسی کے اعزاز میں تقریب کے انتظامات کئے گئے تھے۔ صدر ابراہیم رئیسی سے جب ایرانی سفیر رضا امیری نے میرے لئے تعارفی كلمات ادا کئے تو اس وقت ایرانی صدر کے چہرے پر ایک محبت آمیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے صدر ایران سے اپنی دو ہزار سولہ میں ایران میں ہونے والی ملاقات کا ذکر کیا تو انہوں نے فوری طور پر کہا کہ ان کو وہ ملاقات اور اس میں ہونے والی گفتگو یاد ہے جو میرے لئے ایک نہایت خوش گوار احساس کا باعث بنا ۔ اس تقریب کا اہتمام وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مريم نواز صاحبہ نے معزز مہمان کے اعزاز میں کیا تھا ۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ ہر لحاظ سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کیلئے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا ۔ کچھ عرصہ قبل پاک ایران سرحد پر جو نا خوش گوار صورت حال پیدا ہو گئی تھی اس کے اثرات کو ماضی کا حصہ بنانے کی غرض سے دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے حکام بہت متحرک تھے ۔ خاص طور پر ایران کے سفیر رضا امیری نے تو اپنی سرگرمیوں کو انتہائی تیز رفتار کر دیا۔ اس تقریب میں ہی قونصل جنرل ایران لاہور مہران مہدفار جو پاکستان سے تعلقات کو بہتر کرنے میں بہت پر جوش ہیں نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیری سے میری علیحدہ میں ملاقات کرائی جس میں ایرانی وزیر خارجہ نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات کو مزید بہتر کرنے کی غرض سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ آپ جیسے افراد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ایک سوال بہت زیادہ گردش کر رہا ہے کہ اس دورے سے دونوں ممالک کو کیا مفادات حاصل ہوئے اور دنیا کے اس پر کیا تاثرات ہیں۔ پاکستان اس وقت بد ترین اقتصادی صورتحال سے نبرد آزما ہے اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار جو پاکستان کی اقتصادی بحالی اور اس کی ضروریات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں بار بار اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اقتصادی ضروریات سے وابستہ ہوگی اور اس صورت حال میں ایران سے تعلقات کی بہتری بہت ضروری ہے۔ ابھی ماضی کی شہباز شریف حکومت نے گوادر میں بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے ایران سے بجلی حاصل کی اور اس کیلئے رقم کی ادائیگی کا بھی طریقہ ڈھونڈ ہی لیا کہ جہاں چاہ وہاں راہ ۔ ایران سے ہمارے خطے کے دیگر ممالک بھی اقتصادی تعلقات کو بڑھارہے ہیں جن میں اہم ترین نام افغان طالبان کا ہے۔ انہوں نے گزشتہ فروری کے آخر میں پینتیس ملين ڈالر کی ایرانی بندر گاہ چاہ بہار پر سرمایہ کاری کا اعلان کیا اور شنید ہے کہ افغان طالبان ایرانی بندر گاہ چاہ بہار پر افغان فری اکنامک زون پر بھی ایرانیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کے ماضی میں ایران سے تعلقات میں ایک تلخی تھی مگر یہ اقدامات بیان کر رہے ہیں کہ دونوں جانب سے معاملات کو دیکھنے کا زاویہ فکر تبدیل ہو رہا ہے۔ بر سبيل تذکرہ بیان کرتا چلوں کہ دنیا بھی افغان طالبان کے حوالے سے اپنے نکتہ نظر میں لچک پیدا کر رہی ہے ابھی ورلڈ بینک نے’’ كاسا- ایک ہزار‘‘ بجلی کے پروجیکٹ پر دوبارہ رقم دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بجلی کی ٹرانسمیشن لائن تاجکستان، کرغیزستان، افغانستان اور پاکستان پر مشتمل ہے اور اس پر افغانستان کی طرف کی ورلڈ بینک کی فنانسنگ دو ہزار اکيس سے معطل تھی۔ پاکستان اور ایران کو بھی گوادر اور چاہ بہار کو ایک دوسرے کی حریف بندرگاہوں کی حیثیت سے دیکھنے کی بجائے سسٹر بندر گاہوں کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ جہاں تک ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کا مسئلہ ہے تو وہ واقعی بہت گھمبیر ہے اور پاکستان کو اس میں بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کے ان دونوں ممالک سے تعلقات اُن دونوں کیلئے ایک موقع بھی ہے اور اگر پاکستان اپنی پوزیشن کو صحیح معنوں میں استعمال کر جائے تو پاکستان ان دونوں برادر ممالک کے مابین تلخی کو ختم کرنےمیں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایرانی صدر کے دورے کے دوران ہی امریکہ کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ امریکہ پاکستان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ پاکستان ایران سے تعلقات میں امریکہ کے مؤقف کو نظر انداز نہ کرے۔ ویسے بھی امریکا کی ضروریات کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اسکے بیانات کے مافی الضمیر کو سمجھا جائے کہ وہ در حقیقت چاہتا کیا ہے۔1953 کے آخر میں جب ایوب خان بطور کمانڈر انچیف امریکا کا دورہ کر رہے تھے اور کچھ دنوں بعد گورنر جنرل غلام محمد نے امریکہ دورے پر پہنچنا تھا امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا کہ ’’مغربی ایشیا کے دفاع میں پاکستان کے کردار کے بارے میں گفتگو کا ایک غیر رسمی سلسلہ گزشتہ ایک دو برسوں سے چل رہا تھا لیکن ان رپورٹوں میں کوئی صداقت نہ تھی کہ پاکستان اور امریکہ ایک ایسے معاہدے کیلئے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے تحت امریکہ اڈوں کے بدلے پاکستان کو فوجی امداد مہیا کرے گا‘‘ اس محکمہ خارجہ کے بیان سے چھ روز قبل نیو یارک ٹائمز نے اداریہ تحریر کیا تھا کہ ’’دونوں ممالک کے سربراہوں کی بات چیت کا مرکز پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک فوجی اتحاد کے امکانات کا جائزہ ہوگا‘‘ ان دو پے در پے اقدامات سے امریکہ نے ایسا ماحول تشکیل دے دیا کہ ہر طرف اسی بات کے چرچے ہونے لگے جو گورنر جنرل غلام محمد کی حکمت عملی میں نہیں تھی۔ ان کو اور کچھ سمجھ نہ آیا تو انہوں نے امریکی صدر آئزن ہاور سے اپنی ملاقات کے دوران ان کو اب تک دی گئی امریکی امداد کے شکریہ کے طور پر ایک ’’سرخ سندھی سانڈ‘‘ تحفہ کے طور پر پیش کیا مگر آئزن ہاور اس لئے ملاقات نہیں کر رہے تھے انہوں نے نہایت شائستگی کے ساتھ اس تحفہ کو لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ امریکہ پہلے ہی آ چکا ہے اور پھر انہوں نے گورنر جنرل غلام محمد کو امریکہ میں مویشی پالنے پر ایک طویل لیکچر دیا۔ اس واقعہ کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ ایران پاکستان تعلقات کے حوالے سے امریکی حکومت اور ان کا میڈیا کیا کہتا رہا ہے تا کہ اس کا تجزیہ کرکے اس حوالے سے پالیسی اختیار کی جائے ورنہ سانڈ دینے کی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔