پاکستان کی معاشی بحالی کیلئےحکومت اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری پر خصوصی توجہ دے رہی ہے جس کے مثبت اثرات دکھائی بھی دینے لگے ہیں۔ اس حوالے سے سعودی عرب کا ایک 50 رکنی سرمایہ کار وفد اتوار کو پاکستان پہنچے گا جس سے پی آئی اے اور بھاشا ڈیم کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ، توانائی، خوراک، کیمیکل، گوشت، کان کنی، زراعت، صنعت و تجارت وغیرہ کے مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری کے معاملے پر پاکستان کے حکام اور تاجروں کی بات چیت ہوگی اور معاہدے طے پائیں گے۔ سعودی عرب ، خلیجی ممالک کی سب سے بڑی معیشت ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان کو اس کے ساتھ تجارت میں فی الوقت بڑے خسارے کا سامنا ہے۔ پاکستان سعودی عرب کو چاول، گائے کا گوشت اور مصالحہ جات برآمد کرتا ہے جبکہ برآمدی اشیا میںاضافے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ خاص طور پر غذائی اشیا کی برآمد سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوسکتا ہے اسی لئے سعودی تاجر پاکستان کے زرعی منصوبوں میں شراکت کے خواہشمند ہیں۔ سعودی وفد کے ساتھ بزنس ٹو بزنس، حکومت سے بزنس اور حکومت ٹو حکومت بزنس کے مواقع پر بات چیت ہوگی۔ پاکستانی تاجروں کے ساتھ وفد کی بات چیت کے نتیجے میں برآمدات بڑھانے کے مواقع تلاش کئے جائیں گے۔ مہمان وفد کے ساتھ پاکستانی تاجروں کی کاروباری بات چیت بھی ہوگی اور مشترکہ منصوبوں میں سرمایہ کاری پر تبادلہ خیال ہوگا۔ پاکستان کی آبی وسائل کی وزارت نے دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے کے لئے سعودی عرب سے ساڑھے 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی درخواست بھی کر رکھی ہے جس پر وفد کے ساتھ مذاکرات ہونگے۔ وزیر اعظم شہباز شریف گزشتہ ماہ دو مرتبہ سعودی عرب کے دورے کرچکے ہیں جن میں سرمایہ کاری سمیت شراکت داری کے اہم منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ توقع ہے کہ مہمان وفد کے دورے سے پاک سعودی تعاون کے نئے باب کھلیں گے۔