• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کا ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کرنا اچھا اقدام، تجزیہ کار

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان علینہ فاروق کے سوال وزیراعظم نے ججوں کی تعیناتی کیلئے آئینی ترمیم کی ہدایت کردی ہے، وفاقی وزیر قانون، کیا حکومتی فیصلہ درست ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ حکومت کا ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کرنا اچھااقدام ہوگا، آئینی ترمیم کیلئے پارلیمان میں بحث اور تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لیا جانا ضروری ہے،پروگرام میں تجزیہ کار بینظیر شاہ ،فخردرانی ،ارشاد بھٹی ،مظہر عباس اور عمر چیمہ نے اظہار خیال کیا۔بینظیر شاہ نے کہا کہ ججوں کی تعیناتی کیلئے آئینی ترمیم کیلئے حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت موجود ہے، سینیٹ میں جے یو آئی ف اور آزاد امیدواروں کے ساتھ کچھ ووٹ پی ٹی آئی کے بھی لینے پڑیں گے، یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ ایسی کون سی چیز ہے جس کیلئے چیف جسٹس کی مدت تین سال فکس کرنے کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی دور میں اسی قسم کا بل آیا تھا لیکن اس وقت ن لیگ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی مدت بڑھانے کے حق میں نہیں تھی۔ فخر درانی کا کہنا تھا کہ حکومت کا ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کرنا اچھااقدام ہوگا، دیکھنا ہوگا اس پر عدلیہ کی طرف سے کیا رائے آتی ہے، عدلیہ ججوں کی تعیناتی کیلئے کوئی بامعنی رائے دے کر نیا طریقہ کار وضع کردیتی ہے تو ملک کیلئے بہتر ہوگا۔ارشاد بھٹی نے کہا کہ حکومت ججوں کی تعیناتی کیلئے جو کاریگری کررہی ہے ایسی کارروائیوں نے ملک کی تباہی و بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر 65سے بڑھا کر 68سال کی جائے یا چیف جسٹس کی مدت تین سال کردی جائے دونوں صورتوں میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو فائدہ ہوگا،البتہ اگر یہ قانون سازی آنے والے چیف جسٹس سے لاگو ہو تو الگ بات ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ چیف جسٹس کی مدت تین سال فکس کردی جائے گی، اس طرح چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت بڑھ جائے گی، اس کے بعد جسٹس منصور علی شاہ آجائیں گے اور جسٹس منیب اختر اس لسٹ میں سے نکل جائیں گے۔مظہر عباس نے کہا کہ حکومت جس طرح ججوں کی تعیناتی کیلئے آئینی ترمیم کرنے جارہی ہے اس طرح نہیں ہوتی، آئینی ترمیم کیلئے پارلیمان میں بحث اور تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لیا جانا ضروری ہے، کسی بھی ادارے کے سربراہ کی مدت میں توسیع کی جائے تو دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے، موجودہ فارمولے میں کیا خرابی ہے جبکہ ہم آج بتاسکتے ہیں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کب چیف جسٹس ہوں گے، حکومت کو سیشن کورٹس، لیبر کورٹس اور فیملی کورٹس بہتر بنانے پر بات کرنی چاہئے جہاں لاکھوں کی تعداد میں عام آدمی کے کیسز ہیں۔ عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ججوں کی تعیناتی کا عمل شفاف بنانے کیلئے پی ٹی آئی بھی حکومت کے ساتھ تعاون کرسکتی ہے، چیف جسٹس کی مدت میں توسیع کیلئے جواز پیش کیا جارہا ہے کہ یہاں جج صرف پینتیس دن کیلئے بھی چیف جسٹس بنے ہیں، اس مسئلہ سے نپٹنے کیلئے قانون بنادیا جائے کہ کسی جج کی ریٹائرمنٹ میں مخصوص مدت سے کم وقت رہ گیا ہو تو اسے چیف جسٹس نہ بنایا جائے۔
اہم خبریں سے مزید