• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

شعر و شاعری کے لیے مختص؟

تازہ سنڈے میگزین میں منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ میں انڈونیشیا کے صدارتی انتخابات پر بہت ہی عُمدہ اور اچھی رپورٹ پیش کی۔ پڑھ کر معلومات میں خاصا اضافہ ہوا۔ اِس رپورٹ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انڈونیشیا تین سو سال تک ہالینڈ کی نوآبادی رہا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ثناء توفیق خان بہت سی کھانے پینے کی تراکیب کے ساتھ موجود تھیں، بھئی، مزہ آگیا۔ اور اس مرتبہ آپ نے سرِورق کے لیے تین ماڈلز میں سے ایک کا انتخاب کیا، یقیناً ایک عُمدہ فیصلہ تھا، ہمیں پسند آیا۔ 

’’ ڈائجسٹ‘‘ میں خنساء سعید کا افسانچہ ’’بازیابی‘‘ بہت ہی شان دار تھا۔ چند سطروں میں وہ نہایت عُمدگی سے اتنا کچھ کہہ گئیں، کیا کہنے۔ اور پلیز، ڈاکٹر قمر عباس سے کوئی مضمون توتحریرکروائیں،کیا اُن کو صرف شعروشاعری کے لیےمختص کر چھوڑا ہے اور اِس بار ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے اشوک کمار کولہی کو تختِ شاہی پربٹھا دیا۔ سو فی صد یقین ہے کہ خط کی خُوب نوک پلک سنواری گئی ہوگی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ہم قمر عباس کو شعر و شاعری تک مختص کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ وہ اپنی مرضی و منشاء سے اِس حد تک محدود ہو رہے ہیں اور جب بھی خُود اِس حد سےتجاوزکرنا چاہیں گے، ہم آمنّا و صدّقنا ہی کہیں گے۔ اور ہاں، آپ کا یہ نوک پلک سنوارنے والا اعتراض صرف اشوک کمار کولہی ہی کے لیےکیوں۔ اِس سے قبل بھی بارہا مسند پربراجمان چِٹھیوں کی خُوب نوک پلک سنواری گئی اور تاحال سنواری جاتی ہے۔ بلکہ خال ہی کوئی خط ہوتا ہے، جو بعینہ شائع ہو۔

فخر اور خوشی ہے

بلاشبہ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کا شمار پاکستان کے ہر دل عزیز، مقبول ترین جرائد میں ہوتا ہے۔ یہ وہ شمارہ ہے، جس میں عالمی و مُلکی حالاتِ حاضرہ سے لے کر ہر ایک شعبے سے متعلق کچھ نہ کچھ مواد اور تفریح کا بھرپور سامان موجود ہوتا ہے اور مجھے تو بہت ہی فخر اور خوشی ہے کہ مَیں اِس جریدے کا نہ صرف مستقل قاری بلکہ لکھاری بھی ہوں۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

ج: ہم بھی اپنے اِک اِک قاری کے دل سے معترف ہیں کہ اس دورِحاضر میں یہ مستقل خط وکتابت بھی کسی عظیم معرکے سے کم نہیں۔

بیسنی روٹی، چولائی کے ساگ کا لُطف

اُمید ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سےاہلِ بزم خوش و خرّم ہوں گے۔ ماہِ فروری کےچاروں جریدے موصول ہوئے۔ پڑھے، اچھے لگے، لہٰذا یوں سمجھیں، اِس دفعہ تبصرہ ہفتہ وار جریدے پر نہیں، ایک ’’ماہ نامے‘‘ پر ارسال کر رہا ہوں۔ حضرت آدم و حوّاعلیہم السلام کے واقعے سے جنّات کے احوال تک زبردست ’’قصص القرآن‘‘ پڑھنے کو ملے، جن کا انجام بالآخر فتح (سورۂ فتح) پر ہوا۔ یعنی ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا نام خُوب خُوب چمکا۔’’سنڈےاسپیشل‘‘میں حالات و واقعات عُمدہ انداز سے قلم بند کیےگئے۔ 

عوام نے فیصلے کا رُخ مخلوط حکومت کی طرف کردیا، جب کہ انڈونیشیا میں نوجوان ووٹرزنے یہی رُخ معیشت کی طرف موڑا۔ بہرحال، انتخابات کے بعد کا منظرنامہ خُوب ’’منوّر‘‘ رہا۔ ’’الیکشن2024ء کے بڑے معرکے، کون، کس کے مدِمقابل؟‘‘پر منور راجپوت نے بھی روشنی ڈالی۔ ’’200ارب روپے کا انتخابی سیزن‘‘ بھی کمال تحریر تھی کہ عوام کے لیے تو یہ سیزن وسیلۂ ظفر ثابت ہوتا ہے۔ مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا، تو پھر دس امن معاہدے پرزےپرزے کرنے والے پربھلا کیسےاعتبارکیاجا سکتا ہے۔ 

فیچر، سنڈے اسپیشل، اشاعتِ خصوصی سب لائقِ مطالعہ تھے، بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک تحریر تھی، خصوصاً نسرین جبیں کی کاوش کا جواب نہ تھا۔ ہرسال یادگاری ڈاک ٹکٹس سےمتعلق تحریر بھی خُوب معلومات افزاکاوش ٹھہرتی ہے۔ مدثر اعجاز نے تاریخی وَرثے پر قلم آرائی کی، تو ’’گلوبل ٹیچر پرائز ونر‘‘ سسٹر زیف کا انٹرویو بھی مسلسل محنت و جدوجہد کی روشن مثال ثابت ہوا۔ خالد ارشاد صوفی ارسطو کے شہر سے اندلس تک کا احوال سُنا رہے تھے۔ 

بھئی، سچ میں ہم نےتواِن کے ساتھ ساتھ خُوب سیاحت کی، وہ بھی برف باری کے ماہ میں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی تحاریراچھی تھیں۔ ’’پتھر‘‘ اور ’’ہیرے‘‘ میں فرق تلاش کیا گیا، وگرنہ ’’برفاب‘‘ میں ’’حدِ نگاہ صفر‘‘ ہوتے ہی’’چاند بھی ادھورا‘‘ نظرآنےلگتا ہے۔ جب کہ دشت میں چلنے کے لیے’’بُوٹ بھی ننّھے‘‘ ہوں تو ’’بازیابی‘‘ خاصی مشکل ہوجاتی ہے۔ آہ! سوز و گداز پر مبنی شاعری، رُوح جھنجوڑگئی۔ ارے ہاں، ماہِ فروری میں ’’متفرق‘‘ نے خُوب جگہ بنائی۔ اور ایک سے ایک عُمدہ تحریر سامنے آئی۔ ایک خاندان جتنی آبادی، محض30 افراد پرمشتمل مُلک بھی دنیا میں موجود ہیں، پڑھ کر حیرت ہوئی۔ 

پہاڑوں کے شیخ کا قصّہ تو دل مضطرب کرگیا۔ ٹرک ڈرائیورز کا احوال بھی اچھا لکھا گیا۔ جب کہ ’’مائی بوائےجیک،لارنس آف عریبیہ اور مائیکل کولنز‘‘ پر مبنی ڈاکٹر ناظر محمود کا مضمون سب میں نمایاں ترین تھا۔ میری طرح دیگر قارئین بھی یقیناً بہت لُطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی بھی ہرایک کہانی لاجواب ہی لگی۔ ہمایوں ظفر کی محنت دکھائی دیتی ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بگھارے بینگن کی ترکیب خُوب مزے کی تھی۔ ’’نئی کتابیں‘‘ پر اخترسعیدی اور منور راجپوت کی تبصرہ نگاری کا جواب نہیں۔ بھئی، سچ تویہ ہے، ماہِ فروری کے شماروں نے دل خُوش کر دیا۔ اور رہی بات اپنے صفحے کی، تو ایک سے بڑھ کر ایک خط اور اُن کے جوابات پڑھ کر، ہم تو جیسے بیسن کی روٹی کے ساتھ چولائی کے ساگ کا لُطف اُٹھاتے رہے۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج: پچھلے دنوں کہیں پڑھا کہ ’’بحثیت قوم، اب ہم نےدماغ کے بجائے شکم سے سوچنے سمجھنے کو ہی اپنا وتیرہ، عادتِ ثانیہ بنا لیا ہے۔‘‘ اور بات سیدھی دل کو جا لگی، کیوں کہ سچ یہی ہے کہ اب ہماری ہر دوسری بات، کام، مثال، حتیٰ کہ ہر تہوار، تفریح بھی کھانے پینے سے شروع ہو کراُسی پرختم ہوتی ہے، جیسے زندہ رہنے کا کوئی دوسرا مقصد ہی نہ ہو، تو پھر آپ کو بھی خطوط اورجوابات سےبیسنی روٹی، ساگ ہی کا لُطف آنا تھا۔

ہم آزادی کے قدردان نہیں

’’مُلکی بقاکاسوال ہے، قومی قیادت غور کرے‘‘، لکھاریوں کے لکھاری، اپنےنرم لہجےسے پتھر دِلوں کو پگھلانے والے منفرد قلم کار منورمرزا کا کہنا صد فی صد درست کہ بہرطور ترقی کی سمت اورمعیشت کی بحالی کومدِنظر رکھنا ہوگا۔ وطنِ عزیز کے لیے ہر حال میں ایک ہو کر مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ بخدا تحریر کے اِک اِک حرف سے خُوشبوسی آتی محسوس ہوئی۔ محمود میاں نجمی نے بھی جب جب قلم اُٹھایا، چہارسُو پیغامِ حق پھیلایا، قلب و جاں کو گرمایا۔ رستم علی خان ریڈ لائن بس پراجیکٹ کو اہلِ کراچی کے لیے سہولت سےزیادہ اذیّت تصوّر کرتے ہیں۔ 

سچ ہے، کرپشن کےناگ نے ہمارے سارے سسٹمز کو ناکارہ کر کے رکھ دیا ہے۔ کراچی، مِنی پاکستان کہلاتا ہے، اپنی آغوش میں سب کو پناہ دیتا ہے، مگر لگتا ہےکہ یہاں محبّت گولیوں سے بوئی جارہی ہے، شہر کا چہرہ خُون سے دُھل رہا ہے اور لوگوں کو گمان ہے کہ رستہ کٹ رہا ہے، پرہمیں تو یقین ہوچلا ہے کہ ہم منزل کھو رہے ہیں۔ گرچہ میرے بہت سے یار، دل دار اِس شہر کو سجانے، سنوارنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں فاروق اقدس الیکشن2024ء کا حال احوال لیے رقم طراز تھے کہ اِس بار خواتین آگے رہیں، بہت سے نئے چہرے بھی سامنے آئے۔ 

رؤف ظفر مستقبل کےحالات سازگار ہونے کی اُمید لیے ہوئے تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں، ایڈیٹرصاحبہ نے’’عالمی یومِ خواتین‘‘کے حوالے سےرائٹ اَپ تحریرکیا، جس میں ’’عورت آزادی مارچ‘‘ جیسے ڈھونگ تماشوں کی مذمّت کی گئی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مبشرہ خالد کا کہنا بالکل بجا کہ ’’جنگ ہمیشہ منفی سوچ، رویّے، کردار سے ہونی چاہیے، کسی مخصوص صنف سے نہیں۔‘‘ لبنی آصف، آلوؤں کے پکوان کی صُورت بچت، صحت، انفرادیت، ذائقہ سب ساتھ ساتھ لائیں۔’’ماسٹرشیف‘‘ کے ذریعے قراۃ العین فاروق نےبھی شان داراینٹری دی۔ اوریہ کیا…نرجس ملک،’’ڈائجسٹ‘‘ میں بطور’’اچھی عورت…؟؟‘‘ اُف!مختصرسی تحریر نے ہلا ڈالا، خُوب جھنجوڑا۔ 

کیفی اعظمی کا ’’عورت‘‘ کے عنوان سے کلام بھی لاجواب تھا۔ ؎ اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے… اُٹھ مِری جان! مِرےساتھ ہی چلنا ہے تجھے۔ خالد ارشاد صوفی اٹلی گھوم آئے، قطر کے اہم سیاحتی مقامات بھی کھنگال ڈالے، واہ بھئی۔ منور راجپوت کے میٹھے مُسکراتے الفاظ تو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ اس بار نئی کتابوں پر کیا خُوب تبصرہ فرمایا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘میں روبینہ ادریس نے زیبو کی داستانِ حیات بیان کی، تو بس آنکھیں بھرآئیں۔ ہمارے بزرگ آگ و خون کا دریا عبور کرکے پاکستان پہنچے، مگر ہم آزادی کےقدردان نہیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘میں خالدہ سمیع نے صدارت سنبھالی، بہت مبارک ہو۔ دیگر خطوط بھی صفحے کو گویا مہکا سا گئے۔ آخرمیں دُعاہے، خالق ومالکِ دوجہاں آپ کا، ہمارا ہمیشہ نگہبان رہے۔ (ضیاءالحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: بالکل درست کہاآپ نے، ہم آزادی کے قدردان ہی نہیں۔ اگر ہوتے، تو اپنے ہاتھوں اِس پاک دھرتی کا یہ حال نہ کرتے۔ اورقابلِ صد افسوس امر یہ ہے کہ کشمیری، فلسطینی حریّت پسندوں کی طویل، صبرآزما جدوجہد اور حالتِ زار دیکھ کر بھی ہم کوئی سبق حاصل کرنے پر آمادہ نہیں۔

تو بس ، بات ختم

اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی ورک فورس خیریت سے ہوگی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا انڈونیشیا کے صدارتی انتخابات کے تناظر میں پاکستان کے حالات و واقعات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ’’فیچر‘‘ میں نسرین جبیں نے’’قیامِ امن میں بین المذاہب ہم آہنگی‘‘پر روشنی ڈالی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں محمود میاں نجمی نے ’’قصّہ سورۂ فتح کے نزول کا‘‘ انتہائی خُوب صُورت انداز میں پیش کیا۔ ’’ہمارا وَرثہ‘‘ میں مدثر اعجاز نے پاکستان کی قدیم تہذیبوں کا ذکر کیا، تو’’پیارا گھر‘‘میں عبدالرؤف نے سال2024 ء کو بہتر سال بنانے کے کچھ منصوبے پیش کیے۔

’’جہانِ دیگر‘‘ میں خالد ارشاد صوفی بارسلونا، اندلس میں اجنبیوں کی طرح گھومتے رہے۔ ’’متفرق‘‘ میں محمّد عُمیر جمیل بہت ہی حیرت انگیز مضمون لائے۔ ہمیں اس سے قبل اس حوالے سے کچھ معلوم نہ تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عشرت زاہد نے دہشت گردی کے موضوع پر بہترین افسانہ تحریر کیا۔ خنساء سعید کا بھی ’’بازیابی‘‘ کے عنوان سے افسانچہ اچھاتھا۔ ڈاکٹر قمر عباس کی نظم’’اے کاش!‘‘ پسند آئی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات پُراثرتھے، اوراب آئیے اپنے صفحے کی طرف، جس میں ہمارا خط شامل نہیں تھا۔ تو بس، پھر بات یہیں ختم۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: ارے واہ! اگر بات ختم کرنا اتنا آسان ہے، تو پھر تو بہت سی باتیں ختم کی جاسکتی ہیں۔ وہ کیا اکثر لاہوریے کہتے ہیں، ’’یہ تو گُڈ ہوگیا!!‘‘

تعریف و توصیف کی مستحق

سنڈے میگزین ابھی تک آپ کی ذاتی کاوشوں کی وجہ سے زندہ ہے، وگرنہ بڑے بڑے اخبارات یہ روایت برقرار نہ رکھ سکے اور اِس ضمن میں یقیناً آپ بہت تعریف و توصیف کی مستحق ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پورے میگزین کی جان ہے۔ وہ معلومات جو عمومی طور پر کتابوں میں بھی نہیں ملتیں، ہمیں یہاں سے مل جاتی ہیں۔ آپ سے التماس ہے کہ امام علی رضا کے بارے میں بھی کوئی مضمون لکھوائیں۔ (نیازمند، کوئٹہ)

ج: آپ کی نیازمندی اپنی جگہ، مگر خط کے ساتھ نام لکھنے کی زحمت تو ضرور ہی اُٹھانی چاہیے۔ اوربھائی!یہ سوفی صد آپ کی غلط فہمی ہے کہ یہ جریدہ اگر اب تک نکل رہا ہے، تو اِس میں ہمارا کوئی کمال ہے۔ قطعاً نہیں، ہرگز نہیں۔ ہم نےایسی کوئی خوش فہمی کبھی نہیں پالی۔ یہ صرف ادارے کے مالکان کی ذاتی کاوشوں، مرضی ومنشا، مہربانی یا کسی منفعت کے سبب نکل رہا ہے اور جب تک وہ چاہیں گے، نکلتا رہے گا۔

                                فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

25 فروری کا سنڈے میگزین پڑھنے کا موقع ملا۔ پہلے ہی صفحے پر ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا اسلامی مُلک انڈونیشیا کے صدارتی انتخاب کی رُوداد بیان کر رہے تھے۔ بلاشبہ، ووٹرز نے جوش کی بجائے ہوش کا مظاہرہ کیا اورسیاسی جماعتیں بھی قومی مفاد پرمتحد نظر آئیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا، اگر پاکستان میں بھی سیاسی جماعتیں قومی مفاد پر متّفق ہوجاتیں، لیکن یہاں تو بقول اقبال یہ حال ہے کہ ؎ وائے ناکامی، متاعِ کارواں جاتا رہا…کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔ اے کاش! ہمارے پیارے وطن میں بھی منفی سوچ، گالم گلوچ، دشنام طرازی، الزام تراشی، انتشار و افترا کی سوچ کی جگہ مثبت اور مبنی براخلاق تہذیب سے مزیّن سیاسی، سماجی اور مذہبی کلچر فروغ پا جائے، اے کاش!! ’’فیچر‘‘ میں نسرین جبیں معاشرے میں باہمی مذہبی احترام و رواداری، تحمّل و برداشت کی اہمیت اجاگر کر رہی تھیں۔ ہمارا مذہب بھی ہمیں اِسی بات کی تلقین کرتا ہے۔ 

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں نجمی صاحب فتحِ مکّہ کے احوال سے قلب و رُوح گرمارہے تھے، جب کہ ’’ہماراوَرثہ‘‘ کے ذریعے مدثر اعجاز پاکستان کی قدیم تہذیبوں کی شکل میں ماضی بعید کی سیرکروا گئےاوراِس حقیقت کو بھی آشکارکیا کہ ؎ ثبات اک تغیّر کو ہے زمانےمیں۔’’پیاراگھر‘‘میں عبدالرئوف نے زندگی میں ٹھوس منصوبہ بندی اور وقت کی اہمیت گوش گزار کی۔ رہی بات ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی، تو ایڈیٹر صاحبہ! ہم تو آپ کی مدلّل، جامع اور برمحل خُوب صُورت اشعار سے آراستہ تحریر پڑھنے ہی کےلیےیہ صفحہ کھولتے ہیں۔ بیٹیوں سے متعلق ایسے لطیف احساسات سے مرصّع تحریر آپ ہی کا خاصّہ ہے۔ بخدا کیا ہی جذباتی اور دل چُھولینےوالی تحریر تھی۔ 

’’جہانِ دیگر‘‘ میں خالد ارشاد صوفی کی نگارش بھی خُوب رہی۔ وہ کیا ہے کہ ؎ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ کبھی اندلس پر مسلمانوں کی حُکم رانی ہوا کرتی تھی، ہائے لمحۂ فکریہ، ’’متفرق‘‘ کے حسن بن صباح کوتوہم Evil Genius ہی کے نام سے یاد کرسکتے ہیں۔ ’’حدِ نگاہ صفر‘‘ میں عشرت زاہد نے بگڑتی ہوئی اخلاقی و سماجی صُورتِ حال کو عکس بند کیا، تو ’’بازیابی‘‘ میں مُلک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت کی طرف اشارہ تھا اور آخر میں ’’آپ کے صفحے‘‘ بلکہ ہمارے صفحے کی بات کہ یہ شمارے کی جان اور آپ کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سدرہ فیصل اور ماہ نور شاہد احمد نےمیری کاوش کو سراہا، اُن کا بے حد شکریہ اور جریدے کے تمام لکھاریوں، خطوط نگاروں کو میرا سلام و آداب۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں)

ج: وعلیکم السلام۔

گوشہ برقی خطوط

* اُمید کرتا ہوں کہ خیریت سے ہوں گی۔ کچھ ہفتے پہلے مَیں نے آپ کو اپنا لکھا ہوا ایک افسانہ بھیجا تھا، جس کا عنوان ’’بنیرہ‘‘ تھا۔ ایک تو مجھے اُس پر آپ کا تبصرہ درکار ہے۔ دوم، مَیں آپ سے کچھ مشورہ بھی چاہتا ہوں۔ مَیں نے اب تک اُردو زبان میں دو چار افسانے اور ایک سو کے قریب منظومات لکھ رکھی ہیں۔ کوئی پیشہ وَرتخلیق کارتونہیں، مگر سوچتا ہوں کہ اگر اِس فن کو ذریعۂ معاش بنانا چاہوں، تو کیا رستہ اختیار کرنا چاہیے۔ آپ کی رائےکا بے حد انتظار رہے گا۔ (اسد طارق، راول پنڈی)

ج: آپ کا یہ افسانہ ’’بنیرہ‘‘ کم ازکم ’’سنڈے میگزین‘‘ میں تو شایع نہیں کیا جا سکتا۔ طرزِ تحریر تو ٹھیک ہی ہے، لیکن افسانہ خاصا بولڈ ہے، تو ہمارے جریدے کے لیے موزوں نہیں۔ ویسے ماہانہ بنیادوں پر کئی ادبی میگزین شایع ہوتے ہیں، تو آپ وہاں بھی کوشش کرسکتے ہیں۔ اوراگراپنےاس ٹیلنٹ کوکمائی کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر کسی ٹی وی چینل سے رجوع کر دیکھیں۔ آج کل توتھوک کے بھائو ڈرامے بن رہے ہیں اور جیسے جیسے اسکرپٹس پہ بن رہے ہیں، آپ کا چانس بننا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔

* آج 10 مارچ 2024 ء بروز اتوار’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے صفحے پر فوزیہ ناہید سیال کی تحریر ’’میڈم حافظہ: ہماری انتہائی قابل، نیک سیرت پرنسپل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ عرض یہ ہے کہ اِس تحریر میں پرنسپل صاحبہ کا مکمل نام اور شہر کا نام موجود نہیں۔ پرنسپل حافظہ فہمیدہ صاحبہ، ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ کریسنٹ کالج، چیچہ وطنی جو کہ اپنے دورِ ملازمت میں ’’میڈم حافظہ‘‘ کے نام سے پورے ریجن میں معروف تھیں۔ الحمدُللہ آج بھی حیات ہیں اوروہ تحریر میں لکھی تمام خصوصیات کی حامل بھی ہیں۔ یہ تحریر اُن ہی کے حوالے سے لگ رہی ہے۔ عرض یہ کہ میڈم حافظہ اپنی اِس پرانی طالبہ سے رابطہ کرناچاہ رہی ہیں، تو کیا آپ کے توسّط سے اُن سے رابطہ ممکن ہے!! (نعیم افضال احمد ڈائریکٹر الفرقان اسکولز چیچہ وطنی، ضلع ساہیوال)

ج: آپ کی ای میل، فوزیہ ناہید کو فارورڈ کردی گئی ہے۔ وہ بھی یقیناً اپنی ہردل عزیز پرنسپل سے ضرور رابطہ کرنا چاہیں گی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk