• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تپتی ہوئی سڑک پر چلتے ہوئے اُس نے پیشانی پر آئے پسینے کے قطرے اپنے دوپٹّے سے پونچھ کر پاؤں سے نکلتی ہوئی چپّل کو دوبارہ پاؤں میں اُڑسا۔ اپنے چھوٹے سے بیٹے کو ایک پہلو سے دوسرے پہلو پر منتقل کیا اور سڑک کے کنارے بڑے سے خُوب صُورت بنگلے کی ڈور بیل پر ہاتھ رکھ دیا۔ دروازے کے اندر سے اُسے دیکھ کر دورازہ کھول دیا گیا۔ جیسے ہی دروازہ کُھلا، وہ جلدی سے اندر داخل ہوگئی۔ 

کار پورچ سے گزر کر برآمدے کی سیڑھیوں پر اپنے بیٹے کو بٹھایا اور ساتھ ہی سمجھا دیا۔ ’’یہیں بیٹھے رہنا، شور نہیں کرنا، ورنہ باجی نکال دے گی، اپنے گھر سے۔‘‘ اُسے سمجھا بُجھا کر وہ بنگلے کے اندرونی حصّے میں کام کرنے چلی گئی۔ وہ گزشتہ دس سالوں سے اِس بنگلے میں کام کر رہی تھی۔ اُس کے چاروں بچّے اِسی برآمدے میں ماں کے انتظار میں بیٹھ بیٹھ کر بڑے ہوئے تھے۔ یہ اُس کی چوتھی اور فی الحال آخری اولاد تھی۔

دو تین گھنٹے بعد وہ بنگلے سے کام کرنے کے بعد تھکے ہوئے پہلو پر دوبارہ سے بیٹے کو ٹِکا کر چلی، تو گویا جسم کے جوڑ جوڑ میں درد کی لہریں بہنے لگیں۔ اِس کے باوجود اب کے اُس کی رفتار سُست نہ تھی بلکہ قدموں میں خاصی تیزی تھی، جس کی وجہ اُس کے ہاتھوں میں پکڑا وہ شاپر تھا، جس میں بنگلے کی مالکن نے اُس کے بچّوں کے لیے ادھ کھائے بسکٹ، چپس، چاکلیٹس، پیزا اور میکرونیز جیسے لوازمات ڈال کر ساتھ کیے تھے۔ ہر روز یہاں آتے ہوئے تازہ دَم ہونے کے باوجود اُس کے قدم سُست ہوتے اور واپس جاتے ہوئے تھکن کے باوجود اُس کی رفتار اِسی طرح تیز ہوتی۔ وجہ بچّوں کے چہروں کی وہ مُسکراہٹ، وہ رونق تھی، جو اُس کے ہاتھ میں موجود بچے ہوئے کھانے کے شاپرز دیکھ کر آتی تھی۔

اُس نے چلتے ہوئے جلدی سے پپّو کو حسبِ عادت ایک پہلو سے دوسرے پہلو پر منتقل کیا اور سڑک کراس کرنے لگی۔ دونوں طرف دھیان سے دیکھ کر سڑک پر پاؤں رکھا ہی تھا کہ دائیں طرف سے تیزی سے آتی ہوئی بائیک اُسے ایک زوردار ٹھوکر لگا کر آگے بڑھتی چلی گئی اور وہ بیچ سڑک پر گر پڑی۔ گرتے ہوئے اُسے بس یہ خیال تھا کہ پپّو کو چوٹ نہ لگے اور کھانے کا تھیلا ہاتھ سے نہ گرے۔ اِس احتیاط میں خُود اُسے کس قدر چوٹ لگ چُکی تھی، اِس کا اندازہ لگانے کا وقت اُس کے پاس نہ تھا۔ 

وہ پپّو اور شاپر سنبھال کر جلدی سے اُٹھی اور گھر کی طرف بھاگنے کے انداز میں چلنے لگی۔ گھر پہنچ کراُس نے پپّو اور شاپر اپنی بڑی بیٹی کو پکڑایا۔ سب بچّے ماں کے انتظار میں تھے، مگر اُس کی ٹانگ اور ماتھے سے بہتا ہوا خون دیکھ کر بچّے پریشان ہوگئے۔ ’’نہ نہ… فکر کی گل (بات) نئیں ہے۔ مَیں ٹھیک آں۔ تم سب یہ کھاؤ۔ دیکھو آج باجی نے کیا بھیجا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چھوٹی سی ڈیوڑھی میں لگے کُھرے کے پاس گئی اور چوکی پر بیٹھ کر اپنے زخم صاف کرنے لگی۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا، تو بچّے اس کے تسلّی دینے پر اب شاپر کی طرف متوجّہ ہو چُکے تھے۔ اُس نے اپنے دُکھتے ہوئے سر پر کس کے دوپٹا باندھا اور کمرے کے کونے میں لیٹ گئی۔ اُسے پتا ہی نہ چلا کہ کب اُس کی آنکھ لگی۔

صبح سویرے اُس کے گھر والے نے اُسے جگایا۔ ’’کی گل اے بھلیے لوکے! اَج کم تے نئیں جانا؟‘‘ (کیا بات ہے بھلی مانس! آج کام پر نہیں جاؤ گی؟)’’چل اُٹھ، چُھٹی کرے سی، تاں باجی غصّہ کرسی۔ چل اُٹھ جا، چھیتی جاکم تے۔‘‘ (چلو اُٹھو، اگر چُھٹی کی، تو باجی غصّہ کرے گی۔ اُٹھ جاؤ، جلدی جائو، کام پر)۔ اُس نے مُندی مُندی آنکھوں سے اپنے خاوند کو دیکھا اور پھر دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔ شاید کل کی چوٹ اب اپنا اثر دِکھا رہی تھی۔ اُس کی بالکل ہمّت نہیں ہو رہی تھی، کام پر جانے کی۔ اُس کا خاوند اُسے جگا کر خُود اپنے کام پر چلا گیا۔ اُس نے سوچا آج ایک دن چُھٹی کرلوں گی، تو کیا ہوجائے گا۔ اُس کی بڑی بیٹی نے باپ اور باقی بہن بھائیوں کو چائے، پاپےکا ناشتا دے کر، اُسے بھی ناشتا کروایا، تو یہی سوچ کر وہ دوبارہ سو گئی۔ اور پھر دوبارہ آنکھ اپنے چھوٹے بچّوں کے رونے پرکُھلی جو ’’چیز‘‘ نہ ملنے پر رو رہے تھے۔

اُس نے کہا بھی کہ جا کے گلی کے نکڑ والے کھوکھے سے ٹافیاں لے آئو۔ مگر وہ نہ مانے، اُنہیں تو بنگلےسے ملنے والی’’چیز‘‘چاہیے تھی۔ بچّوں کا رونا اُس سے دیکھا نہ گیا۔ خُود کو بمشکل گھسیٹتے ہوئے اُٹھی۔ سر پر بندھا دوپٹا کھول کر پورا پھیلا کے اوڑھا اور باہر نکل گئی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تقریباً دس سال بعد وہی گلی، وہی گھر اور تقریباً وہی سب افراد تھے۔ گھر کی ڈیوڑھی میں جھلنگا سی چارپائی پرکھانستے ہوئے مدقوق سے وجود میں جیسے جان ہی نہیں تھی۔ اندر کوٹھڑی میں سے بچّوں کے شور کی آوازیں سُنائی دے رہی تھیں کہ سائیکل کی گھنٹی کے ساتھ ہی سارے بچّے دروازے کی طرف لپکے۔ ’’ابّا آ گیا… ابّا آگیا…‘‘ پپّو نے سائیکل کھڑی کرکے اپنی میلی سی واسکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر پہلے اپنے بچّوں میں ’’چیز‘‘ تقسیم کی۔ بچّوں نے کہا بھی کہ ’’ابّا! یہ تھیلے میں کیا ہے، یہ بھی دے ناں۔‘‘ ’’نہ، نہ… یہ تم لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ 

چلو جائو، بھاگو یہاں سے، دے دیا تم سب کو جودینا تھا، اب تنگ نہ کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر پپّو نے کُھرے پہ جاکر اچھی طرح ہاتھ دھوئے اورساتھ ہی شاپر کے اندر پانی ڈال کر اُس میں موجود انگور کے ایک گچھے کوبھی دھویا اور جھلنگا سی چارپائی پر پڑے مدقوق وجود کو سہارا دے کر اُٹھانے لگا۔ پھر ایک ایک دانہ کر کے انگور اُس کے منہ میں ڈالنے لگا۔ اُس بوڑھے ناتواں وجود نے پوپلے سے منہ سے ابھی چند دانے ہی کھائے تھے کہ پپّو کا ہاتھ روک دیا۔ ’’کیا بات ہے امّاں! اور کھا ناں۔ ڈاکٹر نے بولا ہے، اپنی ماں کو انگور کِھلا، صحت بنے گی۔‘‘ پپّو نے اصرار کیا۔ ’’نہ پُت (بیٹا)! بس، بوت (بہت) کھا لیا۔ رَج (بَھر) گئی آں (ہوں) اب اپنے بچّوں کو کِھلا۔‘‘

پپّو کے اصرار کے باوجود اُس وجود نے مزید انگور کھانے سے انکار کر دیا۔ پپّو، بچّوں کو انگور دے کر اپنی نوکری کی ڈبل شفٹ لگانے چلا گیا تاکہ بیوی بچّوں کے خرچے کے ساتھ ماں کے لیے دوا اور پھل کا بندوست کر سکے۔ وہی کوٹھڑی، وہی ڈیوڑھی، وہی گلی، وہی محلہ وہی ماں اور وہی پپّو… مگر اب پپّو، ماں کے پہلو پر سوار نہیں تھا۔ اب اُس پپّو نے ماں کی ڈیوٹی سنبھال لی تھی۔ اُس کی ماں نے اپنے بچّوں کی ’’چیز‘‘ کے لیے تو اپنا آپ ہلکان کیے رکھا، آج، پپّو کے بچّوں کی چیز کے لیے بھی وہ اپنی بھوک کو رَجا دیتی ہے، تو پپّو پھر کیسے رَج کر کھا سکتا ہے۔ وہ ماں اور بچّوں کا پیٹ بَھرنے، اُنھیں رجانے کے لیے اپنے آپ کو ہلکان کیے رکھتا ہے۔

اور…ماں آنکھوں میں آنسو لیے بستر پر لیٹی سوچ رہی تھی کہ ایسی مائیں تو شاید ہر گھر ہی میں ہوتی ہیں، پرایسے پپّو نصیبے والیوں ہی کو ملتے ہیں۔