روبینہ یوسف ،عابد ٹاؤن، گلشنِ اقبال، کراچی
اُس نے خُود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے’’سفید فاسفورس‘‘کی ڈبیا کھولی، چُٹکی بھر لے کر بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کےدونوں ہاتھوں کو رگڑا اورخُود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے ہاتھوں کو منہ پرپھیرلیا۔ ایکا ایکی اُس کاچہرہ چمک اُٹھا، جو چہرے پر اِک عجب سا نُورپھیلا کراُسے ’’پیر نظامت شاہ‘‘ بنا گیا۔ نظامت شاہ دریدہ جھولیوں کو اپنےجنتر، منتر، تنترم، ینترم سے رفو کرنے کا ہُنرجانتا ہے۔
اُس کا تعویذ سات سمندر پار بھی بَدی کی قوّتیں بھسم کردیتا ہے۔ لیکن…وہ اپنے دل کی ملکہ کا دل کبھی تسخیر نہ کرسکا۔ ناعمہ پندرہ کےسن میں تھی، جب ماں کے ساتھ آستانے پہ ’’دَم‘‘ کروانے آئی تھی۔ اُس دن کے بعد اُسے کبھی ماں باپ کے گھر جانا نصیب نہیں ہوا۔ سادہ لوح والدین اِس بات پرخُوشی سے پُھولے نہیں سمائے تھے کہ شاہ نے خُود اُن گنہ گاروں کی فرزندی میں آنے کا فیصلہ کیا۔
یکے بعد دیگرے والدین کی وفات پر بھی وہ چندگھنٹوں کے لیے میکے گئی تھی اور بس…وقت کی دھول میں اس کا وہ حُسن تو مدھم پڑ گیا تھا کہ جس کے دام میں نظامت شاہ آیا تھا۔ ہاں، ایک بیٹی’’آویزہ‘‘ قدرت نے اُس کی جھولی میں ڈال دی تھی، جس نے ماں باپ ہی کا حُسن چُرایا تھا۔ نظامت شاہ کے بڑے سے گھر میں ایک کوٹھری ہے، جس میں اُس کی بوڑھی ماں خدیجہ بیگم رہتی ہے۔ جُھکی کمر والی وہ بیوہ عورت اپنے مرحوم شوہر کی پینشن پر گزارہ کرتی ہے، کیوں کہ نظامت شاہ کی آستانے کی کمائی کو وہ’’حرام‘‘ قرار دیتی ہے۔
روزانہ صبح نظامت شاہ اپنے آستانے پر جانے کے لیے نکلتا، تو ماں کے سامنے ضرور رُکتا، مگر وہ اُسے دیکھ کرمنہ پھیر لیتی اور جب وہ آستانے کا دروازہ کھول کر اندر قدم رکھتا، تو اُس کےہاتھ تیزی سےتسبیح کے دانے گرانے لگتے۔ کبھی وہ یہ آیت تلاوت کرتی۔ ’’انسان اور جن کو شعور دیا، سمجھ بوجھ دی۔ اُن سے پکڑ اور گرفت بھی ہوگی۔‘‘ تو خُود بھی اُس کی رُوح کانپ اُٹھتی۔ نظامت شاہ کے ہاتھ کی آٹھ انگلیوں میں طرح طرح کے نگینوں والی انگوٹھیاں اُسے مزید ’’پہنچا ہوا‘‘بناتیں۔
آج بھی وہ حسبِ معمول ماں کی کوٹھری کےسامنے رُکا اور آج بھی ماں نے پوری دل سوزی سے تلاوتِ قرآن شروع کردی۔ ’’عصرکی قسم! انسان خسارے میں ہے۔‘‘ اُسے پتا تھا، روز کی طرح یہ اُسے سنانے ہی کے لیے ہے۔ وہ تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ آستانے کا دروازہ کھول کر اندرقدم رکھا تو وہاں بیٹھے سائلین اور ’’اسٹاف‘‘ چوکس ہوگیا۔ شاہ نےشانِ بےنیازی سے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا، تو لوگ ایک ایک کر کے اُس کا ہاتھ چومنےلگے۔ شاہ عقابی نظروں اپنے سامنے بیٹھے لوگوں کو گھور رہا تھا کہ کس سے کتنا ’’نذرانہ‘‘ نکلوایا جا سکتا ہے۔ ویسے وہ مخلوقِ خدا کی خدمت ’’فی سبیل اللہ‘‘کرتا تھا۔ بس بزرگوں کی نیاز اور تعویذوں کی زکوۃ کے نام پر پیسے لیتا۔
ناعمہ، شاہ کو رخصت کرنے کے بعد ساس کے کمرےمیں آگئی۔ دونوں ہی دُکھی ہیں۔ ’’کیا ہوگیا ہے لوگوں کو، بےرُوح کردیا ہےدین کو؟ ارے، اللہ تو ہماری رگ رگ میں بیٹھا ہے۔ یہ کیسی دیواریں کھڑی کردی ہیں لوگوں نے؟اصل سے ٹوٹ کر بھلا کوئی پَھلا پُھولا ہے، نجات پاسکا ہے؟؟ اِس دنیا میں تو بےنشان مریں گے ہی، اگلے جہان میں بھی بے شناخت، بے چہرہ رہیں گے یہ لوگ…‘‘اکلوتے بیٹے کی بے ہدایتی کا غم اُن کی کمر توڑے دےرہا تھا۔ ’’امّاں! کیوں خون جلاتی ہے اپنا؟؟ درگاہ کے ٹمٹماتے چراغ کبھی توحید کے نُورکی جگہ نہیں لے سکیں گے۔‘‘ بے بسی کے باوجود ناعمہ کا لہجہ مضبوط تھا۔ ’’لیکن اگر سب کچھ لُٹ جانے کے بعد شاہ کو ہوش آیا تو پھر کیا فائدہ…؟؟‘‘وہ بات ختم کرکے تسبیح کے دانے یوں گھمانے لگیں، جیسے بیٹے کے دل کی رگیں ٹٹول رہی ہوں۔
کئی سال پہلے جب شاہ نے یہ ’’دھندا‘‘ شروع کیا تھا، تو ماں نے تب بھی یہی کہا تھا۔ ’’دیکھ بیٹا! کیوں لوگوں کو اپنے اصل سے توڑنا چاہتا ہے؟ سارے جہانوں کا مالک و مختار کیا اپنی مخلوق کے دُکھ دُور کرنے پرقادر نہیں؟ تُو اُنھیں نماز، قرآن کے رستے پرلگا۔ نہ تو تیرے قبضے میں جنّات ہیں اور نہ ہی تو کوئی گدی نشین ہے۔ جمعےکی نماز تک تو پڑھی نہیں کبھی تُونے۔ تُو کیا جانے سجدوں کی لذّت اور قربِ حقیقی کا مزہ۔‘‘ رسان سے سمجھاتے سمجھاتے آخر میں اُن کا لہجہ طنزیہ ہوگیا تھا۔ ’’تیرے باپ نے ساری عُمر سفید پوشی میں گزار دی۔ ماتھے پہ سجدوں کےنشان لیے وہ سرکاری اسپتال میں بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کے چلےگئے۔‘‘ جواباً وہ زہرخند لہجےمیں بولا تھا۔ ’’اس لیے امّاں! کہ اِس دنیا میں صرف پیسا ہی حقیقت ہے، باقی سب فریب ہے۔‘‘
ناعمہ کے گھر کے صحن میں بیری کا درخت تھا اور بقول اُس کی ماں کے اُس پر درخت کا جن عاشق ہوگیا تھا، تب ہی وہ روز بروز کُملاتی جا رہی تھی اور اُسی کے توڑ کے لیے وہ اُسے شاہ کے پاس لائی، تو شاہ خُود اُس پر عاشق ہوگیا اور اِس ’’جن‘‘ کا توڑ تو پھر کسی کے پاس بھی نہ تھا۔ اورپھرناعمہ کے دل کی ساری سبز کونپلیں جھلس گئیں۔
آویزہ کا کمرا تیز میوزک سے گونج رہا تھا۔ وہ رقص کررہی تھی، کیوں کہ اُس کے کلاس فیلو، ’’بیسٹ فرینڈ‘‘ کواُس کاماڈرن ازم پسند تھا۔ اچانک آویزہ کا سیل فون بجا۔ یہ اسپیشل ٹون وہ خُوب پہچانتی تھی اور پھر فون ریسیو کرتے ہی اُس کا چہرہ گویا سُرخ گلابوں کی سُرخی چُرانے لگا۔ ’’کہاں ہو یار؟ آج یونی ورسٹی نہیں آئی۔‘‘ امان، عرف موتی کا لہجہ پیارمیں ڈُوبا ہوا تھا۔ ’’بتایا تو تھا کہ آج ماما سے تمہارے متعلق بات کرنی ہے۔‘‘ آویزہ کا انداز بھی چاشنی بَھرا تھا۔ ’’ہاں تو پھر کیا ہوا، بات کی یا نہیں؟‘‘ارے یار! ماما کا مسئلہ نہیں ہے۔ اُنھیں بابا کا ڈر ہے کہ وہ نہیں مانیں گے۔
یوں بھی ابھی ہماری تعلیم بھی تومکمل نہیں،اور پھرتمھاری جاب…؟؟ آویزہ کچھ کہتے کہتے رُک گئی۔ ’’تو یار! ساری عُمر بےروزگار تو نہیں رہوں گا۔‘‘ امان کا لہجہ قدرے خفگی لیے ہوئے تھا۔ اور پھر اچانک ہی وہ شرارتی سے انداز میں بتانے لگا۔ ’’تمھیں پتا ہے، مَیں تمہارے بابا کےآستانے پر گیا تھا کہ مَیں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، مگر لڑکی کا باپ راضی نہیں ہورہا۔‘‘ ’’ہائیں…‘‘ آویزہ چند لمحے توگنگ ہی رہ گئی۔ ’’اوہ نو…یواسٹوپڈ…یہ کیا کیا تم نے؟ اگر اُنہیں شک ہوگیا تو اپنے موکل تمہاری پٹائی پر لگادیں گے۔‘‘، ’’ارےجاؤ…دیکھ لوں گا، اُن کے موکلوں کوبھی۔ وہ تو تمہیں میرے قدموں میں لانے کے لیے پورا ایک لاکھ مانگ رہے ہیں۔‘‘ جواباً آویزہ کی دل کش ہنسی سے فضا گونج اُٹھی۔ ’’مجھے پتا ہے بےبی! یوں بھی مَیں کنگال آدمی ایک لاکھ کہاں سے لائوں گا؟‘‘ امان رسان سے بولا۔ ’’ارے کل یونی ورسٹی میں مجھ سے لے لینا ایک لاکھ۔‘‘ آویزہ نےجیسے ناک سے مکّھی اڑائی۔ ’’بڑی کمائی ہے، تمھارے باپ کےکام میں۔ سوچ رہا ہوں، جاب کی بجائے آستانہ ہی کھول لوں۔‘‘ ’’بکواس بند کرو۔‘‘ آویزہ جھنجھلا گئی توامان نے ہنستے ہوئے فون بند کردیا۔
خدیجہ بیگم گھر کے بیرونی دروازے پر کھڑی تھیں اور اُن کی نظریں آستانے کے دروازے پر لگی تھیں، جہاں سے لوگوں کی آمدورفت جاری تھی۔ اچانک ایک عورت سر پر دوپٹا جمائے باہر نکلی، تو انہوں نے اشارے سے پاس بلایا۔ ’’کیا مسئلہ ہے تیرا؟‘‘ ’’ارے اماں جی! کیا بتاؤں، سخت بدنظری اور کالا جادو بتایا ہے شاہ صاحب نے۔ گھر میں بیماریاں، لڑائیاں ختم ہی نہیں ہوتی تھیں۔
بس، شاہ صاحب کی نظرِ کرم ہی سے بیماریاں ختم ہوئی ہیں، بیٹے کو نوکری بھی مل گئی ہے۔ شوہر ہروقت لڑتا تھا، اب عزت کرنے لگا ہے۔‘‘ وہ پٹر پٹر بولے گئی۔ ’’اری، عقل کی اندھی! وہ تو خُود کبھی مسجد نہیں گیا، کبھی قرآن نہیں کھولا۔ وہ کہاں سے تیرے مسئلے حل کرے گا۔‘‘ ’’نہ اماں جی نہ!ایسے نہ کہیں۔ شاہ صاحب کے جنّات نے سُن لیا، تو میرا بُرا حشر کر دیں گے۔‘‘ضعیف العقیدہ عورت تھر تھر کانپ رہی تھی۔ ’’ارے بُرا حشر تو جِنّات کو میرا کرنا چاہیے، جس نے اِس بدبخت کو جَنا ہے۔‘‘ ’’امّاں جی! شاہ صاحب بہت پہنچے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے جو تعویذ جلانے کو دیا تھا۔ قسم لےلیں، چراغ تیز ہوا، بارش میں بھی جلتا رہا۔‘‘
عقیدت عورت کے لہجے، آنکھوں سے چھلکی پڑ رہی تھی۔ ’’ارے وہ کم بخت دوائوں والا آتا ہے، جانے کیا کیا مسالے دے جاتا ہے کہ چراغ کی بتّی پر لگائو، تو وہ آندھی، بارش میں بھی جلتا رہتا ہے۔‘‘ اُن کا لہجہ غضب ناک ہوگیا۔ مگر اِس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتیں، اپنے کاندھے پر ہاتھ کا دبائو محسوس کرکے پلٹیں، تو سامنے نظامت شاہ شعلے برساتی نظروں سے کھڑا دیکھ رہاتھا۔’’واہ امّاں واہ…خُوب حق ادا کر رہی ہو ممتا کا۔ تم مجھے ذلیل و خوار دیکھنا چاہتی ہو؟ کرلو، جو کرنا ہے۔ میرا اللہ بھی بہت بڑا ہے۔‘‘ وہ عورت تو شاہ کو آتا دیکھ کرہی بھاگ کھڑی ہوئی، ماں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔ ’’ارے تُو کہاں آج اللہ کا نام لے بیٹھا۔
یاد رکھ، اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا، تو زمین وآسمان میں کہیں جگہ نہیں ملے گی تجھے۔ ڈر اوپر والے سے۔‘‘ اماں غیض وغضب سےکانپنے لگی تھیں۔ نظامت شاہ اُنھیں سلگتی، تپتی نظروں سے گُھورتا وہاں سے چل دیا۔ ناعمہ بھی آوازیں سُن کر دوڑی چلی آئی تھی، آگے بڑھ کر ساس کو سنبھالنے لگی۔ ’’مَیں ماں ہو کر کیسے اِس کو جہنم کا ایندھن بننے دوں؟‘‘ ماں کی آواز میں آنسوئوں کی آمیزش بھی شامل ہوگئی تھی۔ ’’ہدایت مانگتی رہیں اِس کے لیے۔ پتھر سے سر پھوڑنے سے بہتر ہےکہ دُعا کا سہارا لیاجائے۔‘‘ ناعمہ نے دھیرے سے کہا۔
امان، نظامت شاہ کے آستانے پربیٹھا تھا۔ ’’عشق کی آگ بڑی بُری ہوتی ہے، برخودار! کیاتم نے پیسوں کا بندوبست کرلیا ہے؟‘‘ شاہ کے ہونٹوں کی عیارانہ مسکراہٹ امان کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔ ’’جی، یہ گن لیجیے۔ پورے ایک لاکھ ہیں۔ مگر کام تو ہو جائے گا ناں؟؟‘‘ ’’امان میاں! اگر لڑکی راضی ہے، تو تمہاری شادی کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘ شاہ نے تعویذ لکھتے ہوئے بات جاری رکھی۔ ’’جی… لڑکی تو راضی ہے، مگر اُس کا باپ روڑے اٹکا رہا ہے۔‘‘’’جانتے ہو، میرے پاس کس نسل کے جنّات ہیں، یہ جو میری غلام نسل ہے ناں، یہ بے انتہا سرکش ہے۔‘‘ شاہ کا لہجہ انتہائی پُراسرار اور گہرا تھا۔ ایک لمحے کو تو امان بھی گڑبڑا گیا۔ ’’یہ لو تعویذ…کسی طرح لڑکی کے بدبخت باپ کوپلادو۔ دیکھنا، خُود چل کر تمہارے پاس آئے گا۔‘‘
آویزہ اور امان یونی ورسٹی، کیفے ٹیریا میں بیٹھے تھے۔ آویزہ کے ہاتھ میں شاہ کا دیا ہوا تعویذ تھا۔ اس نے کہا کہ’’ تعویذ مَیں آج ہی کوشش کر کے بابا کو پلا دوں گی۔‘‘ ’’یار! نیا سال شروع ہورہا ہے۔ دبئی کا پروگرام تو بنائو۔ تمھیں پتا ہے، مَیں تو بالکل کنگلا ہوں۔‘‘ امان کو جب بھی آویزہ سے رقم اینٹھنی ہوتی، اپنا لہجہ ایسے ہی میٹھا کر لیتا۔ ’’ارے فکر نہ کرو۔ باپ کا پیسا اولاد ہی کے لیے ہوتاہے اور مجھے تو لگتا ہے، آستانے میں دولت کا کنواں ہے۔‘‘ آویزہ جانے کو اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’اور چڑھاووں کے زیورات بھی تو ہوں گے؟‘‘ بظاہر بہت سرسری لہجے میں پوچھا تھا اُس نے۔ ’’ارے بہت ہیں۔
پتا نہیں بابا عورتوں کو کیا گھول کے پلاتے ہیں کہ اپنی قیمتی ترین چیزیں بھی اُن کےقدموں میں ڈال جاتی ہیں۔‘‘سہ پہر کے قریب خدیجہ بیگم محلّے کے بچّوں کو قرآن پڑھا رہی تھیں، جب آویزہ یونی ورسٹی سے واپس لوٹی۔ وہ رُک کر اُسے دیکھنے لگیں۔ آج وہ لیٹ ہو گئی تھی۔’’اِدھرآ، آویزہ بیٹی!‘‘ انھوں نے پُکارا۔
آویزہ منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکتے ہوئے اُن کی طرف بڑھی۔ ’’کہاں سےآرہی ہو؟‘‘ حتی الامکان لہجہ ایسا رکھا کہ اُس کو بُرا نہ لگے۔ ’’کیا مطلب…جہاں سے روز آتی ہوں۔ یونی ورسٹی سے اور کہاں سے؟‘‘خاصا تنک کرجواب دیا گیا۔ وہ چُپ رہ گئیں۔ آویزہ سر جھٹکتے ہوئے کمرے میں چلی گئی۔ خدیجہ سوچ رہی تھیں کہ یہ اُن کے دل نے آج کیسا الارم بجایا ہے۔ پھر متفکّر سی قرآن کی تلاوت کرتی بچیوں کو دیکھنے لگیں۔
آج نو چندی جمعرات تھی۔ بھاری نیاز کا دن۔ اوپر کی مخلوقات کی بھی حاضری تھی۔ صبح ہی سے آستانے میں ہڑبونگ مچی تھی۔ ’’ابے ڈیلے شاہ! چُھریوں پر دھیان سے مسالا لگایا کر۔ کل لیموں کاٹتے ہوئےخون نہیں ٹپکا۔ بے عزتی ہوتے ہوتے رہ گئی، وہ تو مَیں نے بات سنبھال لی، ورنہ تونے تو لُٹیا ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اب ایسا ہوا تو تیرے یہ ڈیلے ہی نکال دوں گا۔‘‘ سنّاٹے میں شاہ کی پاٹ دار آواز گونجی۔
مسالا ختم ہوگیا تھا، شاہ جی…کل شام ہی منگوا لیا ہے۔‘‘ ’’دیواروں پردھیان سےعرق چھڑک اور ہر سائل کو کافور اور ہرمل کی دھونی دے کر میرے پاس بھیجا کر۔‘‘ ’’اوئے پاکولے! کوئلے دہکا لے ابھی سے…‘‘ دوسرے کو آواز لگائی۔ ’’اور ہاں ٹکلے! پچھلی بار لنگر بہت لیٹ ہو گیا تھا، آج ایسا نہ ہو۔‘‘ ’’جی، جی…سرکار‘‘ ٹکلا منمنایا۔ ’’ہاں، ڈیلے شاہ! بنگالن کو فون کر، لونگیں پڑھ لی ہیں تو جلدی سے لے آئے۔‘‘ کچھ یاد آنے پر شاہ پلٹا، جہاں ڈیلے شاہ بڑے سے پیالے میں زعفران گھول رہا تھا۔ ’’شاہ جی! بات ہوئی تھی اُس سے، اب کے بہت پیسے مانگ رہی ہے۔‘‘’’چربی چڑھ گئی ہے، اُس کی آنکھوں پر۔ میرے ہی بل پرعیش کررہی ہے۔ احسان فراموش کہیں کی۔ لا، میرا فون دے مجھے۔‘‘ غصّے سے شاہ اُبلنے لگا۔ ’’نہ جی نہ، مَیں نے سمجھا دیا تھا۔ لائن پر آگئی ہے۔‘‘
ڈیلے شاہ نے بوکھلاتے ہوئے بات سنبھالی۔ اور رات گئے، جب آستانہ بند ہوا تو شاہ کے ساتھ چلتے ملازم نے نوٹوں سے بَھرا بڑا سا تھیلا اُٹھا رکھا تھا۔ وہ ماں کے سامنے رکھ دیا گیا۔ ’’اماں! تم کتنی بھی دشمنی کرلو مجھ سے۔ یہ دیکھو، لوگوں کا کتنا عقیدہ اور بھروساہے مجھ پر۔‘‘وہ تھیلے کی طرف اشارہ کرکے بولا۔ ’’اگر کوئی میرے آستانے کی مٹّی بھی اٹھا لے، تو نامراد نہیں رہتا۔‘‘ اُس کے لہجے میں فخرو غرور ببانگِ دہل بول رہا تھا۔ ’’یاد رکھ! وہ دن دُور نہیں، جب زمین اور آسمان لپیٹ دئیے جائیں گے۔ بہت جلد تُو دیکھے گا، بے شک انسان خسارے میں ہے…‘‘ ماں کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ اپنے گم راہی کے خزانے سمیت وہاں سے ہٹ گیا۔
وہ ایک عام سی صُبح تھی۔ ہوا درختوں کے پتوں سے سرسراتی گزر رہی تھی۔ سورج کی شعائوں میں وہی بانکپن تھا۔ دھیرے دھیرے ہر شے آنکھیں کھول رہی تھی، مگر نہ جانے کیوں خدیجہ بیگم ساری رات کسی نادیدہ عذاب کی آہٹیں سُنتی رہیں۔ اُن کا ایک ایک پل صبر آزما رہا تھا۔ کبھی قرآن کھول کے بیٹھ جاتیں، کبھی جائے نماز بچھا کرخالقِ حقیقی کے حضور گڑگڑا کر بیٹے کی ہدایت اور اپنی بخشش کی دعائیں مانگتیں اور پھر اُن کی طبیعت کے تکدّر کا راز فاش ہو ہی گیا۔
آویزہ گھر سےغائب تھی۔ ناعمہ حسبِ معمول اُسے یونی ورسٹی کے لیے جگانے گئی، تو سارا کمرا الٹا پڑا تھا، جیسے بہت عجلت میں رختِ سفر باندھا گیا ہو۔ الماری چوپٹ کُھلی تھی۔ کئی قیمتی جوڑے، زیورات غائب تھے۔ عین اُسی لمحے نچلے پورشن سے نظامت شاہ کی غصّے میں بپھری آوازیں سُن کر وہ بدحواس سی ہو کر بھاگی۔ ’’سارا زیور کہاں گیا… یہ لاکر کس نے توڑا؟ ناعمہ… ناعمہ… کہاں مر گئی ہے تُو ناعمہ…!!‘‘ وہ لرزاں لرزاں شوہر کے سامنے کھڑی تھی۔ ’’کچھ خبر بھی ہے گھر کی، بتا کون آیاتھا؟ رات کے اندھیرے میں تُو نے میری کمر توڑ دی…‘‘شاہ کا طیش لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا۔ خدیجہ بیگم شور کی آواز سُن کر باہر آگئیں۔ ’’وہ… وہ آویزہ اپنے کمرے میں نہیں ہے۔‘‘ ناعمہ نے پُھولی سانسوں کے درمیان بمشکل بتایا۔
خدیجہ بیگم نے دیوار کا سہارا لے کرخُود کو گرنے سے بچایا۔ ’’کیا بکواس کررہی ہے، کہاں گئی وہ؟ کون آتا تھا میرے پیچھے گھر میں؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ شاہ کی آنکھوں کے ساتھ آواز بھی پھٹ رہی تھی۔ وہ دوڑتا ہوا سیڑھیاں پھلانگتے اوپر پہنچا تو آویزہ کا خالی کمرا منہ چڑا رہا تھا۔ ’’سچ سچ بتا، کیا قصّہ ہے…تُونے ہی بھگایا ہے اُسے…‘‘ وہ پلٹ کر ناعمہ پر گرجا۔ ’’ارے! اپنے جنّات کو بُلا…اُن سے پوچھ بیٹی کا…‘‘خدیجہ بیگم تڑپ کر آگے بڑھیں اور ناعمہ کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوگئیں۔ ’’تُو تو کہتا تھا کہ خاص عمارالمکان اس گھرکی حفاظت کرتےہیں، تو کیا وہ رات کو بھنگ پی کر سو گئے تھے؟؟‘‘ ماں کی لرزتی کانپتی آواز پاٹ دار ہوگئی۔ ’’اور یہ خُود تو آج تک اِس گھر سے بھاگ نہ سکی، تو اپنی بیٹی کو کیا بھگائے گی؟ لوگوں کے ناسوروں کا علاج کرتاہے، اپنے اندرکا گند بھی توصاف کر۔ جا، جا کے ڈھونڈ اُسے، جو تیرے منہ پر تھوک ہی نہیں گئی، کالک بھی مل گئی ہے۔‘‘
دبئی کے ایک ہوٹل میں آویزہ اور امان خُوب کِھلکھلا کر ہنس رہے تھے۔ ’’بابا کو پورا تعویذ گھول کے پِلا دیا تھا مَیں نے۔ اب ہم جب واپس جائیں گے، تو ہماری شادی ہو جائے گی ناں!!‘‘ آویزہ مخمور سے انداز میں گویا تھی۔ ’’شادی… کون سی شادی…ایسی بھی کیا جلدی ہے تمھیں ؟؟‘‘ امان کا لہجہ کافی عجیب سا لگا آویزہ کو۔ ’’شادی ہی کرنی تھی، تو یہاں دو دن سے میرے ساتھ ایک اجنبی مُلک میں کیا کررہی ہو؟؟‘‘ ’’کیا… ذرا پھر سے کہنا…‘‘ آویزہ کو لگا، اُس نے کچھ غلط سُنا ہے۔ ’’کیا غلط کہہ رہا ہوں۔
تمھیں کیا لگتا ہے کہ کیا مَیں ساری زندگی پیر نظامت شاہ کا گھر داماد بن کے گزاروں گا۔ وہ ایک ڈھونگی، فراڈی پیر، جس نے اپنی بیٹی کو میرے قدموں میں ڈالنے کا تعویذ خُود دیا، مَیں اُس کی بیٹی کے ساتھ شادی کروں گا…؟؟‘‘ آویزہ کو لگا، اُسے کوئی کانٹوں پر گھسیٹ رہا ہے۔ ’’شٹ اَپ! تم…تم کنگلے، قلاّش، گندی نالی کے کیڑے…تم محبّت کےنام پر کلنک کا ٹیکا…‘‘وہ غصّے سےتھرتھر کانپ رہی تھی۔
امان نے اُس کی بات کا جواب دینے کے بجائے پلٹ کر الماری کا پٹ کھولا اور زیورات والا بیگ اُٹھالیا۔ ’’یہ کیوں اُٹھایا تم نے، رکھو اِسے واپس…‘‘ وہ چلّائی۔ ’’وہ کیا ہے کہ اتنا اچھا چانس لگا ہے یہاں جاب کا۔ میرے پاس تو کرایہ تک نہیں تھا…‘‘عیاری اور کمینگی اُس کے انگ انگ سے عیاں تھی۔ وہ چیل کی طرح اُس پرجھپٹی۔ لیکن وہ ایک ہی زوردار دھکّے میں اُسے بیڈ پر پھینک کر بیگ سنبھالتا کمرے سے نکل گیا۔
آج پانچواں دن تھا، آویزہ کوغائب ہوئے۔ آستانہ اُجڑ گیا۔ روزانہ پولیس اہل کار تفتیش کے لیے آ رہے تھے۔ خدیجہ بیگم جائے نماز بچھائے بیٹھی تھیں۔ شاہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ ناعمہ سپاٹ چہرہ، بےتاثر آنکھیں لیے شاہ کو تکتی رہتی۔ اچانک شاہ کےفون کی بیل بجی، تو سناٹا جاگ اُٹھا۔ جھپٹ کر فون اُٹھایا۔ اسکرین سے نامانوس نمبر جھلک رہا تھا۔ بے صبری سے کال ریسیو کی۔ ’’جی،جی… نظامت شاہ بول رہا ہوں۔ جی، جی…آویزہ میری بیٹی ہے۔‘‘ خدیجہ بیگم اور ناعمہ کے وجود لرز اُٹھے۔ نظامت شاہ کا ہاتھ دل پر جا پڑا تھا۔ ’’آ…آویز…ہ…کی لاش دبئی سےآ رہی ہے…‘‘ کہتے کہتے نظامت شاہ کٹے ہوئے شہتیر کی طرح زمین پر آرہا۔
نظامت شاہ اور آویزہ کوزمین اوڑھے سوتے کئی دن گزر گئے تھے۔ امان، گرفتار ہو چُکا تھا۔ اُس کا آویزہ کو دیا جانے والا دھکا جان لیوا ثابت ہوا تھا۔ خدیجہ بیگم نے ناعمہ کو ساتھ لیا۔ اورآستانے کا دروازہ کھول دیا۔ مگر آج وہاں نہ خوشبو کے جھونکے تھے، نہ بھنگ گھونٹنے والوں کی صدائیں۔ دونوں نے مل کے آستانے کا سارا گند اکٹھا کیا اورگھر کے صحن میں رکھ کرمٹی کا تیل چھڑک کے آگ لگا دی۔ خدیجہ بیگم آنکھیں بند کیے زیرِ لب پڑھ رہی تھیں۔’’اللہ باقی من کل فانی۔‘‘