موم سے نازک دل کی مالک، ہر قسم کی آزمائشوں سے بہادری و جرأت مندی سے نبرد آزما ہونے والی اور نور و نکہت سے مزیّن۔ یہ ہے لفظ ’’ماں‘‘ کے تین حروف م، ا اور ں کی مختصر و جامع تشریح۔ مئی کے گرم مہینے اور جسم و رُوح کو سرشار کرتے، نرم و نازک جذبوں سے گندھے ’’یومِ ماں‘‘ میں کیا میل ، کیا جوڑ ہے۔ ماں… نام ہے محبّت، مسکراہٹ، معافی و درگزر اور صبر و برداشت کا۔ ماں… جس کا دل سمندر جتنا وسیع ہے اور اولاد کی خوشی و غمی، راحت و سکون اور آرام و آسائش اس کی زندگی کا محورومرکز ہے۔ ماں… جو اپنی اولاد کے ہر دُکھ پر اُس سے زیادہ تڑپتی ہے اور سُکھ پر اُس سے زیادہ مسرّت محسوس کرتی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے کہ جس کے احسانات کا بدلہ ہم زندگی بھر نہیں اُتار سکتے اور دُنیا بَھر کے خصائل جمع کریں، تو ماں کے خال و خد میں ڈھلیں۔
آج ماؤں کا عالمی دن ہے۔ یعنی میرا اور میری طرح ’’ماں‘‘ کے اعلیٰ منصب پر فائز خواتین کا دن۔ مُجھے فخر ہے کہ میرے قدموں تلے ربّ نے وہ مقام رکھا ہے، جس کو پانے کی تمنّا ہر عورت کے دل میں موجزن ہے۔ اس روز ہم مائوں کی عظمت بیان اور ان کی رفعت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ہم ماں اور اولاد کے حقوق و فرائض کی بابت بات کرتے ہیں اور مائوں کی بے مثال قربانیوں کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس موقعے پر ہم ماں اور اولاد کے رشتے میں توازن اور ممتا کی مزید دِل کش و دل نشین صُورتوں پر بھی گفتگو کر سکتے ہیں؟ جیسا کہ اپنی ماں کے علاوہ اپنے شریکِ حیات کی ماں یعنی ساس کے خصائل بیان کرنا، کیوں کہ یہ رشتہ بھی اللہ تعالیٰ نے حُرمت و فضیلت کا حامل قرار دیا ہے اور اس کی نسبت سے ہمیں مزید رشتے عطا کیے ہیں۔
اسی طرح نانی اور دادی بھی ممتا ہی کے مختلف رُوپ ہیں، جو شیرینی و مٹھاس میں گندھے ہوتے ہیں۔ والدین اپنی ماں یا ساس کے سامنے اپنی اولاد کو کسی غلطی پر ذرا سا ڈانٹ بھی دیں، تو یہ اُس کی حمایت میں سامنے آ جاتی ہیں اور اپنی اولاد کو بے نقط سُنا دیتی ہیں۔ ممتا کا ہر رُوپ ہی قدرت کا اَن مول تحفہ ہے۔ کچھ دیر کے لیے اپنی سوچ کو وسیع کریں اور ماں کو اپنے رفیقِ حیات کی ماں سے نسبت دے ڈالیں، کیوں کہ آج ہم صرف ماں کی قدر و منزلت پر بات کر رہے ہیں۔
ماں ہی وہ ہستی ہے کہ جس کا پیار و خلوص ہر قسم کے شک و شُبے سے بالاتر ہوتا ہے۔ ماں ہی کے دَم سے گھر میں رونق ہوتی ہے اور اگر ماں نہ ہو تو بھرا پُرا گھر بھی ویران لگتا ہے۔ ماں گھر میں ہو، تو اولاد بے دھڑک اندر داخل ہو جاتی ہے اور ماں ہی وہ ہستی ہے کہ جسے دیکھ کر آنکھوں کو قرار اور دل کو سکون ملتا ہے۔
خالص اور سچّی محبّت کا اظہار کرنا مقصود ہو، تو ماں کی ممتا کی مثال دی جاتی ہے، جس کے ہم سب قائل ہیں۔ ایک عورت، ماں کے بعد جب نانی بنتی ہے، تو اس کے جذبات و احساسات کی نوعیت مختلف ہوتی ہےاور جب دادی کے منصب پر فائز ہوتی ہے، تو اس کی فطرت کچھ اور ہوتی ہے۔اسی طرح جب کوئی ماں، ساس بنتی ہے، تو معاشرہ اس کی جانچ پڑتال شروع کر دیتا ہے کہ اس منصب پر متمکّن ہو کر وہ ماں کی تصویر میں بَھرے رنگوں کو مزید جاذبِ نظر بناتی ہے یا انہیں دُھند لاکردیتی ہے۔
یاد رہے کہ کوئی عورت بہ ذاتِ خود ممتا کے کسی بھی رُوپ کو بدنُما نہیں بنانا چاہتی بلکہ ہمارے آس پاس موجود بعض منفی عناصر اُسے نئے رشتوں سے بد گُمان کر دیتے ہیں۔ اور ویسے بھی جو عورت کڑی مشقّت سے اپنے بیٹے یا بیٹی کو پال پوس اور تعلیم و تربیت فراہم کر کے معاشرے کا ایک قابل فرد بنانے کے بعد ہنسی خوشی اَن جان ہاتھوں کے سُپرد کر تی ہے، وہ کیوں رشتوں میں بگاڑ یا دراڑ پیدا کرنا چاہے گی۔ ہر ماں اپنی اولاد کو ہنستا بستا اور ترقّی و خوش حالی کی منازل طے کرتے دیکھنا چاہتی ہے، تو وہ جان بوجھ کر کیوں اس کی ازواجی زندگی کو تلخ بنائے گی۔
سو، ہمیشہ اپنی سوچ مثبت رکھیں کہ چند ایک مستنثیات کے سوا ماں، ماں ہی ہوتی ہے۔ سگی ماں، سوتیلی ماں، رضاعی ماں، منہ بولی ماں اور ساسو ماں وغیرہ تو صرف رشتوں کی پہچان کے لیے ہیں۔ ہر عورت کے دل میں ممتا کا جذبہ پایا جاتا ہے، لیکن گردوپیش کا ماحول، حالات و واقعات اور مسائل و مصائب اسے سوتیلے پن کا پیرہن پہنا دیتے ہیں اور ظالم ساس کا جامہ بھی۔ اس ضمن میں کچھ کوتاہیاں اور غلطیاں بھی ہوتی ہیں، بلکہ ان سب سے بڑھ کر غلط فہمیاں اور اولاد کے تُرش رویّے رشتوں میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں، جن کی اصلاح ضروری ہے۔ ہمیں ان مذکورہ بالا رشتوں کی شناخت بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان کی شناخت صرف الفت اور چاہت ہونی چاہیے، کیوں کہ ماں جیسے عظیم رشتے کے ساتھ ظلم و زیادتی، نا انصافی اور نا اُمیدی جچتی نہیں ہے، بلکہ ماں کی آغوش تو محبّت، تحفّظ اور بقا کی ضمانت ہے۔
رشتوں میں استحکام کے لیے ایک دوسرے کو تحائف دیجیے۔ اپنے رویّوں میں تلخی کی بجائے نرمی، تُرشی کے بدلے مٹھاس اور سختی و کڑواہٹ کی جگہ پیار و توازن پیدا کیجیے۔ رشتوں کو برقرار رکھنے کے لیے درگزر سے کام لیں۔ ماں کا رشتہ اَن مول ہے، جو بہت سوں کو میسّر بھی نہیں ہو پاتا۔ اپنی ماں کی خوبیوں کی خُوش بُو کو اپنے اندر اُتاریں اور خود بھی ایک باوصف، باوقار اور حیادار ماں کا رُوپ اختیار کرنے اور ان حسین رنگوں میں رنگنے اور ڈھلنے کی کوشش کریں کہ نہ جانے کون سا رنگ پائے دار ہو اور نو آموز ماؤں کی تربیت کا سبب بن جائے۔ یاد رہے کہ ماں کی گود، بچّے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔
لہٰذا ہر قدم سوچ سمجھ کر اُٹھانا ہے کہ کہیں کوئی لغزش نہ ہو جائے۔ گرچہ اولاد کی تربیت و پرورش مائوں کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنے کا کام ہے، لیکن ایک ناپختہ اور ناسمجھ لڑکی بھی ماں کے منصب پر فائز ہوتے ہی اپنی ذمّے داریاں محسوس کرنے لگتی ہے اور فہم و فراست سے ماں کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یاد رکھیں، ماں صرف ماں ہوتی ہے۔ اس رشتے کی تخصیص کرکے اسے شرم سار نہ کریں اور اس کے دل میں موجزن ممتا کو مہتاب و گلاب پیش کریں۔