احسان فراموش قوم ’’بنی اسرائیل‘‘ کی مکروہ تاریخ: یہودیوں کی احسان فراموشی کی مکروہ تاریخ کی ابتدا اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائی، حضرت یوسفؑ کے ساتھ جھوٹ، فریب، منافقت اور غیرانسانی سلوک سے شروع ہوتی ہے۔ پھر یہ قوم پوری زندگی ذلّت و رسوائی کا طوق گلے میں لٹکائے اپنے انبیاءؑ کو قتل کرنے جیسے گھنائونے جرائم کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔ اور اب غزہ کے معصوم فلسطینیوں کے وحشیانہ قتلِ عام کے ذریعے پوری دنیا کو انسانی خون میں رنگنے کے مذموم منصوبے پرعمل پیرا ہے، لیکن صد افسوس کہ آج بھی چند نام نہاد مسلمان ایسے ہیں، جو ان غاصب و قاہر صیہونیوں کے توسیع پسندانہ عزائم سے نظریں چُرائے، اُن سے ہم دردی کے گناہ میں شامل ہیں۔
یہاں قرآنِ کریم کی روشنی میں چند حقائق پیشِ خدمت ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اے بنی اسرائیل! میرے وہ احسان یاد کرو، جو مَیں نے تم پر کیے تھے اور مَیں نے تمہیں جہان کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 47)،٭’’تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ دیا، جو تمام عالم میں کسی کو نہیں دیا۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت20)،٭’’ان پر ابر کا سایہ کیا۔ انہوں نے پانی مانگا، تو بارہ چشمے جاری کردیئے۔ من و سلویٰ اُتارتے رہے۔ اور اُن کے کھانے کے لیے نفیس اور پاکیزہ چیزیں عطا کیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت 160)،٭’’فرعون سے نجات دلائی، جس نے تمہیں غلام بناکر رکھا تھا اور تمہارے بیٹوں کو قتل کر ڈالتا تھا۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت 141)،٭’’تمہارے لیے دریا کو پھاڑ کر راستہ بنادیا، تاکہ تم پار کرلو اور فرعون کو تمہاری نظروں کے سامنے غرق کردیا۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 50)۔
بنی اسرائیل کی نافرمانیاں: دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی قوم ہو، جس پر اللہ تعالیٰ نے اس قدر انعامات کی بارش اور احسانات فرمائے ہو اور اُن کے جواب میں بدقسمت اور احسان فراموش قوم نے اس قدر نافرمانیاں کی ہوں۔ ان کی صرف چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔٭بنی اسرائیل کا پہلا جھوٹ ’’ابّاجان! یوسفؑ کو ایک بھیڑیا کھا گیا۔‘‘ (سورئہ یوسف، آیت 17)،٭احسان فراموشی کا ایک اور واقعہ۔ ’’دریا پار کرکے آگے بڑھے، تو دیکھا کہ کچھ لوگ پتّھر کی مُورتیوں کی پُوجا کررہے ہیں، بُتوں کی یہ پرستش اُنھیں اتنی پسند آئی کہ فوراً ہی فرمائش کر بیٹھے، اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایسا ہی ایک معبود بنادو۔
آپؑ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت 138)،٭حضرت موسیٰ ؑ کوہِ طور پرگئے، تو پیچھے بنی اسرائیل نے کیا کیا؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اور موسٰی (علیہ السلام) کی قوم نے اُن کے جانے کے بعد اپنے زیوروں سے بچھڑا بنالیا، جو ایک جسم تھا، جس میں گائے کی آواز تھی، کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ اُن سے بات بھی نہیں کرتا اور نہ ہی اُنھیں راہ بتاتا ہے، اُسے معبود بنا لیا اوروہ ظالم تھے۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت 148)،٭’’جہاد کا حُکم دیا، تو بولے، ’’اے موسیٰ! (علیہ السلام) تم اور تمہارا پروردگار، دونوں جاکر قتال کرو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت 24)،٭چالیس سال تک یہ وادئ تیہ میں من و سلویٰ کھاتے رہے۔
پھر ایک دن بولے ’’اے موسیٰ(علیہ السلام!) ہم سے ایک کھانے پر صبر نہیں ہوسکتا۔ اپنے پروردگار سے کہیں کہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز ہمارے لیے پیدا کردے۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 61)،٭’’اورجب بنی اسرائیل نے سبت کے قانون کو توڑا، تو اُن کے ساتھ کیا ہوا؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے، ’’اور جب تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کرگئے، تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہوجائو۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 65)، ٭’’ہم نے بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر بھیجے۔ تو وہ انبیاء کی ایک جماعت کو تو جُھٹلادیتے اور ایک جماعت کو قتل کرڈالتے۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت 70)۔
بنی اسرائیل وہ واحد قوم ہے، جس نے اپنے بیٹوں کو قتل کیا، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو بھی قتل کرنے کی سازش کرتے رہے۔ قرآنِ کریم میں جگہ جگہ جہاں اُن پر اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات کا تذکرہ ہے، وہاں اُن کی بے شمار نافرمانیوں کا بھی ذکر ہے۔ یہودیوں کے ان ہی افعالِ شنیعہ کی وجہ سے بنی اسرائیل، دنیا کی معزز و مکرّم قوم کے منصبِ اعلیٰ سے گرکر مغضوب ترین قوم بن گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن سے دنیا کی قیادت و رہبری چھین کر انہیں پستی و ذلّت کی گہرائیوں میں دھکیل دیا، یہاں تک کہ کبھی فرعونِ مصر انہیں غلام بناکر رکھتا، تو کبھی قومِ عمالقہ اُن کے ساتھ بدترین سلوک کرتی، کبھی بادشاہ جالوت اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا، تو کبھی بخت نصر، قہرِالٰہی بن کر اُن پر ٹوٹ پڑتا، کبھی رومن مسیحی اُن کا شیرازہ بکھیرتے، تو کبھی ایران کے مجوسی اُن پر حملہ آور ہوجاتے۔
رومیوں کے ہاتھوں اپنے وطن سے نکالے جانے اور دوہزار سال تک دنیا بھر میں مارے مارے پھرنے کے بعد 16ہجری637 عیسوی میں فتحِ فلسطین کے موقعے پر سیّدنا حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں عزّت و احترام کے ساتھ فلسطین میں رہنے اور آزادانہ عبادت کرنے کی اجازت دی۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عیسائیوں کے مقابلے میں مسلمانوں نے ہمیشہ اُن کے ساتھ بہترین رویّہ رکھا، اس کے برعکس اپنی منافقت اورغلیظ ذہنیت کی بِنا پر انہیں جب بھی موقع ملا، انہوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں چُھرا گھونپا کہ اپنے محسنوں پر چُھپ کر وار کرنا، اُن کی خصلت میں شامل ہے۔
’’سام دشمنی،، کی اصطلاح: یہودیوں کے خلاف تعصّب اور نفرت کو ’’سام دشمنی،، کا نام دیا گیا۔ یہ اصطلاح سب سے پہلے1879ء میں ایک جرمن صحافی ’’وِل ہیم مار‘‘ نے تخلیق کی تھی۔ اسے انگریزی میں Anti Semtism کہا جاتا ہے۔ یہودیوں سے دنیا کی دیگر اقوام کی نفرت اور تعصّب کی ابتدا تو دو ہزار سال قبل شروع ہوچکی تھی کہ جب رومیوں کے ہاتھوں فلسطین سے نکالے جانے والے یہودیوں نے دنیا کے دیگر ممالک کی جانب نقل مکانی کی، لیکن اپنی منفی سوچ اور رویّے کی بِنا پروہ اس معاشرے میں ضم نہ ہوسکے۔ اسی طرح جرمن معاشرے میں بھی یہودیوں سے نفرت کے رجحانات پہلی جنگِ عظیم سے بہت پہلے سے موجود تھے۔
جرمنی کے علاوہ یورپ کے دیگر ممالک مثلاً فرانس، آسٹریا، پولینڈ، ویانا، چیکو سلواکیہ اور سوویت یونین میں یہود دشمن نظریہ اور جماعتیں پہلے سے موجود تھیں۔ خود جرمنی میں ساڑھے پانچ لاکھ یہودی رہائش پذیر تھے۔ اُن میں سے 80فی صد کے پاس جرمنی کی شہریت بھی تھی۔ یہ لوگ فوج کے علاوہ دیگر سرکاری اداروں میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ سودی نظام میں مہارت کی بِنا پر جرمنی کی معیشت میں بھی اُن کا بڑا عمل دخل تھا، لیکن ان سب کے باوجود یہ جرمن معاشرے میں ضم نہ ہوپائے تھے۔
یہ اپنی مخصوص آبادیوں میں محدود رہتے اور خود کو دوسروں سے افضل تصوّر کرتے تھے، جب کہ عام جرمن انہیں مغرور، دھوکے باز اور منافق تصوّر کرتے ہوئے اُن سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ ہٹلر کی نازی پارٹی کا قیام بھی یہود دشمنی کا سبب تھا، جو پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی کی شکست کو یہودیوں کی غداری کا باعث سمجھتے ہیں۔
عالمی صیہونی تنظیم کا قیام: ایک عظیم تر آزاد حکومت کا قیام اور اس کے تحت پوری دنیا پر بادشاہت، صیہونیوں کا ہزاروں برس پرانا وہ خواب تھا، جس کی مثبت تعبیر کے انتظار میں یہ لوگ دیگر قوموں کے ساتھ گُھل مِل نہ سکے۔ اُن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہودی اگر اپنا مذہب تبدیل بھی کرلے، تو اس کے دل و دماغ میں ایک یہودی سوچ ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودی راہب اور دیگر سرکردہ افراد اپنی تحریر و تقریر میں تواتر کے ساتھ ارضِ فلسطین میں آزاد اسرائیلی ریاست کے قیام کو موضوعِ بحث بناتے رہے ہیں۔
خاص طور پر 1870ء اور1880ء کی دہائیوں میں اور اس کے بعد اُن کے اس مطالبے نے شدّت اختیار کرلی تھی۔ یہاں تک کہ1896ء میں مشرقی یورپ کے شہر آسٹرو ہنگری کے ایک یہودی صحافی، ادیب اور قانون دان ’’تھیوڈوہرتزل‘‘ ( Theodor Herzl) نے اپنی کتاب ’’یہودی ریاست‘‘ میں کنعان، ارضِ مقدّس اور فلسطین پر مشتمل ایک خودمختار، آزاد یہودی ریاست کا تصوّر پیش کیا۔ تھیوڈوایک باصلاحیت، پُرعزم نوجوان تھا۔ چناں چہ اُس نے اپنے کتابی تخیّل کو عملی شکل دینے کے لیے ’’عالمی صیہونی تنظیم‘‘ کے نام سے ایک جماعت بنائی۔
دراصل یہ تنظیم سام دشمنی کے ردِّعمل اور اخراجی قوم پرست تحریکوں کے جواب میں تشکیل دی گئی تھی۔ جو نہایت کام یابی کے ساتھ وسطی اور مشرقی یورپ میں ایک یہودی قومی احیاء کی تحریک کے طور پراُبھری اور بہت جلد عالمی سطح پر یہودیوں کی واحد نمائندہ تنظیم کا روپ اختیار کرگئی۔ اس تنظیم نے دنیائے عالم میں سام دشمنی کے گھائل یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا، بلکہ اُن کی خود ساختہ مظلومانہ تصویر میں مبالغہ آمیزی کے رنگ بھرکراُن کے لیے ارضِ فلسطین میں آزاد اور خودمختار ریاست کے مطالبے کو حقیقت کا رُوپ دینے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
بابائے صیہونیت کا اپنی قوم پر احسان: جدید صیہونی تحریک کا بانی، ’’بابائے صیہونیت‘‘ اور اسرائیلیوں کے روحانی باپ کے لقب سے یاد کیا جانے والا غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک ’’تھیوڈوہرتزل‘‘1860ء میں ہنگری کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔ اگرچہ اُس نے ویانا یونی ورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی، تاہم بعدازاں علم و ادب کی دنیا سے اپنا ناتا جوڑلیا۔
تھیوڈو کے دنیا میں آنے سے قبل1492ء میں سقوطِ غرناطہ کے المیے کی صورت میں آٹھ سو سالہ قدیم مسلم سلطنت کا خاتمہ ہوا اور مسلمانوں کا بیش بہا تحقیقی و علمی سرمایہ بحری جہازوں کے ذریعے یورپ منتقل کیا گیا، جس نے طویل عرصے سے خوابِ خرگوش کے مزے لینے والی یورپی قوم کی آنکھیں خیرہ کردیں۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ مسلمانوں کی عظیم الشّان تحقیق و تہذیب کے بطن سے یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کا آغازہوا۔ تھیوڈونے بحیثیت ادیب و قانون داں، مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب کا بغور جائزہ لیا اور یہودیوں کو اس بات کا احساس دلایا کہ کام یاب و باعزت زندگی کا راز علم و تحقیق کی دنیا میں حکم رانی پر مضمر ہے۔
چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم تاریخ سے اخذ کیے گئے صیہونیت تحریک کے قائد کے اس نظریے نے سام دشمنی سے پریشان یہودیوں میں ایک انقلابی روح بے دار کی۔ سوچ کے زاویے بدلے اور پھر یوں ہوا کہ1901ء سے2023ء تک171نوبل انعام یہودی شخصیات نے اپنے نام کرلیے، جو کُل انعام یافتگان کا20فی صد ہے۔ اگر جرمنی کے ابتدائی دنوں کی بات کی جائے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ 1905ء سے1931ء تک صرف26برسوں میں11عدد نوبل انعام جرمنی کے یہودیوں نے حاصل کرکے علمی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا ثبوت فراہم کیا۔1905ء سے1918ء تک یہودیوں نے کیمیا میں چار نوبل انعام حاصل کیے۔
1908ء سے1931ء تک یہ طب کی دنیا میں تین نوبل انعامات کے حق دار بنے۔ 1921ء سے 1925ء کے درمیان طبیعات کے تین نوبل انعام اپنے نام کیے۔ 1910ء میں ایک انعام ادب پر حاصل کیا۔ یہ اعدادوشمار صرف جرمنی میں مقیم یہودیوں کے ہیں۔ 2023ء تک دنیا بھر میں یہودیوں کی کُل آبادی ایک کروڑ چوالیس لاکھ تھی، جب کہ نوبل انعام یافتگان کی تعداد171ہے۔
اپریل 2023ء تک مسلمانوں کی کُل آبادی دو ارب پچاس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، جب کہ نوبل انعام یافتگان کی کُل تعداد صرف14ہے۔3جولائی 1904ء کو44سال کی عُمر میں عالمی صیہونی تنظیم کے روحِ رواں تھیوڈوہرتزل کا انتقال ہوگیا، لیکن اس نے یہودیوں کو علم و عمل کی اُس راہ پر گام زن کردیا، جو ارضِ مقدّس پراسرائیل کے نام سے ایک غاصب ریاست کے وجود کا باعث بنی۔
صیہونی تنظیم کی پہلی بڑی کام یابی: 28جولائی 1914ء کو شروع ہونے والی پہلی جنگِ عظیم 11نومبر 1918ء کو اختتام پذیر ہوئی۔ اقوامِ عالم نے اس جنگ کا ذمّے دار جرمنی کو قرار دیا۔ یہ الزام جرمنوں کے لیے بڑے غم و غصّے کا باعث تھا۔ اس وقت جرمن فوج میں ایک لاکھ سے زیادہ یہودی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ چناں چہ جرمن قوم نے اپنی اس شکست کی تمام تر ذمّے داری یہودی فوجیوں اور اندرونی دشمنوں پر ڈال دی۔ اُن کی نظر میں یہودیوں نے جرمنی کی پیٹھ میں چُھرا گھونپا۔
جرمنی میں ایک عام تاثر یہ تھا کہ اُنھیں یہودی فوجیوں کی بزدلی، کاہلی، دھوکا دہی اور دوغلے پن کی بِنا پر اس جنگ میں شکست ہوئی۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد جنوری1919ء میں ’’پیرس امن کانفرنس‘‘ کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں امن سے متعلق پانچ معاہدوں پر دستخط ہوئے، جن میں سے ایک معاہدہ ورسائے بھی تھا، جس کے تحت جنگ کی ذمّے داری جرمنی پر عائد کرتے ہوئے اس پر تضحیک آمیز شرائط نافذ کی گئیں، جن میں بھاری تاوانِ جنگ عائد کرنے کے علاوہ بے جان قسم کی برائے نام فوج رکھنے کی اجازت دی گئی، تاکہ جرمنی دوبارہ کبھی فوجی قوت نہ بن سکے۔
جرمن قوم اس معاہدے کی شدید مخالف تھی۔ دوسرا ’’معاہدئہ سیورے( Treaty of Sevres) ‘‘ تھا۔ جس کے تحت سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ کرکے اس کے علاقوں کو یورپ اور برطانیہ کے حوالے کردیا گیا، جنوب مغربی علاقوں میں سے لبنان اور شام کو فرانس کے حوالے کیا گیا، جب کہ فلسطین، اردن اورعراق کو برطانیہ کے کنٹرول میں دے دیا گیا۔ حجازِ مقدس کے علاوہ باقی تمام جزائرِعرب یورپی تسلّط میں رہے۔ اس معاہدے پر سلطنتِ عثمانیہ نے دستخط کردیئے تھے۔ یوں631سالہ عثمانی عہد کا خاتمہ ہوا اور یہودو نصاریٰ نے عظیم سلطنتِ عثمانیہ کا شیرازہ بکھیردیا۔
فلسطین کی مقدّس سرزمین مسلمانوں سے چھین کر برطانیہ کے حوالے کرنا، عالمی صیہونی تنظیم کی بہت بڑی کام یابی تھی۔ یہ صیہونی تنظیم، برطانیہ، فرانس، امریکا اور یورپی ممالک کے ایوانوں میں یہود نواز اہم افراد سے مسلسل رابطے، موثر پروپیگنڈے اور ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے اقوامِ عالم کی ہم دردیاں حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئی۔ جودراصل ایک آزاد صیہونی ریاست کے قیام کی جانب پہلا قدم تھا۔ برطانوی حکومت نے یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین میں آباد ہونے اور جائیدادیں خریدنے کی عام اجازت دے دی۔ اب عالمی صیہونی تنظیم کی ذمّے داری تھی کہ وہ دنیا بھر میں مقیم یہودیوں کو فلسطین میں نقل مکانی پر مجبور کریں۔
یہ ایک مشکل ٹاسک ضرور تھا، کیوں کہ قدامت پسند یہودی یروشلم سے محبّت کے باوجود اپنے آبائواجداد کی سرزمین چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ چناں چہ تنظیم کو مثبت اقدامات کے ساتھ منفی حربوں کا سہارا بھی لینا پڑا اور عظیم تر مذہبی اور قومی مفاد کے پیشِ نظر یہودیوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی غرض سے خفیہ طور پر ہولوکاسٹ کے قتلِ عام میں شامل ہوگئے اور نہایت خاموشی کے ساتھ یہودی قصبوں اور آبادیوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
جرمن قدامت پرست تو یہودیوں پر حملہ آور ہورہے تھے، لیکن صیہونی تنظیم کے رضاکاروں نے ہولوکاسٹ کی اس تحریک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے عام یہودیوں میں خوف و ہراس کی ایسی لہر پیدا کی کہ بالآخروہ جان بچانے کی خاطر فلسطین نقل مکانی پر تیارہوگئے۔ اس الزام کے ناقابلِ تردید ثبوت تاریخ کے صفحات پر بکھرے پڑے ہیں۔ (جاری ہے)