• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم شہباز شریف بدھ کے روز اسلام آباد میں جس وقت ملک بھر کے لئے تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کر رہے تھے تو ان کے ذہن میں یہ احساس زیاں ضرور موجود ہو گا کہ جس ملک کے آئین نے بچوں کیلئےمعیاری تعلیم کا حصول مفت اور لازم قرار دیا، اسے عشروں تک اس آئینی ضرورت سے انحراف کی ہر شعبے میں کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی سے متعلق قومی کانفرنس کے مقررین میں وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی کے علاوہ یونیسف کے پاکستان میں نمائندے عبداللہ اے فاضل ، برطانوی ہائی کمشنر برائے اسلام آبادجین میریٹ ، عالمی غذائی پروگرام کی کنٹری ڈائریکٹر کوکو یوشیما، عالمی بینک کے نائب صدر ماٹن ریزر اور پاکستانی کوہ پیما نائیلہ کیانی شریک اور وڈیو لنک کے ذریعے شامل تھے۔ ان سب کی گفتگو سے سامنے آنے والے نکات میں نمایاں بات تو یہی ہے کہ جس ملک کا آئین بچوں کی تعلیم کو لازمی و مفت قرار دیتا ہے اس میںتعلیم تا حال نہ لازمی ہے نہ مفت ۔ دس سال عمر کے 70فیصد بچے عبارت کو پڑھنے اور سمجھنے کے قابل نہیں جبکہ پاکستان میں 30سال عمر کی 60فیصد آبادی دوراہے پر کھڑی نظر آتی ہے۔ بتایا گیا کہ غذائیت کی کمی کے باعث چالیس فیصد پاکستانی بچے ناکافی نشوونما کے شکار ہیں۔تعلیمی نظام کی کمزوریوں کی طرف بھی متوجہ کیا گیا اور اس باب میں سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت اجاگر کی گئی۔ اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میںتعلیم کے فروغ پر خطیر رقم مختص کی جاتی ہے جبکہ ماضی میں پسماندہ شمار ہونے والے کئی ممالک اپنے تعلیمی شعبوں پر سرمایہ کاری کر کے اور تعلیمی معیار بڑھا کر معیشت سمیت مختلف شعبوں میں آگے بڑھ گئے۔ وزیر اعظم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ پاکستان میںتعلیم کےشعبے پر سرمایہ کاری سے افسوس ناک حد تک غفلت برتی گئی ۔ جو ابتدائی و ثانوی سرکاری اسکول قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں پرائیویٹ اسکولوں سے بہتر تعلیم دیتے تھے، وہ اساتذہ کی سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر تقرری اور شعبہ تعلیم کو منافع بخش صنعت بنانے کیلئے میدان میں آنے والوں کے مفاد میں بننے والی حکمت عملیوں کے باعث زوال پذیر ہوئے ۔اس وقت پرائیویٹ اسکولوں کی فیس اور دیگر واجبات اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ متوسط طبقہ کے لوگوں کیلئے نرسری کلاسوں کے اخراجات تک برداشت کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ پچھلے برسوں کے دوران تو اسکول جانے والے بچوں کے والدین کیلیے ان کا بوجھ برداشت کرنا اتنا مشکل ہو گیا کہ وہ انہیں چھوٹے موٹے کاموں اور نوکریوں پر لگانے کو ترجیح دینے لگے میاں شہباز شریف نے دو کروڑ 60لاکھ بچوں کو اسکول تک پہنچانے کا وعدہ کر کے بڑا چیلنج قبول کیا ہے۔’’ میں ذاتی طور پر اس پروگرام اور شعبہ تعلیم کی نگرانی کرونگا او رتمام وزرائے اعلیٰ سے ملوں گا۔ مجھے امید ہے کہ صوبے اس باب میں تعاون کریںگے ‘‘ ان کا یہ عزم اس یقین کی دلالت کرتاہے کہ وہ اس کام کو اسی طرح تکمیل تک پہنچائیں گے جس طرح پنجاب میں کیا گیا تھا۔ پاکستان مشکل حالات کے باوجود کئی بڑے عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچا چکا ہے۔ اسی ملک کے سائنسداں نے فزکس کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کیا ،جو لوگ ایٹمی پرگروام کو خواب کہتےتھے انہوں نے اس کی عملی تعبیر دیکھ لی، حال ہی میں چاند کی طرف خلائی مشن بھیج کر اسلام آباد واضح کر چکا ہے کہ عزم اور عمل یکجا ہو کر بڑے نتائج دیتے ہیں۔ معاشی مشکلات میں گھرے پاکستان کا فروغ تعلیم کا مشن مشکل سہی، ناممکن نہیں۔ اخلاص و انہماک سے کام کر کے ہمیں اپنے اداروں کو ڈاکٹر عبدالسلام ، ڈاکٹر عبدالقدیر اور ان جیسے دیگر آفتابوں کی آما جگاہ بنانا ہے۔ ہماری بقا و ترقی کی ضرورت بھی یہی ہے کہ ہم تعلیم کے پھیلائو کے ساتھ اس کا اعلیٰ معیار بھی یقینی بنائیں۔

تازہ ترین