• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو درپیش معاشی مسائل سے نجات کیلئے برآمدات میں اضافہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر قومی سطح پر مکمل اتفاق ہے اور اقتدار میں آنے والی ہر حکومت بھی یہی نعرہ لگاتی ہے کہ برآمدات میں اضافے کو یقینی بنایا جائے گا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1990ء کی دہائی تک پاکستان کی برآمدات سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش سے تین گنا زیادہ تھیں لیکن آج یہ حالات ہیں کہ بنگلہ دیش کی برآمدات پاکستان کے مقابلے میں دوگنی ہو چکی ہیں جبکہ بھارت کی برآمدات کا حجم 450 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے لئے مزید سبق آموز بات یہ ہے کہ ہمارے دونوں ہمسایہ ممالک کی برآمدات کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہے۔ اگرچہ پاکستان کی برآمدات میں اب بھی ٹیکسٹائل سیکٹر کا حصہ 60فیصد سے زیادہ ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سب سے زیادہ مشکلات بھی اسی سیکٹر کو درپیش ہیں۔ اس مسئلے کا مزید گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں بھی سب سے زیادہ مسائل نٹ وئیر کے شعبے کو درپیش ہیں جس میں ترقی کی شرح ٹیکسٹائل کے دیگر سیکٹرز سے زیادہ ہے۔

یہ حالات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں کہنے کی حد تک ہر حکومت برآمدات میں اضافے کیلئے برآمدی صنعتوں کو درپیش مسائل حل کرنے کا نعرہ لگاتی ہے لیکن عملی طور پر ہماری صورتحال یہ ہے کہ اگر برآمدی صنعتوں میں سے کوئی شعبہ ایک قدم آگے بڑھاتا ہے تو درپیش مسائل اسے دو قدم پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ ماضی میں جب بھی ایکسپورٹ انڈسٹری کو حکومت کی طرف سے توجہ اور تعاون حاصل ہوا ہے انڈسٹری نے برآمدات میں اضافےکیلئے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تاہم اگر حکومت ملک میں پہلے سے موجود انڈسٹری کے فروغ پر توجہ نہیں دے گی تو برآمدات میں اضافے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو گا۔ یہ وہ حالات ہیں جس کی وجہ سے ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں سب سے زیادہ شیئر کے حامل نٹ وئیر سیکٹر کیلئے پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے کام جاری رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔

ان کالموں میں پہلے بھی متعدد بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ اگر حکومت برآمدات بڑھانے میں مخلص ہے تو بینکوں کے مارک اپ ریٹ میں کمی کے علاوہ قابل تجدید توانائی کی اسکیموں کیلئے فنڈز مختص کئے جائیں۔ اس سلسلے میں ویلیو ایڈڈ سیکٹر کو ترجیحی بنیادوں پر شمسی توانائی پر منتقل ہونےکیلئے مالی تعاون فراہم کرنا پیداواری لاگت میں کمی کیلئے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے ناصرف مستقل بنیادوں پر انڈسٹری کو درپیش توانائی بحران کا خاتمہ کیا جا سکے گا بلکہ ماحول دوست توانائی کے فروغ سے کاربن کے اخراج میں بھی کمی آئے گی۔ اسی طرح برآمد کنندگان کے طویل عرصے سے واجب الاادا ریفنڈز فوری جاری کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ برآمدات بڑھانے کی راہ میں حائل سرمائے کی قلت کا مسئلہ حل ہو سکے۔ اس سلسلے میں زیرو ریٹنگ رجیم بحال کر کے ایکسپورٹ سیکٹر کیلئے سیلز ٹیکس کے نظام کو مقامی کاروبار سے مکمل طور پر الگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریفنڈ کلیم فائل کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر برآمد کنندگان کو سیلز ٹیکس کی واپسی یقینی بنائی جا سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملبوسات خصوصاً نٹ وئیر کا شعبہ برآمدات میں تسلسل سے اضافہ کرکے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے اور روزگار کی فراہمی میں اپنی حیثیت منوا چکا ہے۔ اسے طویل المدت پالیسی اقدامات کے ذریعے مزید تعاون مہیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ اس کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو نٹ ویئر سیکٹر کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی مالی معاونت کیلئے خصوصی کوٹہ مختص کر کے قرضوں کے اجرا کی سہولت آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چند بڑی صنعتوں کے علاوہ حکومت کی طرف سے کسی سیکٹر کیلئے برآمدات بڑھانے کے حوالے سے قرضوں کی سہولت دستیاب نہیں۔ اس حوالے سے پاکستان ہوزری مینو فیکچرز ایسوسی ایشن پہلے بھی مختلف فورمز پر اپنے تحفظات بیان کر چکی ہے لیکن تاحال کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس حوالے سے حکومت کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ مستحکم بنیادوں پر صنعتی ترقی کیلئے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی سرپرستی انتہائی ضروری ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ حکومت کی طرف سے برآمدی صنعتوں کیلئے مسابقتی انرجی ٹیرف میں اضافے کا ہے۔ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد کیا گیا تو یہ برآمدات کو بڑھانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہو گا۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ حکومت مقامی ٹیکسز اور لیویز اسکیم کے ڈیوٹی ڈرا بیک کو جاری رکھے جیسا کہ نئی پانچ سالہ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی پالیسی میں وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ اقدام اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کا انرجی ٹیرف پہلے ہی خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ اس لئے زیادہ سے زیادہ برآمدی آرڈرز کے حصول اور پیداواری لاگت کو خطے کے دیگر ممالک کے مساوی رکھنے کیلئے برآمدی صنعتوں کیلئے توانائی کے نرخوں کو مسابقتی علاقائی ممالک میں رائج ٹیرف کے برابر یا اس سے نیچے لانا ضروری ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں ہماری برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کی بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت زیادہ ہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں ہمارے گاہکوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے کیونکہ اس وقت انڈسٹری کیلئے برآمدی آرڈر کی وقت پر تیاری بھی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

تازہ ترین