تحریر: نرجس ملک
ماڈل: رابی چوہدری
دوپٹے: ٹین رنگ بائے گولڈی
آرایش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
یہ بھی کیا المیہ ہے کہ اسلامی، مشرقی پہناوے کا جزوِ لازم ’’اوڑھنی‘‘ (جس کے مختلف النّوع رنگ و انداز کے سبب کئی نام مثلاً دوپٹّا، آنچل، ردا، چادر، جلباب، حجاب، چُنّی، برقع، عبایا، اسکارف وغیرہ زبانِ زدِ عام ہیں) رفتہ رفتہ ملبوسات سے منہیٰ (خارج) ہی ہوتی جارہی ہے۔ پہلے پورے وجود کو ڈھانپتی نسبتاً بڑی چادر سمٹ کر چھوٹی ہوئی، سر پر اوڑھے دوپٹّے میں ڈھلی، شانوں پہ لہراتے، کاندھے پر پڑے آنچل کی شکل اختیار کی، گلے میں چُن دار، بَل کھائی رسّی کی طرح لٹکتی، جُھولتی رہی، پھر مفلر، پٹکے، پٹّی کی صُورت محض خانہ پُری ہی کرتی رہی، مگر...... اب تو اُسے یوں دیس نکالا، فارخطی (بے باقی کی رسید، بے تعلقی کی تحریر) دے دی گئی ہے، جیسے دودھ سے مکّھی کو نکال باہر کیا جاتا ہے۔
ایلیٹ/اپرکلاس کے انداز توازل سے جداگانہ ہیں، لیکن مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی پوشاک سے اوڑھنی کا نکل جانا ہرگز کوئی خوش آئند امر نہیں کہ بہرکیف، عزّت وغیرت، شرم و حیا اُمّتِ مسلمہ کا شعار اور عِصمت و عفّت کی حفاظت، حجاب و پردہ مسلمان خواتین کا فخر و امتیاز ہے اور اگر اِس ضمن میں لباس کو شخصیت کا آئینہ دار کہا جاتا ہے، تو سو فی صد درست ہی کہا جاتا ہے۔
بلکہ ہمارے خیال میں تو یہ ’’دِلوں کا حال اللہ جانتا ہے‘‘، ’’حیا آنکھ میں ہونی چاہیے‘‘، ’’کسی کے ظاہر سے اُس کے باطن کا اندازہ نہیں ہوتا‘‘ اور ’’کسی کے حُلیے سے اُس کے کردار کو ہرگز نہیں جانچنا چاہیے‘‘ وغیرہ وغیرہ جیسی باتیں بھی محض دھوکا، فریب ہی ہیں۔ بے شک، اللہ نیتّوں کا حال جانتا ہے، لیکن اللہ ہی نے ستر پوشی فرض کی ہے۔ خواتین کےلیے خصوصیت سے حجاب و پردے کا احکامات ہی نہیں جاری کیے، پہننے اوڑھنے، مستور رہنے کے قواعد و طرائق بھی وضع کردیئے ہیں، تو پھر بھلا کوئی بھی ایسا عمل، جو احکاماتِ الہٰی کے برخلاف ہو، محض درست نیّت، آنکھ کی حیا یا باطن کی اچھائی جیسی باتوں کے سبب درست کہلا سکتا ہے، ہرگز نہیں۔ بلکہ اُلٹا یہ تو ’’عذرِ گناہ، بدتر از گناہ‘‘ کے مترادف ہے۔
بہرکیف، ہماری آج کی بزم چِٹّے سفید پاکیزہ سے ملبوسات کے ساتھ کچھ حسین، رنگا رنگ دوپٹّوں، اسکارفس ہی سے مرصّع ہے۔ ہمارے کئی قارئین (خصوصاً خواتینِ خانہ) پُرزور اصرار کرتے ہیں کہ ہم رمضان المبارک اور ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے علاوہ بھی دوپٹّوں، عبایا، اسکارفس وغیرہ سے اپنی بزم سجایا کریں، تو ہماری آج کی یہ اتنی سُندر و پوتّر سی محفل اُن ہی کے نام ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ حُسن بھی حُسن ہے، ملبوسِ حیا ہے جب تک...... پُرکشش اور نظر آئےحجابات مجھے۔ اور وہ ڈاکٹر عزیزہ انجم کی جو ایک خُوب صُورت سی نظم ہے کہ ؎ ’’سر پر رکھا ہوا پیارا آنچل...... رحمتِ رب کا اشارہ آنچل...... رشکِ مہتاب و ستارہ آنچل...... موجِ ہستی میں کنارا آنچل...... میری پہچان، علامت میری...... میری تہذیب، روایت میری...... میری توقیر، شجاعت میری...... میرا ایمان، عبادت میری...... میرے شانوں سے یہ لپٹا آنچل...... نورونکہت سا مہکتا آنچل...... میرا زیور، میرا گہنا آنچل...... بوئے گُل، بادِ صبا سا آنچل...... میرا آنچل ہے حیا کا پرچم..... رسمِ تسلیم و رضا کی پرچم...... مہر و اُلفت کا، وفا کا پرچم...... صنفِ نازک کی بقا کا پرچم...... اونچا اُڑتا ہے، حیا کا پرچم...... ہے یہ مائوں کی دُعا کا پرچم...... بنتِ مریمؑ کی اَنا کا پرچم...... رب کی تعریف و ثناء کا پرچم۔‘‘ ایک وہ دَور بھی تھا کہ جب کہا گیا کہ ؎ ماں مجھے دیکھ کے ناراض نہ ہوجائے کہیں...... سر پہ آنچل نہیں ہوتا ہے، تو ڈر لگتا ہے۔ اب تو آنچل، سر پر تو کُجا، پہناوے کا حصّہ ہی نہیں رہ گیا۔ ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ والی ایک پوری کھیپ بلکہ نسل تیار ہوچُکی ہے، تو ممکن ہے، ہماری آج کی بزم دیکھ کر بھی کئی لوگ چونک جائیں کہ ’’ہائیں! آج کوئی اسلامی تہوار ہے کیا؟‘‘ چلیں، جسے چونکنا ہے، چونک جائے۔ آپ ملاحظہ فرمائیں، ہمارے یہ حسین و دل کش سے رنگ و انداز۔
میجنٹا اور اِن ڈیگو شیڈز کے کنٹراسٹ میں لہریئے دار ہینڈ پینٹڈ دوپٹا ہے، تو ڈارک جامنی بیس پر مختلف رنگوں کی ہم آمیزی لیے حسین اسکارف کی جدّت و ندرت کے بھی کیا کہنے۔ پھر لائٹ مسٹرڈ رنگ بیس کے ساتھ جامنی اور نیلے کے امتزاج میں پشمینہ کا ہینڈ میڈ اسٹالر ہے، تو بلیو کے شیڈز سے آراستہ سِلک کے ہینڈ پینٹڈ دوپٹے کی دل آویزی کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ سفید پہناووں کے ساتھ اوڑھنیوں کا ایک سےبڑھ کر ایک انداز، ہماری مہمان کی شخصیت ہی کو چارچاند نہیں لگا رہا، ہمارے جریدے کو بھی گویا ہزار چاند لگ گئے ہیں۔
بےاختیار ہی ایک مقبول نظم یاد آگئی ؎ الہٰی! کوئی ہوا کا جھونکا، دِکھا دے چہرہ، اُڑا کے آنچل...... کہ جھانکتا بھی ہے وہ ستم گر، تو کھڑکھڑی میں لگا کے آنچل...... جو تم کو منظور ہے پھر آنا، تمھی کہو، پھر یہ کیسا جانا...... جَتا کے غصّہ، سُنا کے باتیں، چڑھا کے تیوری، چُھڑا کے آنچل......زمانہ فرقت کا جائے یارب، وہ وقت، وہ دن بھی آئے یارب...... ادا کروں مَیں تِرا دوگانہ، کھڑے رہیں وہ بچھا کے آنچل...... تمہیں ہے صاحب لحاظ کس کا، یہ کوسنا چُپکے چُپکے کیسا...... دُعا کروں مَیں رگڑ کے ماتھا، کہو تم آمین، اُٹھا کے آنچل...... تِرا یہ بوٹا سا قد قیامت، پہ چال متوالی آفت آفت...... یہ پیاری صُورت، ستم دوپٹّا، غضب کی رنگت، بلا کے آنچل۔