• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد کشمیر میں بدترین فسادات کے بعد مذاکرات کی کوششیں ہورہی ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذاکرات جلد اور کامیاب ہونگے۔ ان فسادات میں پولیس افسر کی شہادت، متعدد اہلکاروں کے شدید زخمی ہونے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے بعد اب ان فسادات میں ٹھہرائو آگیا ہے لیکن زبردستی کی ہڑتال ان سطور کی تحریر تک جاری ہے۔ جائز مطالبات پیش کرنا ہر ایک کا بنیادی حق ہے لیکن مطالبات کو زبردستی منوانے اور پرامن احتجاج کے بجائے فساد پھیلانے اور زبردستی لوگوں کے کاروبار اور سڑکیں بند کرانے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ پوری دنیا میں کسی کو یہ حق یا اختیار نہیں دیا جاتا کہ اپنے مطالبے کو منوانے کیلئے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔ آزاد کشمیر جیسے پرامن علاقے کے امن پسند، اپنے کام سے کام رکھنے اور پاکستان سے محبت و وفاداری کرنیوالوں کو کس نے فساد پھیلانے پر اکسایا۔ ان پرتشدد واقعات پر مظاہرین کو اکسانے والوں کیساتھ ساتھ آزاد کشمیر کی حکومت کی نااہلی بھی سامنے ہے۔ حکومت نے بروقت فسادات روکنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات کیوں نہیں کئے۔ اب مزید نااہلی دیکھیں کہ ان پُرتشدد واقعات پر مظاہرین کو اکٹھا کرکے اکسانے والوں سے ہی مذاکرات کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اگر حکومت بروقت عوامی نمائندوں سے مذاکرات کرتی اور جائز مطالبات پر مشترکہ طور پر غور کرکے ممکن حد تک حل کرنے پر دونوں فریق راضی ہو جاتے تو بات اس حد تک نہ پہنچتی۔ عوام کے جن مطالبات کو پورا نہیں کیا جاسکتا ان میں درپیش مشکلات سے عوامی نمائندوں کے ذریعے وہاں کے عوام کو آگاہ کرتے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی لیکن ساتھ ہی ساتھ جائز مطالبات کو پورا کرنیکی عملی کوششیں بھی ہوتیں تو حالات کو اس نہج پر پہنچانے والوں کا گھنائونا منصوبہ کبھی کامیاب نہ ہوتا کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد کشمیر کے عوام نہایت امن پسند، محب وطن اور باشعور لوگ ہیں۔ تاہم جو عناصر ان فسادات میں لوگوں کو اکسانے، پولیس افسر کو شہید اور اہلکاروں پرتشدد کرنے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث اور ذمہ دار ہیں ان کیخلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

ملک کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانے، ملکی مفادات کے خلاف سازش کرنے، ریاستی اداروں پر حملے کرنے، شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے اور ملک میں فساد پھیلانے والے نہ تو ملک کے خیرخواہ ہوسکتے ہیں نہ ملک کے وفادار۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایسے لوگوں کو معاف کیا جائے۔ جہاں تک ایسے لوگوں سے مذاکرات کی بات ہے تو آخر کس بنیاد پر اور کس بات کیلئے مذاکرات کئے جائیں اور کیوں مذاکرات کئے جائیں؟ پتہ نہیں موجودہ حکمران کیوں ایسے لوگوں کیساتھ مذاکرات کیلئے اتنے بے چین ہورہے ہیں۔ حکمران جماعت کے بعض رہنمائوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی پر بھی بات ہوسکتی ہے۔ یہ کونسی منطق ہے کہ ریاستی اداروں کی اعلیٰ قیادت پر بیہودہ الزامات لگانے، ریاستی اداروں پر حملے کرنے، شہدا کی توہین کرنے اور انکی یادگاروں کی بے توقیری کرنیوالوں کو عبرت کا نشان بنانے کے بجائے ان سے مذاکرات کئے جائیں اور انکی رہائی پر بات کی جائے۔ جبکہ پی ٹی آئی والوں کا کہنا ہے کہ وہ تو نہ اس حکومت کو آئینی حکومت تسلیم کرتے ہیں نہ ان کو آئینی حکمران مانتے ہیں اسلئے وہ ان کیساتھ مذاکرات کیوں کریں۔ پی ٹی آئی کے زعماء کا مذاکراتی ایجنڈا بھی بہت واضح ہے کہ وہ ان قومی و صوبائی نشستوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ان کے خیال میںان ہی کی جیتی ہوئی ہیں لیکن زبردستی یا دھاندلی کرکے وہ نشستیں حکومت میں شامل جماعتوں کو دی گئی ہیں۔ اسکے علاوہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے اور ان پر قائم کئے گئے تمام مقدمات جو انکے بقول ناجائز ہیں ختم کئے جائیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے جو لوگ جیلوں میں ہیں اور ان کے بقول ان پر جھوٹے اور ناجائز مقدمات ہیں وہ بھی ختم کرکے ان سب کو رہا کیا جائے۔ تو کیا یہ سب کچھ کرنا حکمرانوں کیلئے ممکن ہے؟۔ حکمران جماعت کس ایجنڈے پر پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے وہ بھی تو قوم کو بتائے اور پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات کیلئے انکے مطالبات یا شرائط کو حکومت کس حد تک تسلیم کرسکتی ہے اس سے بھی قوم کو آگاہ کرے اور اگر پی ٹی آئی کے مذکورہ مطالبات ناقابل تسلیم و عمل ہیں تو پھر ملوث افراد کے خلاف مضبوط او رموثر قانونی کارروائی کرکے ملک میں استحکام پیدا کرنے کیلئے عملی اقدامات کرے۔ اخباری بیانات و ٹی وی چینلز پر جواب الجواب کا سلسلہ اب ترک کر دینا چاہئے کہ نہ یہ حکومتوں کو زیب دیتا ہے نہ ہی اس سے ملک میں استحکام پیدا کیا جاسکتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ نے تو واضح طور پر کسی کیساتھ بھی کسی قسم کے مذاکرات کی تمام افواہوں کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جس مدلّل اور موثر انداز میں نہایت بردباری کیساتھ افواج پاکستان کے موقف کو واضح کیا تو بجائے ان حقائق کو تسلیم کرنے کے مخصوص جماعت نے اس پریس بریفنگ کو ہی غیر آئینی اور اختیارات سے متجاوز قرار دیا اور ساتھ ہی ڈی جی آئی ایس پی آر کے نہایت شائستہ لب و لہجے کو متکبرانہ اور پتہ نہیں کیا کچھ کہا حالانکہ یہ لوگ خود متکبرانہ لب و لہجے اور اخلاق سے ہٹ کر گفتگو کیلئے منت تر لے کرتے اور کوششیں کرتے تھک گئے۔ ان لوگوں کا یہ وطیرہ ہے کہ ایک ہاتھ گریبان پر اور ایک ہاتھ پیروں پر رکھتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی غیر ملکی اخبارات کو عسکری قیادت کیخلاف بیانات بھی دیتے ہیں مضامین بھی چھپواتے ہیں اور دوسری طرف مختلف ذرائع سے منت ترلے بھی کرتے ہیں یعنی اب بھی وہ عوام کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں۔ 9مئی کے افسوسناک اور شرمناک واقعات میں ملوث ماسٹر مائنڈ، سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو کسی بھی طرح کوئی بھی معاف نہیں کرسکتا۔ بھلا ریاست پر حملے کرنے اورشہداء کی بے حرمتی کرنیوالوں کو معاف کرکے رہا کرنے کا کوئی سوچ بھی سکتا ہے؟

تازہ ترین