• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1947 ءمیں برطانیہ نےہندوستان کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پاکستان، ہندوستان اور مشرقی پاکستان (جوبعد میں بنگلہ دیش بن گیا)۔ تقریباً 17 ملین لوگ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دونوں سمتوں میں منتقل ہوئے تھے، جو لوگوں کی سب سے بڑی ،ایک ریکارڈہجرت ہے۔ اس سے پہلے یا بعد میں اتنی بڑی ہجرت نہیں ہوئی جو 1947 ءمیں ہوئی تھی۔اس ہجرت کا سب سے زیادہ نقصان اور فائدہ بھی سندھ کو ہوا۔ نقصان یہ ہوا کہ سندھ سے ہجرت کرنے والی ایک بڑی آبادی ہندوستان منتقل ہوگئی جو سندھ کے مڈل کلاس بزنس مین تھے اور جوہندوستان سے سندھ منتقل ہوئے ان میں اکثریت غریب بیروزگاروں کی تھی، فائدہ یہ ہوا کہ سندھیوں کو ایک الگ وطن نصیب ہوگیا کیوں کہ سندھ ہمیشہ ایک الگ وحدت رہا تھا۔ آج بھی سندھ پاکستان ہے اور پاکستان سندھ ہے۔دونوں ایک دوسرے کیلئےلازم وملزوم ہیں۔ جیسا کہ دنیا کے نقشے پر نیا ملک ابھرا، پاکستان نے ایک قومی شناخت تلاش کرنے اور ناقابل یقین حد تک متنوع آبادی کے لیے ایک سیاسی نظام تیار کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ قومی انضمام اور ایک متحد آبادی کی تشکیل کا ہدف توقع سے زیادہ مشکل ثابت ہوا، حصول ِاقتدار کی کھینچا تانی میں وزرائے اعظم قتل یا معزول ہوتے رہے ۔دوسری طرف جمہوری نظام پر شب خون مارا جاتا رہا ۔پاکستان کے سیاسی نظام کی نوعیت کی وجہ سے سیاست دانوں اور حکومتوں کیلئے غربت کے مسائل کو ٹھیک کرنا مشکل ہو گیا ، بہت کم وزرائے اعظم نے اپنی مدت پوری کی۔جبکہ برسوں آمریت قائم رہی۔ جس کے نتیجے میں ایک بکھرا ہوا سیاسی نظام وجود میں آیا جو غربت کو کم کرنے والی قانون سازی کے قابل نہیں ہے۔ فوج کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ جب جب وہ اقتدار میں آئی ملک میں ترقی کا پہیہ تیزی سے گھوما اور کم از کم نوکریاں میرٹ پر ملتی ہوئی نظر آئیں۔ تاہم بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ آج ملک میں عام شہریوں کے لیے سیاسی نمائندگی کی کمی اور طبقاتی نظام پر غلبہ پانے والی اشرافیہ کے نتیجے میں عدم مساوات کی سطح پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 53فیصد لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے کثیر جہتی غربت میں رہتے ہیں ،بچوں میں غذائیت کی کمی 38 فیصد ہے اور عالمی بھوک کے انڈیکس نے پاکستان میں بھوک کو ایک مستقل مسئلہ کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ جس سے حکمرانوں کو ضرور تشویش ہونی چاہئے کیوں کہ جب انسان بھوکا ہوگا تو اپنی بھوک مٹانے کیلئے جرم کریگا۔جرائم کی شرح اور بے روزگاری کے درمیان ایک مثبت تعلق دیکھا گیا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غربت بہت زیادہ تناؤ اور ذہنی بیماری کا باعث بن سکتی ہے، جس کے نتیجے میں لوگ ایسی ذہنیت کو اپناتے ہیں جو غیر قانونی سرگرمیوں کو منافع بخش سمجھتی ہے۔آمدنی میں عدم مساوات اور جرائم کی شرح کے درمیان بھی گہرا تعلق ہے۔ پاکستان میں غربت منظم جرائم کے گروہوں، منشیات کے اسمگلروں اور دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں میں اضافے کا باعث ہے۔ مجرمانہ تنظیمیں اکثر غریب برادریوں کو نشانہ بناتی ہیں، ان کی کمزوری اور مایوسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اراکین کو بھرتی کرتی یا پیسے بٹورتی ہیں۔ انتہا پسند یا پھربلوچ علیحدگی پسندوں جیسی لسانی تنظیمیں ہوں، سب میں ایک چیز مشترک ہے کہ ان کے دہشت گرد کارکنوں میں سے 99فیصد غربت اور بھوک کے ستائے ہوئے لوگ ہیں۔میرے خیال میں غربت بالآخر لوگوں کو مایوس کر دیتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ غربت سے متاثر ہونے والے، خاص طور پر وہ لوگ جن کے خاندان یا چھوٹے بچے ہیں، صرف اپنے خاندانوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح، یہ وہ لوگ ہیں جو ایسا کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ پاکستان میں بی آئی ایس پی یقینی طور پر معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ مگر یہ انکم سپورٹ پروگرام ہے نہ کہ غربت مٹاؤ پروگرام۔ پاکستان کی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو اکثر یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ پاکستان میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے، انھیں اگر جرائم کو روکنا ہے تو اس کا راستہ غربت مٹاؤ پروگرام ہے۔ صوبائی حکومتوں اور وفاق کو چاہیے کہ کم از کم آٹے، گھی اور چینی کے تھیلے ایسے خاندانوں کو ضرور پہنچائیں جو سطح غربت یا اس سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ غربت مٹاؤ پروگرام بھی ایسا ہو جس سے غربت مٹتی نظر آئے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ غربت ختم کیے بغیر جرائم کو ختم نہیں کیا جاسکتا اس لیے ریاست کو فی الفور بھوک مٹاؤ پروگرام کا آغاز کرنا چاہئےتاکہ روٹی کیلئے ایک انسان دوسرے انسان کی موبائل یا پرس چھینتےہوئے جان نہ لے۔

تازہ ترین