• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

برج خلیفہ کا گمان

سنڈے میگزین میں بعض خطوط بہت ہی طویل ہوتے ہیں۔ براہِ مہربانی ایڈیٹنگ کی قینچی سب پر یک ساں چلایا کریں کہ ہمارے خطوط تو ہماری آمدنی کی طرح مختصرکردیئےجاتے ہیں اور بعض خطوط کی لمبائی دیکھ کر بُرج خلیفہ کا گمان ہوتا ہے۔ قابلیت کے پیمانے پر خطوط کو نہ جانچا کریں کہ اگر ہم اتنے ہی قابل ہوتے تو سی ایس ایس پاس کرکےایک پُرتعیش زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔ 

مہینے کے آخر میں خود بخود لاکھوں روپے ہمارے اکائونٹ میں آجاتے۔ دفتر جاتے تو سب ہمارے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے، ٹرانسفرز، پوسٹنگز سب ایک دستخط کی محتاج ہوتیں۔ اور ہاں، ناز جعفری کا خط ہمیں بہت اچھا لگا۔ ہماری بھانجی نے، جوایک گورنمنٹ اسکول میں زیرِتعلیم ہیں، بتایاکہ نازجعفری اُن کی ٹیچر ہیں اوربہت محنت سے اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ (نواب زادہ بےکارملک، سعید آباد، کراچی)

ج: ہا ہا ہا… بلی کو خواب میں چھیچھڑے ہی نظرآتے ہیں۔ اِسی لیے تو کوئی سرکاری نوکری نہیں ملی آپ کو۔ ویسے اگر ہماری ساری بیورو کریسی آپ کے خیالات و ارشادات کے مطابق ہی چل رہی ہوتی، تو پھر تو یہ مُلک کوئی ’’بنانا اسٹیٹ‘‘ ہی ہوتا۔

دل بہت ہی خُوش ہوا

سنڈے میگزین میں ’’ہر سُو ہے نُور و نکہت، ہر سُو ہے چھائی رحمت… سبحان اللہ، ماہِ رمضان کےمقدّس ایّام اوراللہ، رسولﷺ کے ذکر سےمرصّع تحریریں۔ یقین کریں، ماہِ صیام کا ایک ایک ایڈیشن دیکھ کر دِل میں کچھ ایسی خوشی و راحت کا احساس جاگزیں ہوا کہ رُوح تک معطّر ہوگئی۔ اصولاً توساراسال، بلکہ ساری زندگی ایساہی ہوناچاہیے۔ آپ کی ماڈل بلکہ مہمان کو دیکھ کر بھی دِل بہت ہی خُوش ہوا۔ ایک تو خُوش نما، دیدہ زیب ملبوسات اور پھر سر پر دوپٹا، واہ بھئی۔ ماشاءاللہ، چشمِ بددُور۔ 

رؤف ظفر تاجروں کے ہاتھوں غریب عوام کی درگت بنتی دیکھ کر اپنے دُکھ اور بےبسی کا اظہار کر رہے تھے۔ اورواقعی، یہ مفت راشن اسکیم بالکل فضول اورحکومت کے وقت اور پیسے کا زیاں ہی ہے۔ لوگوں کو ہُنرمند بنانے، روزگار دینے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ لوگ خُود کما کر کھانے کے عادی ہوں، نہ کہ ہاتھ پھیلانے کے۔ میرے خیال میں تو یہ نئی حکومت اگر بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام بند کرکے، اِس کی جگہ مختلف ہنر اورفنون مُفت سکھانے کے کچھ اچھے ادارے قائم کردے، تو کہیں اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ 

’’حُکم رانی، کانٹوں کی سیج‘‘ منورمرزاکی انتہائی دانش مندانہ تجاویز، خیالات ہمارے تو سیدھے دِل میں اُترتے ہیں، پتا نہیں، حُکم رانوں کے کانوں پر کیوں کوئی جُوں نہیں رینگتی۔ حالاں کہ اُن کے پاس تو طاقت، اقتدار، اختیار سب کچھ ہے، مگرشاید خلوص اور شعور کی شدید کمی ہے۔ یہ صاحبانِ اقتدار، جو اتنی فضول پریس کانفرنسر، میٹنگزکرتے رہتے ہیں، جن سے کچھ حاصل وصول نہیں، کبھی منور مرزا کے ساتھ بھی ایک میٹنگ کرلیں، مُلک و قوم کاکچھ بھلاہی ہوجائے گا۔ 

محمود میاں نجمی ’’قومِ بنی اسرائیل کا قصّہ‘‘ بیان کررہے ہیں۔ میرےخیال میں تو اس قوم کے آج بھی وہی حالات ہیں، ایسےاعمال کہ شیطان بھی شرمائے۔ عمیرجمیل، قراردادِ پاکستان کی کہانی سُنا کر پرانے زخم ہرے کررہے تھے۔ ویسے آج ایسی ہی باتوں کی اشدضرورت ہے۔ نئی پود کو اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ فرّخ شہزاد، حکومت کی توجّہ گوادر کی طرف مبذول کروا رہے تھے(ارے بھئی، حکومت آج کل بڑی مصروف ہے) ثاقب صغیر نے’’قوتِ برداشت‘‘ کا تذکرہ بڑے احسن انداز سے کیا۔ 

سچ یہی ہے کہ آج کل کےنوجوان بلکہ بچے ذرا ذراسی بات پر گالی گلوچ، مرنے مارنے پر اُتر آتے ہیں۔ اُنہیں تعلیم کے ساتھ والدین کی رہنمائی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ طارق بلوچ صحرائی کافی وقفے کے بعد ’’پرچم‘‘ لے کر آئے۔ اور اب بات، اپنے صفحے کی، جو نہ صرف جریدے سے متعلق آراء کے اظہار کا بہترین پلیٹ فارم ہے بلکہ مُلک بھر کےعوام کے مابین قربت و محبّت بڑھانے کا موثر ذریعہ بھی ہے۔ بس مجھے یہ نواب زادہ بےکارملک کی بےکار باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ ہاں، رونق افروز برقی، شہزادہ بشیر نقش بندی، سیّد زاہد علی، شری مُرلی چند اور شمائلہ نیاز کی عزت افزائی کا بہت شکریہ۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

ج: یہ جریدہ ہم اپنے گھر سے نکال رہے ہوتے ناں، تو یقیناً سارا سال ویسا ہی کرتے، جیسا آپ نے کہا۔ لیکن… اور ہاں، رہی بات عزت افزائی کی، تو وہ بھی ہمارے یہاں دو طرح سے ہوتی ہے، اورجن شخصیات کےآپ نے نام لیے، غالباً سب ہی کی، متعدّد بار دونوں طرح ہوچُکی ہے۔ اب تم پتا نہیں، کس عزت افزائی کی بات کر رہی ہو۔

مثالی شخصیات کا تعارف

اس مرتبہ بھی کوشش کے باوجود آپ سے ملاقات نہ ہوسکی۔ اللہ پاک آپ کو رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے مالا مال اور صحت وتن درستی کےساتھ دین ودنیا کی ساری نعمتوں سے سرفراز فرمائیں۔(آمین) دسمبر 2023ء میں جمعیت دہلی صدیقی برادری کےرہنما شکیل بھائی سے گفتگو پرمبنی تحریر سنڈے میگزین کےلیے بھیجی تھی۔ مَیں دراصل طویل عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہوں۔ چھٹیوں میں جب بھی آتا ہوں، تو اُن کے ساتھ ایک نشست ضرور ہوتی ہے۔ 

انتہائی شفیق انسان ہیں، آج سے چالیس سال پہلے انہوں نے مجھے اُس وقت سہارا دیا، جب میرا کوئی نہیں تھا۔ اگر ہوسکےتواُن سے گفتگو پرمبنی تحریرنوک پلک سنوارکےشائع فرما دیں۔ میری حوصلہ افزائی ہوجائےگی اورپھرمَیں آئندہ بھی ایسی گم نام مثالی شخصیات کا تعارف کرواتا رہوں گا۔ (ڈاکٹر محمّد ارشد شمسی،نارتھ ناظم آباد (عارضی قیام گاہ)، کراچی)

ج:اوّل تو آپ کو ادارے کے کسی بھی فرد سے ملاقات کے لیے اطلاع دیئے اور وقت لیے بغیر آناہی نہیں چاہیے اورخصوصاً کسی خاتون سے ملاقات کے لیے تو ہرگز بھی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اپنے ہی طور پرکیے گئے ایسے انٹرویوز کی اشاعت ہماری پالیسی کے یک سرخلاف ہے، تو ہم آپ کے انٹزویو کو اپنے سلسلے’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے فارمیٹ میں ڈھال کر شائع کرنے کی کوشش کریں گے، مگر اس میں کتنا وقت لگے گا، کہہ نہیں سکتے۔

بہت حیرت ہوئی

تازہ سنڈے میگزین میں منورراجپوت نے ’’ہمارے ادارے‘‘ میں قائدِاعظم اکادمی، کراچی پرعمدہ رپورٹ تیار کی، مگر پڑھ کر بہت ہی دُکھ ہوا کہ ہمارے یہاں تاریخی اداروں کی کیسے تذلیل ہورہی ہے۔ ماڈل مریم خان کی فوٹو گرافی بہت شان دار تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر معین نواز، ماں کے حلوے ’’سمنک‘‘ کے ساتھ موجود دکھائی دیئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ اور’’ناقابلِ فراموش‘‘ موجود نہیں تھے۔ 

’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ شامل تھا، جس میں ساس، میڈم، نانا جان اور ہمارے دستگیر کالونی کے کوثر جمیل کے والد موجود تھے، اچھا لگا پڑھ کراورکونے میں آپ کی چھوٹی سی’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی لسٹ بھی موجود تھی، جس میں ایم شمیم نوید، مصباح طیب اور بابر خان بھی نظرآئے، توحیرت ہوئی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ایسی بھی کیا حیرت کی بات ہے، ذرا آپ بھی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے بجائے کہیں اور طبع آزمائی کر دیکھیں۔

وزیرِ داخلہ کی سیٹ

اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی ورک فورس خیریت سے ہوگی۔ اس بار ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رئوف ظفر’’تاجروں کی تیز چُھریاں‘‘ کے عنوان سے ایک تحریرلائے، جس میں بہترین خیال آرائی کی گئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قومِ بنی اسرائیل کا قصّہ‘‘ قسط وار بیان ہورہا ہے۔ یہ وہ قوم ہے، جس نے اللہ کے احسانات کی قدر نہ کی۔ 

اگلی قسط کا بہت انتظارہے۔ ’’رپورٹ‘‘میں، محمّد عمیر جمیل نے قراردادِ پاکستان کی پسِ پردہ وجوہ بیان کیں، لاجواب مضمون تھا۔ فرّخ شہزاد، گوادر میں برسنے والی شدید بارش کا احوال اور تباہ کاریاں بیان کررہے تھے۔ ’’سنڈے اسپشل‘‘ میں نبیل مرزا نے پاکستان کی ترقی کے لیے آرٹی فیشل انٹیلی جینس کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا، یہ انتہائی معلوماتی اور اہم ترین تحریر تھی۔ ایسی ہی تحریروں کی مُلک و قوم کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔ منور مرزا بھی ’’حالات و واقعات‘‘ پر ہمیشہ کی طرح چھائے ہوئے تھے۔

اُنہوں نے حُکم رانوں کو ہر طرح سے سمجھانے کی کوششیں کر کر کے دیکھ لی ہیں، لیکن مجال ہے، کسی کو کوئی شرم و حیا آئی ہو۔ ثاقب صغیر بھی ایک اہم موضوع ’’قوتِ برداشت‘‘ پر طبع آزمائی کرتے دکھائی دیئے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں دانیال حسن چغتائی نے ماہِ صیام کی مناسبت سے اچھی تحریر پیش کی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طارق بلوچ صحرائی نے ’’یہ پرچم ناگزیر تھا‘‘ کے عنوان سے حقیقت سے قریب تر افسانہ لکھا، جب کہ عشرت جہاں اپنے پرائے کا فرق بیان کررہی تھیں۔ 

’’بہار‘‘ کے عنوان سے ابصار فاطمہ ابصار کی نظم بھی خُوب تھی۔ اور اب ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بات، جس میں ہمارا خط شامل نہیں تھا، اِس لیے اِس ذکر کو یہیں ختم کردیتے ہیں۔ ہاں، خادم ملک کا خط ضرور جگمگا رہا تھا، مگر آج اُن کے خط میں کوئی لطیفہ نہیں تھا، لیکن آپ کے جواب نے اُس کی بھی کمی پوری کردی۔ آپ نے نئی حکومت سے دست بستہ التجا کی کہ خادم ملک کو کوئی کام دے دیا جائے، تو میرا خیال ہے، اُن کو وزیر داخلہ کی سیٹ عنایت ہونی چاہیے۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3 ، کراچی)

ج: جی… دخل درمعقولات کی تو ویسے ہی اُنہیں بیماری ہے۔ تو بس، اب اِسی کی کسر رہ گئی ہے۔

مسکراہٹ، صدقۂ جاریہ

دوماہ یو اے ای میں گزارے، خُوب لُطف اُٹھایا، لیکن وہاں بھی منہگائی سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہی اور یہاں بھی منہگائی کی چُھری اتنی تیز ہوچُکی ہے کہ بلڈ پریشر 190/90 ہو جاتا ہے۔ بہرحال، آپ کی تحریریں بہت غور سے پڑھتا ہوں، خاص طور پر ؎ ’ ’ہر سُو ہے نور و نکہت، ہر سُوہےچھائی رحمت…‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا رائٹ اَپ بصد شوق پڑھا۔

ویسے ہمارے یہاں عمومی طور پر سب کچھ دنیا کےبرعکس ہی ہو رہاہے۔ لوگ چاندپرچلےگئےاورہم ہنوز منہگائی کے تالاب میں غوطے کھا رہے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے، مُسکرانا بھی صدقۂ جاریہ ہے، لیکن ہم 80 برس کی عُمر میں اس کمرتوڑ منہگائی کے بعد بھلا کیسے مُسکرائیں۔ بس، سنڈے میگزین پڑھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ بہرکیف آپ لوگ سچ، بلکہ پورا سچ لکھتےہیں۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبرآبادی، راول پنڈی)

ج : دو ماہ یو اے ای میں گزارے، خُوب لُطف اُٹھایا، اُس کے باوجود مُسکرانا مشکل ہے، تو پھر بھلا وہ بےچارے کیسے مُسکرائیں، جن کی پوری زندگیاں ہی بس دال، دلیےکے چکر میں گھن چکر بنےگزر رہی ہیں۔

                     فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

24 مارچ کا سنڈے میگزین پڑھا۔ پہلے نمبر پر ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ دنیا کی بدترین قوم، بنی اسرائیل کا‘‘ مطالعہ کیا۔ واقعتاً اس قوم کی نافرمانی، کج روی،بدعہدی، کینہ پروری اورمنافقت و سرکشی ہی نے اِسے ذلیل و رسوا کیا۔ اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو بداعمالیاں اور خرابیاں اِس قوم میں اُس وقت پائی جاتی تھیں،آج بھی مِن و عن موجود ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا امریکا میں ٹرمپ کی واپسی کی پیش گوئی کررہے تھے اور اس کی وجہ بڑھتے ہوئے قوم پرستانہ، متعصبانہ خیالات اور تنگ نظر سوچ کو بتایا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر افتخار برنی کا ٹی۔ بی پر مضمون بہت معلوماتی، سیر حاصل رہا۔

یہ حقیقت ہے کہ اگرصرف ماحولیاتی آلودگی ہی پر کنٹرول اور صفائی کا مناسب بندوبست ہوجائے تو یہ مرض 75 فی صد تک ختم ہوسکتاہے۔ ؎ فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو…اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں حافظ ثانی کا غزوۂ بدر پر مضمون انتہائی رُوح پرور و ایمان افروز تھا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عشرت زاہد کی ماہِ صیام کے تناظر میں تحریر،ماہِ مقدّس کی برکات و فضائل کا ہمہ گیر، جامع پیغام معلوم ہوئی۔ 

’’انٹرویو‘‘ میں پروفیسر عائشہ صدیقہ کہہ رہی تھیں کہ آنے والا دَور ڈیجیٹل گرافک ڈیزائننگ کا ہے، ہمارے خیال میں صد فی صد برحق فرمایا، لیکن اس کے ساتھ آبادی کا سیلِ رواں روکنا بھی بڑا ضروری ہے۔ نہیں تو، بے روزگاروں کی فوج ظفر موج پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حکیم صاحب نے دہی کی افادیت بیان فرمائی تو ساتھ ہی مزے مزے کی افطار ڈشز انتہائی خوش کُن ٹھہریں۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر معین الدین عقیل کی 23 مارچ کے حوالے سے تحریر معلوماتی تھی۔ بقول احمد ندیم قاسمی ؎ خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اُترے…وہ فصل گُل، جِسے اندیشہ زوال نہ ہو…خدا کرے، میرے اِک بھی ہم وطن کے لیے…حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو۔ 

ہم نے تو گلشن کے تحفّظ کی قسم کھائی تھی، لیکن لگتا ہے، اب گلشن کے بگاڑ کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ بڑے بڑے جگادری دانش وَر، لکھاری، اینکرز، صحافی، تجزیہ نگار ’’جھوٹ کی دکان‘‘ پر تھوک کے حساب سے جُھوٹ کا چورن بڑی ہی ڈھٹائی سے بیچتے نظر آرہے ہیں اور عوام النّاس جو کرب و اذیت بَھری زندگی گزار رہے ہیں، اُس پرتو بس ساغر صدیقی کا یہی شعرفِٹ بیٹھتا ہے ؎ زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے…جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں۔ 23 مارچ یومِ تجدیدِ عہدِ وفا ہے اور یہ عہد اُس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا، جب تک ہم خُودانحصاری کو اپنا شعار نہیں بنا لیتے، محنت کی عظمت کے سلوگن کو عملی طور پر نہیں اپناتے اور اپنےاسلاف کے نقش قدم پر نہیں چلتے۔ 

بقول اقبالؒ ؎ تھے تو آباء وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو…ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو! اور ’’ڈائجسٹ‘‘ میں شہلا خضر کی ’’تمنائوں کی نگری‘‘ کے جواب میں یہ شعر پڑھا جا سکتا ہے ؎ پتّا پتّا، بُوٹا بُوٹا حال ہمارا جانے ہے…جانے، نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ جریدے کے تمام ترمحترم لکھاریوں اورخطوط نگاروں کوسلام و آداب۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، بہاول نگر)

ج: آج یہ اعزاز آپ کے حصّے محض اشعار کے درست اور برمحل استعمال کی بدولت آیا ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* مَیں سنڈے میگزین کی انتظامیہ، بالخصوص ایڈیٹر صاحبہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ میرا مضمون ’’دنیا کے پانچ بہت چھوٹے ممالک‘‘ شائع کرکے مجھ جیسے نوعُمر، نوآموز لکھاری کی حوصلہ افزائی کی۔ مضمون انتہائی مہارت کے ساتھ ایڈٹ کیا گیا، جو قابلِ تعریف ، لائقِ صد ستائش ہے۔ ایک بار پھرآپ کا بہت بہت شکریہ ۔ (محمّد عمیر جمیل، منگھو پیر، کراچی)

ج: آپ کا مضمون نوک پلک کی درستی کے بعد لائقِ اشاعت تھا، سوشایع کر دیا گیا۔ ویسے قارئین میں آپ جیسے لوگ بھی کم ہی ملتے ہیں، جو محنت کی قدر و ستائش کرنا جانتے ہیں۔

* یہ میگزین دن بہ دن لاغر سے لاغر کیوں ہوتا جا رہا ہےاور یہ اسماء خان دمڑ کہاں غائب ہیں؟اُن کےبِنا تو میگزین بورنگ سا لگتا ہے۔ آپ سے التماس ہے کہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے کا معیار تھوڑا بلند کریں۔ زیادہ ترایویں، سطحی سی تحریریں ہی شایع کی جاتی ہیں۔ مَیں بھی جریدے کے لیے کچھ لکھ کر بھیجنا چاہتی ہوں، اِس کا کیا طریقۂ کار ہے۔ (خالدہ علی، لاہور)

ج: پچھلے کافی عرصے سے تو صفحات کی تعداد16 ہی ہے اور ہماری حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ محدود صفحات میں بھی آپ لوگوں کی توقعات پر پورے اُترتے رہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا صفحہ چوں کہ زیادہ تر نو آموز لکھاریوں کے لیےمختص ہے،توممکن ہے، تحریروں کا معیار بہت بلند نہ ہو، لیکن خیر، کوئی بات نہیں، آپ اپنی تحریربھیجیں،ہمیں اُمیدہے،اُس سے صفحے کو چار نہیں، چار ہزار چاند لگ جائیں گے۔ اور طریقۂ کار بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں، جیسے یہ ای میل بھیجی ہے، ویسے ہی تحریر بھی بھیج دیں۔

* مَیں سنڈے میگزین میں اپنے کچھ آرٹیکل اور افسانے بھیجنا چاہتی ہوں۔ اگر آپ کا کوئی واٹس ایپ نمبرہے، تودے دیں۔ مَیں ایک لکھاری ہوں۔ (بشریٰ اقبال)

ج: جی بےشک، آپ لکھاری ہی ہوں گی، وگرنہ کسی کی ہمارے واٹس ایپ نمبر کو فریم کروا کے رکھنےکی خواہش تو ہو نہیں سکتی۔ لیکن بہرحال، آپ کو اپنی تحریریں اسی آئی ڈی پر بھیجنی ہوں گی۔ کہ فی الوقت اِسی ایک آپشن سے بھی مکمل انصاف نہیں ہو پارہا۔ کیوں کہ اب یہاں افرادی قوّت بہت کم اور مقابلہ بہت سخت ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk