• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رشتہ کیا آیا تھا، حمیدہ بیگم کے لیے تو سوچ و فکر کا دَر کُھل گیا تھا۔ ظفر احمد رشتے میں اُن کا دُور پَرے کا بھتیجا لگتا تھا۔ اُونچا لمبا، خُوب صُورت، چھوٹے سے ذاتی کاروبار پر کھڑا۔ پر ساتھ ایک بھج (عیب)سی بھی چمٹی ہوئی تھی، جیسے گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں۔ بائیں ہاتھ کی چار اُنگلیاں پیدائشی طور پر غائب تھیں۔ بس یہی وہ بات تھی، جس نے حمیدہ بیگم کو اُلجھن میں ڈال دیا تھا۔ اُن کی بیٹیاں، پانچ بھائیوں کی لاڈلی دو بہنیں تھیں۔ صُورت میں اچھی، پر سلیقہ مندی میں تو اُن کا کوئی جواب ہی نہ تھا۔ یوں بھی اِن دِنوں حمیدہ کی نظریں اپنے بھانجے پر تھیں۔ 

قرائن سے لگتا تھا کہ وہ بھی نسیمہ میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ ظفر کی ماں رشتے میں بھاوج تھیں اور اِن دِنوں اُن کے گھر ہی ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھی اور بغیر کِسی لگی لپٹی کےکہا تھا۔ ’’دیکھو حمیدہ! مَیں نسیمہ کا رشتہ لیے بغیر نہیں ٹلوں گی۔ بس، مجھے خالی ہاتھ نہیں لوٹانا۔‘‘ ’’ارے دیکھو ناں بھابھی، بڑے لڑکوں کو آنے دو۔ اُن سےمشورہ تو ضروری ہے۔ سائیں سر پر ہو تو عورت من مانی کر سکتی ہے، پر بیوہ عورت بیٹوں کی محتاج ہوتی ہے۔ 

آپ مجھے تھوڑا ساوقت تو دیں ناں۔‘‘حمیدہ بیگم نے ایک دو بار دبے لفظوں میں ظفر کے ہاتھ کا بھی تذکرہ کردیا، تو بھاوج نے یوں اُچھل کر، جیسے بچّھو نے ڈنک مار دیا ہو، کہا۔’’ارے خدا سے ڈرو بی بی! کوئی دیر لگتی ہےاُوپر والے کو ٹانگنے میں۔ یہ کون سا عیب ہے۔ ماشاءاللہ میرا بیٹا خُوب صُورت، خاندانی ہے، اپنا ذاتی کاروبار ہے، بےشک ابھی چھوٹا ہے، پر آگے بڑھنے کا امکان تو ہے۔‘‘ حمیدہ بیگم نے اُن کے تین دن رہنے، بےشمار منّتیں کرنے پربھی ہامی نہیں بَھری تھی۔ بس بیٹوں کی آڑ لیتی رہیں۔ نتیجتاً چوتھے دن وہ مایوس سی گھر لوٹ گئیں۔

بیٹے کو دیکھتے ہی اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُس کا بایاں ہاتھ چومتے ہوئے نم آنکھوں سے بولیں۔ ’’پُتر! بس تیرا یہ ہاتھ عیب بن گیا ہے۔ بے شک حمیدہ نے کُھل کرنہیں کہا، پر بیٹا، مَیں نے یہ چُونڈا دھوپ میں تو سفید نہیں کیا۔‘‘ اُنھوں نے بہت لمبی سانس بَھری۔ پھر گُم صُم پلنگ پر بیٹھے بیٹے کو دیکھا اور بولیں۔ ’’تُو کیوں دل ہلکا کرتا ہے، تیرے لیے رشتوں کی کیا کمی؟ بس مجھے حمیدہ کی لڑکی یوں بہت پسند تھی کہ وہ سلیقہ مند ہے۔ پر خیر، اچھی لڑکیوں کا کوئی کال نہیں۔ 

تیرے لیے مَیں زمین آسمان ایک کردوں گی اور ایسی لڑکی لائوں گی کہ حمیدہ بیگم ایک بار تو دل میں کہے گی کہ یہی وہ لڑکا ہے، جسے مَیں نے دھتکارا تھا۔‘‘ ظفر احمد بہت حسّاس نوجوان تھا۔ اُس نے نسیمہ کو ایک بار کہیں شادی میں دیکھا تھا۔ بس اچھی تھی۔ اُس کی ماں نے جب اُس سے شادی کے بارے میں پوچھا اور نسیمہ کا نام لیا تو اُس نے سر ہلا دیا تھا، لیکن اُسے اِس بات کا ایک فی صد بھی گُمان نہیں تھا کہ اُس کا ہاتھ، اُس کے لیے طعنہ بن جائے گا اور اِس معمولی سے کج کے آگے اُس کی ہر خوبی ماند پڑجائے گی۔ اُسے یوں لگا، جیسے چلتےچلتے لمبی نوکیلی سولوں نے تلوے زخمی کر دیئے ہوں۔

چبھن اور کسک ہلکان کیے دے رہی تھی۔ امّاں کو بھی ایک ضد سی ہو گئی تھی۔ ساری برادری کے گھر چھان مارے اور پھر نائلہ کو کھوج لائیں، جو چندے آفتاب، چندے ماہتاب تھی۔ سچّی بات ہے کہ اُس نے گھونگھٹ اُٹھایا اور اُسے دیکھ کر اپنے مقدر پر رشک کیا۔ اپنی کٹی انگلیوں والاہاتھ وہ چھُپاتا ہی پِھرا۔ پھر چند روز بعد ایک دن اُس نے نائلہ سےپوچھ ہی لیا۔ ’’تمہیں میرا یہ ہاتھ بدنُما نہیں لگتا۔‘‘ ’’مَیں نے اِس پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔‘‘ عجیب سی شانِ بے نیازی تھی،اُس کےانداز میں۔ پر چند ہی دِنوں میں اُسے احساس ہو گیا کہ وہ شکل و صُورت کےمعاملے میں جتنی امیر ہے، دل و دماغ کے معاملے میں اُتنی ہی غریب ہے۔ بس وہ اچھا کھاتی، اچھا پہنتی اورخُوب سوتی۔

اُن دنوں ابھی وہ اُسے اپنے ساتھ نہیں لایا تھا۔ وہ اس کے گھر والوں کےساتھ ہی رہتی۔ ویک اینڈ پر وہ گھر چلا جاتا۔ نئی نویلی دلہنوں والا تپاک اُس میں نظر نہ آتا۔ وہ کہیں آنگن میں یا اُس کی کسی بہن، بھاوج کے ساتھ باتوں میں مصروف یا کمرے میں سورہی ہوتی۔ اُسے دیکھ کر مُسکراتی ضرور، پرانداز میں والہانہ پن، اُس کے دُور رہنے پر محبت بھری خفگی کا اظہار قطعی مفقود تھا۔ اُس کا جی چاہتا، وہ پوچھے کہ تمہیں معلوم نہیں تھا کہ آج مَیں نےآنا ہے، تمہیں میرا انتظار نہیں تھا۔ تم نے کمرا بھی نہیں سنوارا۔ کیا تم مجھے پُرتپاک انداز میں خوش آمدید نہیں کہنا چاہتی تھیں۔

پر وہ چاہتے ہوئے بھی نہ پوچھ پاتا۔ اور پھرجب وہ اُسے ہنس ہنس کر ہفتے بھر کے قصّے، کہانیاں سُناتی، تب وہ ہر تلخی بھول جاتا۔ محبت سے اُس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کے کہتا۔ ’’بس، مَیں مکان کی تلاش میں ہوں۔ جوں ہی مِل گیا، تم میرے پاس ہو گی۔‘‘ماں نے اُس کے کانوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اُسے زیادہ ڈھیل نہ دے۔ وہ اُن عورتوں میں سے نہیں، جو مردوں کی خون پسینے کی کمائی سینت سینت کر گھر بناتی ہیں، بلکہ یہ عورتوں کی وہ قسم ہے، جو گھر میں رہتے ہوئے بھی اپنےآپ کو سرائے میں بیٹھا سمجھتی ہیں۔

اس کی سرشت میں بس زبان کا چٹخارہ اور آرام طلبی ہے۔ ماں اُس کے پھوہڑ پن سے بھی نالاں تھی۔ لیکن، وہ ان باتوں کا اِتنا نوٹس نہیں لے رہا تھا، کیوں کہ ابھی وہ دال روٹی کے بھائو میں نہیں پڑا تھا اور یوں بھی نیا نویلا عشق تھا۔ جب اُسے رہائش کے قابل گھر مل گیا، وہ نائلہ کو اپنے پاس لے آیا۔ نئے گھر میں آکر اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو نائلہ! اتنےعرصے میں شاید تمہیں میری طبیعت کا کچھ اندازہ ہو گیا ہو۔ مَیں نفاست پسند ہوں۔ روز مرّہ اشیاء کایہاں، وہاں پھیلائو مجھے پسند نہیں۔

زندگی میں کچھ نظم وضبط لائو۔‘‘مگر وہ بھی اپنی عادت سےمجبور تھی۔ وہ تو ناشتا چھوڑ، کھانے بھی بازار کے چاہتی تھی۔ چند دنوں تک وہ اُس کے ناز اُٹھاتا رہا۔ پھر ایک دن کہہ ہی بیٹھا۔’’نائلہ! گھرداری کواچھےطریقےسے چلائو۔ مَیں بازار کے مسالوں والے کھانے کھا کھا کر تنگ آگیا ہوں۔ میرا معدہ ٹھیک نہیں رہتا۔‘‘

دوسال تک جیسے تیسے یہ گاڑی چلتی رہی۔ نائلہ خاصی بے وقوف بیوی ثابت ہوئی تھی۔ حُسن بھی پاس تھا، پر اُس خزانے سے یک سر لاعلم تھی، پھر بچّہ بھی ابھی تک نہیں ہوا تھا۔ اکثر وہ سو رہی ہوتی اور ظفر خُود ہی دودھ گرم کر کے ناشتا بناتا اورکھا کر چلاجاتا اور اگر بعد میں کبھی شکوہ کرتا تو وہ بھی جھٹ جواب دیتی۔ ’’تو تم مجھے اُٹھا دیا کرو ناں۔ اِس میں آخر کیا بُرائی ہے؟‘‘مگر ظفر کو یہ پسند نہیں تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ بیوی کو اتنا ذمّےدار ہونا چاہیےکہ اُس کی آنکھ شوہر کو وقت پر ناشتا دینےکے لیے خُود کُھلے۔

اب یہ کیسا اتفاق تھا کہ وہ ایک دن بازار سے گزر رہا تھا کہ اُس نےحمیدہ بیگم کو دیکھا، جن کےساتھ اُن کی چھوٹی بیٹی تھی۔ ماں، بیٹی کے ہاتھ میں پکڑے لفافے بتارہے تھےکہ دونوں لمبی چوڑی خریداری میں مصروف ہیں۔ ظفر کے دل میں چُبھی پھانس، جو وقت کےہاتھوں مندمل سی ہوچُکی تھی، ایک بار پھر ٹِیس دینے لگی۔ اُس نے کنی کترا کر نکل جانا چاہا، پر حمیدہ بیگم نے اُسے دیکھ لیا تھا۔ وہ لپک کر پاس آئیں۔ اُسے بازو سے تھام لیا اورشوق سےسب کاحال احوال پوچھنےلگیں۔’’تم یہاں کیسے،گھرمیں سب ٹھیک ہیں۔ بھابھی کی صحت ٹھیک رہتی ہے؟ دیکھو ظفر، رشتے ناتےتو اللہ کے اختیار کی بات ہے۔

اُنہیں مجھ سے بہت شکایت ہے۔ انہوں نے مجھ سے مِلنا جُلناچھوڑ دیا ہے۔‘‘ ظفر کا جی چاہا کہ ایسی کَھری کَھری سُنائے کہ حمیدہ بیگم کو احساس ہوکہ انھوں نے اُسے کتنا زخمی کیا ہے، پر کچھ رواداری اور لحاظ تھا، وہ چُپ چاپ کھڑا اُن کی باتیں سُنتا رہا۔ اب وہ اُس سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ کیا کام کرتا ہے؟ کہاں رہتا ہے اور یہ کہ اُس کےکتنےبچّے ہیں؟ اس نے اپنے بارے میں تفصیلاً بتایا۔ کاروبار کا ذکر خُوب بڑھا چڑھا کے کیا۔ 

وہ اُنھیں پچھتاوا دینا چاہتا تھا کہ اُنھوں نے اُسے رد کرکے کتنی بڑی غلطی کی۔ حمیدہ بیگم نے اُسے گھر چلنے کو کہا، مگر اس نے شائستگی سے انکار کیا۔ ’’اِس وقت مجھے کام ہے، مَیں نائلہ کےساتھ پھر کِسی وقت حاضر ہوں گا۔‘‘ اُس نے، اُن سے گھر کا پتا سمجھا اور رخصت ہوا۔ ’’ضرور آنا، مَیں انتظار کروں گی۔‘‘حمیدہ بیگم نے آگےبڑھ کر پھر رُخ موڑتے ہوئے تاکید کی۔

کئی روز بعد، ایک دن شام کے وقت نائلہ کے ساتھ وہ اُن کے گھر گیا۔ اُس نے نائلہ کو بہترین لباس پہننے کو کہا اور خُود بھی بہت اچھی طرح نک سک سے تیارہوا۔ یہ ایک کشادہ سا سیمنٹ کا بنا ہوا کوٹھی نما مکان تھا۔ یہ گھر حمیدہ بیگم نے کوئی دوسال ہوئے خریدا تھا۔ وہ گیٹ سے اندر داخل ہوا توسُرخ چمچماتے گملوں میں کھِلے پھولوں نے اُس کااستقبال کیا۔ برآمدہ یوں لشکارے مار رہا تھا کہ اُس میں اپنا چہرہ دیکھا جاسکتا تھا۔ کال بیل کی آواز پر حمیدہ بیگم باہر آئیں۔ اُسے دیکھا، بہت خوش ہوئیں۔ 

نسیمہ، شمیمہ بھی آگئیں۔ بڑا پُرتپاک خیرمقدم ہوا۔ وہ لوگ، دونوں میاں بیوی کو لے کر بڑے کمرے میں آگئے۔ بیٹھتے کے ساتھ ہی ظفر کو احساس ہوا تھا کہ اُس نے ایسا صاف ستھرا، رکھ رکھائو والا گھرکہیں نہیں دیکھا۔ دیواروں پرمِنی پلانٹ کی بیلیں سجی تھیں۔ کمرے کا رنگ و روغن، صوفوں، پردوں اور میٹس کے رنگ آپس میں خُوب صُورت امتزاج کے حامل تھے۔ اُس کی بیوی کے حُسن سے وہ سب بہت متاثر ہوئے تھے۔ نسیمہ کو اُس نے بغور دیکھا۔ وہ قبول صُورت تھی، مگر اُس کی بیوی کے توپاسنگ بھی نہ تھی۔ 

چائے آئی، چائے پیش کرنے کا سلیقہ، کھانے پینے کی چیزیں، کٹلری، برتن سبھی اعلیٰ تھے۔ وہ جب ہاتھ دھونے کے لیےباہرآنگن میں آیا۔ صحن کے ایک طرف واش بیسن، اُس پررکھا صابن، اسٹینڈ پر ٹِکا تولیا سب چَم چَم کررہے تھے۔ اُس کے دل سے اک ہُوک سی اُٹھی اور سارے جسم میں پھنکارتی، لبوں پر آکر دَم توڑ گئی۔ اُس نے ایسا ہی گھرتو چاہا تھا، ایسی بیوی کی تمنّا کی تھی۔ حُسن کے جلوے نظروں کو خیرہ ضرورکرتے ہیں، پراُن کی مدّت عارضی ہوتی ہے۔

ایک دو ملاقاتوں کے بعد نسیمہ کے بارے میں حمیدہ بیگم نے خُود ہی بات کی تھی کہ وہ اُس کے رشتے کے لیے پریشان ہیں۔ بہن نے تو پروا بھی نہیں کی۔ بیٹے کا بیاہ بہت اُونچی جگہ کرلیا۔ یہ بھی کہا کہ ’’ظفر! کِسی اچھے لڑکے کا خیال رکھنا۔‘‘ یہ سب سُن کر اُس کے تپتے ہوئے اندر میں جیسے برف اُترگئی۔ ’’تب تو ہوا میں تلواریں مارتی تھیں۔ اب چکھو مزہ۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ اب دونوں گھروں میں آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔ ایک دفعہ وہ گائوں بڑے بھائی سے ملنے گیا، تو نائلہ کو چھوڑ گیا۔ 

حمیدہ بیگم کو جاتے ہوئے تاکید کرگیا کہ وہ اُس کا خیال رکھیں۔ جب چار روز بعد آیا، تو گھر میں داخل ہوتے ہی اُسےاحساس ہوا کہ اس کا وہ کاٹھ کباڑ گھرچمک رہاہے۔ اُس نے ایک ایک شے کوغور سے دیکھا اور نائلہ سے پوچھا۔ ’’یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا؟‘‘تووہ ہنستے ہوئے بولی۔ ’’ارے ساری کارستانی نسیمہ اور شمیمہ کی ہے، دو دن رہیں۔ مَیں نے توبہتیرامنع کیا، مگر جب تک گھر ٹھیک نہیں کرلیا، بیٹھی نہیں۔‘‘’’دیکھو نائلہ! تم بھی ایسے ہی گھرکوصاف رکھا کرو۔ مجھے صاف گھر بہت اچھا لگتا ہے۔‘‘’’اچھا اب کوشش کروں گی۔‘‘جواب میں کوفت اور بےزاری کی صاف جھلک تھی۔

نائلہ کےوالد بیمار تھے،وہ اُنھیں دیکھنے جانا چاہتی تھی۔ اُس نے گائوں سے چھوٹے بھائی کو بُلایا اوراُس کے ساتھ اُسے بھیج دیا۔ نائلہ کی عدم موجودگی میں حمیدہ بیگم نے اُسے خُود کہا تھا کہ وہ کِسی قسم کی غیریت نہ برتے اور اُن کے گھر کھانا کھائے۔ آخر رشتے داریاں ایسے ہی دُکھ سُکھ کے لیے تو ہوتی ہیں۔ اُس نے شروع میں تو ذرا تکلف سےکام لیا، مگر حمیدہ بیگم کے پُرخلوص اور چاہت بَھرے اصرار پر آمادہ ہو گیا۔ اُس گھر میں کھانا کھا کر عجیب سی سرشاری کا احساس ہوتا تھا، جیسے آدمی کی رُوح خوشیوں، مسرتوں کے پاتال میں گھومتی پِھرے۔ آٹھ بجے سب کھانا کھاتے تھے۔ دسترخوان بِچھ جاتا۔ گرم برتن، گرم گرم بھاپ، خوشبوئیں اُڑاتا کھانا۔ 

روز وہ جاتے ہوئے موسمی پھلوں کا لفافہ لے جاتا۔ حمیدہ بیگم نے اُس کی اِس حرکت کا بُرا منایا۔ اس نےآہستگی سے کہا۔ ’’اگرآپ ایسا کریں گی، تو مَیں کھانا کھانے نہیں آئوں گا۔‘‘ نسیمہ بہت کم گفتگو میں حصّہ لیتی تھی، پر اُس وقت تیزی سے بولی۔ ’’تو گویا آپ بدلہ اُتارتے ہیں۔‘‘ اُس نے نگاہیں اُٹھائیں۔ اپنے سامنے بیٹھی نسیمہ کو دیکھا اور حسرت زدہ لہجے میں بولا۔ ’’کاش!اُتارسکتا۔‘‘حمیدہ بیگم کے پلّےتو پتا نہیں کچھ پڑا یا نہیں، پر نسیمہ کی آنکھیں اِن نگاہوں کی تاب نہ لاسکیں اور فوراً جُھک گئیں۔

پھرایک دن اپنی ماں کے سامنے جیسے وہ پھٹ پڑا۔ ’’ماں وہ لڑکیاں ہیں کہ گُنوں کی گُتھلیاں۔ اُن کے گھر داخل ہوتے ہی آپ کی ساری کلفتیں، اُلجھنیں، تلخ سوچیں یوں اُڑنچھو ہوجاتی ہیں، جیسے کِسی نے پَل جھپکتے میں جادو کی چھڑی پھیر کر سارے مسائل کی سیاہی کو بلاٹنگ پیپر کی طرح چوس لیا ہو، جیسے کِسی معمّے میں پھنسے ذہن میں ایکا ایکی مسئلے کے حل کا بٹن دب جائےاور پورا کمرا روشن ہوجائے۔ 

ماں نے سَر یوں جُھکایا تھا، جیسے مراقبے میں چلی گئی ہوں۔ نائلہ کے انداز سے وہ بھی ناواقف نہ تھیں۔ کوئی ایک بار تھوڑی، بیسیوں بار تیری میری مثالوں سے اُس کے کانوں اور دماغ کی کھڑکیاں کھولنے کی کوشش کی تھی۔ پر، وہاں وہ مثال تھی۔ ایک کان سے سُنو، دوسرے سے اُڑا دو۔ دیر بعد اُنھوں نے سر اُٹھایا اور کہا۔ ’’دیکھ بچّے! مَیں تو اُس دہلیز پر قدم نہیں دھروں گی اب۔ بےعزت ہوکر نکلی تھی وہاں سے۔ باقی جو تیرے دل میں ہے، کرلے۔ تاکہ تُو یہ نہ کہے کہ ماں نے تیرا بیڑہ غرق کردیا۔ ایک بار ملنے والی زندگی حسرتوں کی بھینٹ نہ چڑھے۔‘‘

اُس نے مقدمہ حمیدہ بیگم کی عدالت میں پیش کیا،تو پہلےتو اُنھوں نے بھونچکی سی ہو کر اُسے دیکھا۔ دوسرے لمحے، اُن کی دُکھ ویاس میں لپٹی لمبی آہ نکلی۔ تیسرے لمحےاُس کاگودمیں دھراہاتھ دیکھتے ہوئےخُود کوپھٹکارنے لگیں۔’’اب تھوک کےچاٹنے والی بات ہی ہے ناں۔ اُس وقت میرا ٹنگارساتویں آسمان پرتھا۔ یہ بھی کوئی نقص تھا بھلا، ہزاروں چھوڑ، لاکھوں میں کھیلنے والا ہیرا سا لڑکا۔ عقل پر پتھر پڑگئے تھے۔‘‘اگلے چند لمحوں میں قطار درقطار رشتے داروں کی جلی کٹی باتیں تھیں۔ ’’سوچنے کی مہلت دو‘‘ جیسے بہانے کے دِنوں میں بھی بیٹی کی بڑھتی عُمر، یونہی کنواری رہ جانے کا غم، ابھی تو بیٹے کنوارے ہیں، آگے کیا بنے گا؟ جیسی بےکراں سوچیں تھیں۔

نسیمہ سے بات کی، تو وہ رضامند تھی۔ وہ بھی زمانے کےسب اُتارچڑھائو دیکھ چُکی تھی۔ اب نائلہ گائوں میں تھی اور نسیمہ شہر میں۔ شادی کے آغاز کے چند ہفتوں کے سِوا اُس کا ویک اینڈ پر گائوں جانا، نائلہ اور ماں کے پاس رہنا معمول تھا۔ نسیمہ سے شادی سے پہلے وہ لکھ پتی تھا، اب کروڑ پتی ہوچُکا تھا۔ پھر اللہ نے اولاد سےبھی نواز دیا۔ مگر اب پھر کچھ عرصے سے ماں اُس کے چہرے پرپژمردگی کی کیفیات بِکھرے دیکھتی تھی۔ ایک دن جب وہ اُن کے پاس آکر بیٹھا، تو ماں کے دل، آنکھوں میں تیرتا سوال ہونٹوں پرآگیا۔ ’’اب تیرے ساتھ کیا مسئلہ ہے، تُو مجھےخوش، مطمئن کیوں نظرنہیں آتا؟‘‘ 

’’ماں…!!‘‘ وہ یاس گُھلے لہجے میں بولا۔ ’’مَیں دو انتہائوں میں پھنس گیا ہوں۔‘‘ نسیمہ، صفائی ستھرائی کے مالیخولیے میں مبتلا ہے۔ باہر کے جوتے الگ، کمروں کے الگ، باتھ روم کے الگ، کچن کے الگ، لان کے الگ، مَیں غلطی کرجاتا ہوں تو ڈانٹ کھاتا ہوں۔ وقت پر اُٹھنا ہے، نہیں اُٹھا، تو اُس کی مسلسل بول مار۔ صفائی ادھوری ہے، اُسے چین نہیں۔ پرنا تو اُس کے کاندھوں پر دھرارہتا ہے۔ ہماری چھوٹی سی بچّی ہے۔ 

پیشاب، پاخانہ کر دے، آدھی رات کو نل کے نیچے دُھلائی شروع ہو جاتی ہے۔ دو بار نمونیے سے مرتےمرتے بچی ہے۔ اب لاکھ سرپٹخو، سمجھائو۔ جواب ملتاہے، میرے دماغ کو چڑھتی ہے بُو۔ مَیں تو زچ ہوگیا ہوں۔ دراصل اُسے ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ Obsessive compulsive disorder ماہرِنفسیات نے یہی بتایا ہے مجھے۔

ماں کو انگریزی ناموں والی اِن بیماریوں کا کیا علم؟ اُن کے لیے تو یہ بات ہی ناقابلِ برداشت تھی کہ اُن کےاتنےکمائو، دریا دل بیٹے کوبیوی کِسی بات پرڈانٹے۔’’تُو بھی تونرا بدھو ہے۔ پہلے خُوب سَر پہ چڑھا لیتا ہے، پھرجب وہ مونڈھوں پرچڑھ کرناچنےلگتی ہیں، تو ہوش آتا ہے۔‘‘ماں کی بات پر اُسےغُصّہ آگیا۔ ’’کوئی ننھی مُنّی دودھ پیتی بچیاں ہیں، جو پڑھانے بیٹھوں اُنہیں۔‘‘ ’’بچے!زندگی تو گزارنی ہے۔ سمجھوتے تو کرنے پڑتےہیں۔‘‘ ’’نہیں ماں۔‘‘

اُس کے لہجے کی سختی پر وہ چونکی تھیں۔ ’’مَیں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ اب مَیں کِسی نارمل، سمجھ داراوراعتدال پسند لڑکی کی تلاش میں ہوں۔‘‘ ماں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑیں۔ بے اعتباری سے اُسے دیکھا۔ چند لمحوں تک دیکھتی رہیں۔ پھر بولیں۔’’تو بچّے! اگروہ بھی تیرے معیار پر پوری نہ اُتری تو…؟‘‘ ’’توکیا ماں۔ میرے پاس چوتھی کا آپشن توپھر بھی رہے گا۔‘‘