پہلا فون، کہہ لیجیے، اطلاعی انداز کا سا تھا۔ ’’فریدہ! ہمارے پلازے میں آگ لگ گئی ہے۔‘‘ بے چینی اور گھبراہٹ جیسے عناصر آواز میں تھے یا نہیں، اُس کی بیوی اندازہ ہی نہ لگا سکی۔ ہاں البتہ عقب سے آنے والی آوازوں میں ہاہاکار کا شور ضرور تھا۔ وقت یہی کوئی بارہ بجنے میں دس منٹ کا تھا۔ مگر، فریدہ کو تو جیسے پتنگے لگ گئے۔ اُس نے فوراً ہی موبائل کے بٹن دبانے شروع کر دیے تھے۔ کوئی بیس منٹ بعد اُس کی دوسری کال آئی۔ ہاں، اب آواز میں تشویش اور پریشانی شامل تھی بلکہ کچھ لڑکھڑاہٹ سی تھی۔ ’’نویں فلور پر ڈائریکٹرز کے ساتھ تیس بندوں کی میٹنگ ہورہی تھی۔
ہال کے دروازے بند تھے اور سڑک کی سمت کُھلنے والی کھڑکیوں پر دبیز پردے تھے۔ مَیں تو کانفرنس ہال سے ملحقہ اپنے کمرے میں ایک فائل لینے گیا، جب مَیں نےنیچے شعلےدیکھے۔ اُلٹے پائوں جاکر بتایا، تو بس بھگدڑ ہی مچ گئی۔ کچھ سیڑھیوں کی طرف بھاگے اور کچھ لفٹ کی طرف۔ دو فلور نیچے شعلے خوف ناک اژدھوں کی طرح زبانیں کھولے اوپر بڑھ رہےہیں۔ واپسی کا تو کہیں راستہ ہی نہیں اور شیشوں سے نیچے سڑک پر لوگوں کے ٹھٹھ کھڑے، یہ آگ کا طوفان دیکھ رہے ہیں۔‘‘اور فون کٹ گیا تھا۔ فریدہ، پاگلوں کی طرح بولائی ہوئی آنگن کی طرف دوڑی۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے؟دونوں بیٹوں کو کیسے فون کیا کہ نمبر بار بار بھول رہا تھا۔
پھر گاڑی میں جابیٹھی۔ ہاتھ کانپ رہے تھے اور گاڑی اسٹارٹ ہوکر بند ہو جاتی تھی۔ موبائل کی بیپ نے ایک بار پھر متوجّہ کیا۔ اضطراری حالت میں فون کان سےلگایا،تو شور اور گھبرائی ہوئی واضح آوازوں کے ساتھ سُنائی دیا۔ ’’فائر بریگیڈ ابھی تک نہیں پہنچی اور فریدہ! مُجھے اُمید نہیں کہ مَیں زندہ بچوں گا، کبھی تم لوگوں کو دوبارہ دیکھوں گا…‘‘ بات مکمل نہ ہوسکی اور فون بند ہوگیا۔ اُس نے چیخ ماری۔ حواس باختہ سی پہلے گاڑی سے نکلی، پھر اُس میں بیٹھی، پھر اُتری، پھر بیٹھی، سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کرے کیا، پھر اُسے گولی کی طرح اُڑاتی جائے وقوعہ پر جا پہنچی۔ وہاں تو ایک خلقت اُمنڈی پڑی تھی۔ شعلے پھنکاریں مارتےاوپر اور اوپر چڑھتے چلے جارہے تھے۔
وہ نویں فلور پر چکر کاٹ رہا تھا۔ کبھی کوریڈور، کبھی اپنے کمرے میں۔ لوگ ماہیٔ بے آب کی طرح اِدھر سے اُدھر سرپٹکتے پِھر رہے تھے۔ ’’آگ کیسے لگی؟‘‘ سوکھے کانپتے ہونٹوں پر سوال تھے۔ ہراساں اور موت کے خوف سے پَھٹی آنکھوں میں جواب بھی تھے کہ ’’شارٹ سرکٹ سے۔‘‘ وہیں چند غصیلی اور جی دار سی آوازیں بھی تھیں۔ ’’ارے! اپنےکرتوتوں پر پردے نہیں ڈالنے اِن حُکم رانوں نے، جہاں ریکارڈ دھرا تھا، وہاں ہیرا پھیریوں کے پلندے بھی تھے۔
اُنہیں الیکشنز سے پہلے خورد برد نہیں کرنا تھا۔ اُس نے سڑک کی طرف شیشوں سے باہر دیکھا۔ سَروں کا جیسے سمندر تھا۔ یہ تو محشر کا سا سماں لگتا ہے۔ آوازوں کا واویلا، بین۔ اوپر نیچے سینہ کوبی کرتے ہاتھ۔ اُس نے پھر نیچے نگاہ کی۔ اگر یہاں سے چھلانگ ماروں… اے کاش! سرکس والوں کی طرح کوئی جال نیچے تنا ہوتا۔ اُس نے چیخ کر کہنا چاہا۔’’ارے ہے کوئی، جو مجھے سُنے۔‘‘ مگر وہاں تو جیسے قیامت تھی، کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا۔ اُس نے ہجوم میں اپنے بیٹوں، بیوی کو دیکھنا چاہا، مگر نہ دیکھ سکا۔
آنکھوں کے سامنے ترمرے سے ناچنے لگے تھے۔ چپ چاپ، سَر پٹ سے ٹکا لیا۔ اور، آج صبح ہی کا منظر ایک جھماکے سے آنکھوں کے سامنے تیرنے لگا کہ بہت دِنوں سے وہ رضائی کے لیے ضد کر رہا تھا۔ ’’ارے اب کون سا زمانہ ہے رضائی والا۔ بیڈ روم گندا لگتا ہے۔’’الفتح‘‘سے اسپین کا موٹا کمبل لے آئوں گی۔‘‘ بیوی کے اس اعتراض پر اُس نے نرمی سے کہا تھا۔ ’’فریدہ! مجھےکمبل میں ٹھنڈ لگتی ہے۔‘‘ اور پھر، اُس کی ضد پر رضائی بنی تھی، جس پر چڑھانے کے لیے کور وہ خُود خرید لایا تھا، بالکل سفید۔
بیوی نےدیکھا، تو ناک بُھوں چڑھائی۔ ’’یہ لانے کی بھلا کیا تُک تھی؟‘‘ وہ جُھنجھلا رہی تھی۔’’ارے کچھ سُنا بھی کرو۔ بس، بولے چلی جاتی ہو۔ بھئی، کور سےرضائی جلدی گندی نہیں ہوتی۔‘‘وہ پھر بھنا کر بولی تھی۔ ’’شُہدوں جیسی حرکتیں چھوڑ دو اب۔ دولت کے انبار تو لگا لیے ہیں تم نے۔ گندی ہو جائے گی، تو اگلے سال نئی بن جائے گی اور اگر کور لانا بھی تھا، تو کوئی رنگ دار لاتے۔‘‘اور… آج صبح ناشتے کی میز پر تو وہ دوٹوک لہجے میں بولی تھی۔ ’’مَیں نے یہ منحوس ماری رضائی کام والی کو دے دینی ہے۔
زہر لگتی ہے مجھے یہ۔ خدا کی قسم سوتے میں لگتا ہے، جیسے کفن پہنے لیٹے ہو۔ مَیں آج ہی مارکیٹ سے اسپین کا مور کمبل لاتی ہوں۔‘‘ یک دم اُسے محسوس ہوا، جیسے سانس سینے میں رُکنے لگا ہے۔ آنکھوں کے سامنے نیلے پیلے دھبّے رقص کرنے لگے تھے۔ پھر اللہ اکبر، کلمے اور درود کی مِلی جُلی آوازیں تھیں۔ جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نظر آجائے۔ اُس نے بھی فی الفور آیات کا ورد شروع کردیا۔ یامیرے خدایا! کسی طرح کوئی کرامت، کوئی اَن ہونی ہو جائے۔ اور ہو بھی تو سکتی ہے، تیرے لیے کیا مشکل ہے۔ آگ کو گل و گلزار بنانے کی مثالیں بھی تو موجود ہیں۔ ’’مگر، کن کے لیے؟‘‘ اندر سےجیسے طنزاً سوال اُٹھا تھا۔
اُس نے نگاہوں کا رُخ اندر کےمناظر کی طرف پھیرا۔ اُسے لگا، بند پنجروں میں جیسے پرندے پھڑپھڑاتے اور لوہے کی تیلیوں سے ٹکرا ٹکرا کر اپنے سَروں کو زخمی کر لیتے ہیں، کچھ ایسی ہی کیفیات یہاں بھی تھیں۔ رونا پیٹنا، بھگدڑ، شور شرابا…’’فائر بریگیڈ ابھی تک نہیں پہنچی۔‘‘، ’’وہ پہنچے گی بھی نہیں۔‘‘ قریشی صاحب کی آواز جیسے کہیں کِسی گہرے کنویں سے آئی تھی۔ ’’یہاں تو سب چور ہیں۔ کوئی بڑا چور، تو کوئی چھوٹا چور۔ ارے کیا پتا، یہ آگ بھی خُود لگائی ہو۔
کِسی ریکارڈ کو تلف کرنا ہو۔ کیا ہیلی کاپٹروں کا یہاں چھت پر آنا مشکل تھا۔ ریسکیو والے کہاں ہیں؟ ارے، غریب کوئی انسان تھوڑی ہیں، یہ تو کیڑے مکوڑے ہیں۔ بس مسل دیئے جائیں گے۔‘‘ اُن کی باتوں سے اُس کا دل گھڑی کے پنڈولم کی طرح ڈولنے لگا تھا۔ اُس نے باہر دیکھا۔ سورج کی روشنی میں تابانی تھی۔ آسمان صاف تھا، جس پر کہیں کہیں اڑتے پرندے اس قیامت سے بےخبر تھے، جو یہاں اِس بلند و بالا عمارت میں انسانوں پر ٹوٹ پڑی تھی۔
اُس نے کمرے میں موجود اُن لوگوں کو دیکھا، جو یہاں بیٹھتے تھے۔ اپنے دن کے نو دس گھنٹے یہاں گزارتے تھے۔ اپنے مستقبل کے منصوبوں پر باتیں کرتے تھے۔ اپنے دُکھ سُکھ کی کتھائیں ایک دوسرے کو سُناتے تھے۔ یہیں ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچی جاتی تھیں۔ چغل خوری، حسد جیسی علّتوں کی بھی فراوانی تھی۔ ہاں، ہم دردی اور محبّتیں بھی تھیں۔
مگر، شاید اب سب کچھ بھسم ہونے جا رہا تھا۔ پھر…اُس نے دیکھا کہ یک دَم ہی کونے میں رکھی اُس کی آفس الماری کے شیشے والا پٹ دھڑ سے کُھل گیا تھا اور اُس میں سے ایک فائل نکل کر فرش پر آگری تھی۔ یہ اُس کی ذاتی فائل تھی، جس میں اِس ترقیاتی ادارے کی، شہرسے پندرہ میل دُور، نئی ہائوسنگ سوسائٹی میں اُس کے دو کنال کے پلاٹ کے کاغذات تھے۔ وہ یہ فائل بس ایک آدھ دن میں گھر لے جانے ولا تھا۔ اِس پلاٹ کے حصول کے لیے اُس نے اپنی جان لڑا دی تھی۔ ہر ذلیل سے ذلیل حربہ استعمال کیا تھا۔
آفس کے ساتھیوں سے بھی پردہ رکھا۔ اور جب سے یہ معاملہ نپٹا تھا، وہ بہت خُوش تھا۔ ہوائوں میں اُڑتا پِھررہا تھا۔ ایک دن کھانے کی میز پر جب اُس کے چاروں بچّے اور بیوی بھی بیٹھے ہوئے تھے، اُس نے اپنی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے ربِ کریم کا شکر ادا کیا تھا اور کہا تھا ’’مَیں تو ایک فقیر تھا، جو پچیس سال قبل میٹرک کی سند اور جیب میں چند سکّوں کے ساتھ اِس بڑے شہر میں آیا تھا۔ ایک جونیئر کلرک کی سیٹ، کرائے کا ایک کمرے کا گھر۔
فریدہ بھاگوان نکلی، مَیں نے پانچ مرلے کا پلاٹ اِس کے نام پر لیا، پھر دوسرا لیا۔ اُسے بیچا اور گھر بنایا۔ ثوبیہ دنیا میں آئی، تو اِسی جگہ، اِسی کالونی میں دو کمرشل پلاٹ لیے۔ بچّے بڑے مقدروں والے نکلے۔ جو بھی دنیا میں آیا، اُسے مَیں نے دو دو تین تین پلاٹوں کا مالک بنا دیا۔ کوئی باپ کے نام، کوئی ماں کے نام لیا۔ چلو شُکر، انتقال میں کوئی پھڈا نہیں پڑا۔ دراصل پیسے میں بڑی طاقت ہے۔ پیسا پھینکو اور اپنے کاموں کو پہیے لگوا لو۔‘‘
اچانک شور سا سُنائی دیا۔ ٹن ٹن ٹن… گھنٹیاں بجیں۔ فائربریگیڈ آگئی ہے، شاید آگ بجھ جائے۔ شاید مَیں بچ جائوں۔ اُس نے آسمان کی طرف نگاہ کی۔ یقیناً کہیں نامۂ سیاہ بھی سامنے تھا۔ خدایا! اگر تُو مجھے مہلت دے دے، تو مَیں تائب ہو جاؤں گا۔ ڈگر ڈگر قدموں کا شور تھا۔ آوازیں بتا رہی تھیں کہ آگ آٹھویں فلور تک پہنچ چُکی ہے۔ فضا میں کہیں کلمے کے ساتھ ساتھ بین کی آوازوں کا شور اتنا زیادہ تھا کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا۔ وہ کمرے سے باہر نکلا۔ آگ کسی آدم خور دیو کی طرح ’’آدم بُو، آدم بُو‘‘ کی شوکریں مارتی اُوپر اور اُوپر چڑھتی چلی آرہی تھی۔
اُسے محسوس ہوا تھا، جیسے چند فائلیں اپنی پوری طاقت سے کہیں ہوائوں میں اڑتی اُس کے منہ پر آگری تھیں۔ ’’تم نے فلاں کی حق تلفی کی۔ چکر چلائے اور پلاٹ اپنے بیٹے کے نام کروایا۔ تم نے فلاں وقت فلاں کا حق مارا، جھوٹ بولے۔ غلط اندراج بھرے۔ آوازیں تھیں کہ صورِ اصرافیل۔ کانوں کے پردے پھٹنے لگے تھے۔ ’’کیا کہیں معافی کی کوئی گنجائش ہے؟‘‘اُس نے اپنے دل کو ٹٹولا۔ درِ توبہ تو بند ہوگیا ہے۔ جہنم کی آگ تمہاری پیشوائی کے لیے بڑھ رہی ہے۔ ’’میرے خدایا! اضطراری کیفیت میں، دونوں ہاتھ کانوں پر آگئے۔
بند آنکھوں نے ایک اور خوف ناک منظر دکھانا شروع کردیا تھا۔ اُس کی موت کا منظر۔ گوشت کی دیگیں اور بوٹیاں توڑتے اُس کے حاسد، بدخواہ رشتے دار، جو اُس میڑک پاس سنیئر کلرک کے لیے باتیں بنانے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ اُس کا لالچی داماد، جو ہمہ وقت اِسی چکر میں رہتا تھا کہ کیا چیز سمیٹ کر اپنے گھر لے جا سکتا ہے، اُس کے سوئم پر پھڈا ڈالے بیٹھا تھا کہ مارکیٹ کی فلاں دکان اُسے ملنی چاہیے۔
بڑی بہو، جو اس کے داماد ہی کی خصلت و قماش کی تھی، اُس نے بھی آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے کہ ’’فلاں دکان ہماری ہے۔ فلاں پلاٹ ہمیں ملے گا۔ فلاں گھر مجھے ملنا چاہیے۔ یہ میرا، وہ تیرا ہے۔‘‘ اندر باہر شور مچا پڑا تھا۔ وہ چکرا کر زمین پر آگرا۔ کب آگ کے شعلے آئے۔ کب پانی کا منہ زور ریلا آیا۔ کون اُس کے دائیں ہاتھ تھا، کون بائیں ہاتھ، کچھ خبر نہ تھی۔
بس، کہیں گہری رات ڈھلے اُس کی بیوی، بیٹے امدادی پارٹیوں کے ساتھ اوپر پہنچے اور انہوں نے آدھی جلی، آدھی پانی سے تراُس کی لاش اٹھائی۔
’’بےشک، انسان بہت خسارے میں ہے۔‘‘