سفرنامہ نگار، سابق صدر، ’’انجمن آرائیاں، سندھ‘‘، سابق معاونِ خصوصی، وزیراعلیٰ سندھ اور سابق پراجیکٹ منیجر، انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بینک آف پاکستان ہیں۔ سالِ رفتہ انھوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ امریکا کے چند شہروں کا ایک نجی دورہ کیا۔ یہ دورہ کُل ڈھائی ماہ پر مشتمل تھا، اس عرصے میں وہ واشنگٹن میں رہائش پذیر اپنی صاحب زادی کے یہاں مقیم رہے۔ سیر و تفریح کے شوقین قارئین کے لیے دورے کا مختصر احوال کچھ اقساط کی صُورت پیشِ خدمت ہے۔ آج ملاحظہ فرمائیں، اس سفر نامے کی پہلی قسط۔
(ایڈیٹر، سنڈے میگزین)
امریکا کو بحری مہم جُو، کرسٹوفر کولمبس نے 15ویں صدی میں دریافت کیااور ہم نےاکیسویں صدی کی تیسری دہائی یعنی مئی 2023ءمیں اس سرزمین پر قدم رکھا۔ دراصل ہماری بیٹی اور داماد، واشنگٹن میں مقیم ہیں۔ وہ کافی عرصے سے ہمیں اپنے پاس بلانے اور امریکا کی سیر و سیّاحت کی دعوت دے رہے تھے۔ بیٹی کا اصراربڑھا، تو ہم نے بالآخر گزشتہ برس ایک خیرسگالی دورے کا پروگرام بناکر بیٹی کو مطلع کردیا۔ اطلاع ملتے ہی بیٹی نے جنوری 2023ء کے اوائل میں ہمارے کوائف منگواکر امریکی سفارت خانے میں درخواست جمع کروادی اور پھر گاہے بگاہے، انٹرویو کی تاریخ کے سلسلے میں وہاں سے معلومات حاصل کرتی رہی۔
ویزے کے حصول کے لیے ہم اپنی اہلیہ کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد پہنچے، تو خوش قسمتی سے ہماری رہائش ڈپلومیٹک انکلیو کے اندر اورامریکی سفارت خانے کے قریب تھی۔ سفارت خانے کی عمارت کئی بلاکس اور کئی منزلہ عمارتوں پر محیط ہے۔ شنید ہے کہ امریکا کا یہ سفارت خانہ، عمارت کے لحاظ سے دنیا میں سب سے بڑا سفارت خانہ ہے۔20مئی 2023ء کو ہمارے میزبان نے اپنی گاڑی میں صبح پونے دس بجے ایمبیسی کے سامنے اتاردیا۔ اندر گئے، تو ایک لمبی قطار لگی تھی۔
سو، ہم بھی انتہائی ذمّے دار شہری کا ثبوت دیتے ہوئے قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔ انتظامیہ کی طرف سے وہاں عُمر رسیدہ، بیمارافراد اور10 سال سے کم عمر کے بچّوں کے لیے ونڈو تک رسائی کے لیے خصوصی انتظام موجود تھا۔ ہماری باری آئی تو کھڑکی سے پاسپورٹ وغیرہ چیک کرواکر اندر داخل ہوگئے۔ بڑے سے کمرے میں ترتیب سے تین کھڑکیاں موجود تھیں، جہاں ہمیں ولایتیوں سے دوبدو مقابلہ کرنا تھا۔ پہلی کھڑکی پر فریش فوٹو اور کاغذات چیک کیے گئے، دوسری پر واجبی سے سوال و جواب ہوئے، جب کہ تیسری کھڑکی پر بہت زیادہ اور جذباتی نوعیت کے سوالات پوچھے گئے، مگر ہم نے بڑے تحمّل اور وقار کے ساتھ ہر سوال کا مناسب جواب دیا۔
اس موقعے پر ہمیں خاص طور پر یہ ثابت کرنا پڑا کہ ہم اپنے ملک کے محبِّ وطن شہری ہیں اور مجبوراً امریکا بھجوایا جارہا ہے، حالاں کہ ہماری اولاد، پوتے پوتیاں، جائیداد، کاروبار، خاص طور پر ہماری سماجی و سیاسی مصروفیت ہمیں بالکل اجازت نہیں دیتیں کہ ہم امریکا کا سفر کریں، مگر کیا کریں، ہماری جانِ من بیٹی بے چینی سے ہماری راہ تک رہی تھی۔ اللہ اللہ کر کے کھڑکی کے پیچھے سے سوال جواب کرنے والی ولایتن (انگریز خاتون) مطمئن ہوگئی اورویزا مرحمت کرنے کی خوش خبری سُناتے ہوئے مُسکرا کرکہا کہ ’’آپ کے پاسپورٹ دس دن کے بعد کراچی کے پتے پر بھیج دیئے جائیں گے۔‘‘
ہم نے پہلے ہی سے طے کر رکھا تھا کہ ویزے کے حصول کے بعد خُوب صُورت وادئ کشمیر بھی گھومنے جائیں گے، لہٰذا ویزے کا معرکہ سر ہوتے ہی سفارت خانے سے سیدھے اپنے مسکن پہنچے، میزبان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی پہلے سے طے شدہ منزل وادئ کشمیر کی طرف رختِ سفر باندھ لیا۔ دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے چار بجے شام کشمیر کی دل کش وادی، کلیاں سے ہوتے ہوئے اپنے دوست، الطاف حسین عباسی کے گائوں واقع ’’باڑی‘‘ جاپہنچے۔ الطاف بھائی اپنے نوتعمیر شدہ مکان کے باہر ہمارے منتظر تھے۔
مسلسل سفر کی وجہ سے کافی تھکن محسوس ہورہی تھی، لہٰذا رات کا کھانا کھاکر جلد ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گئے۔ صبح بیدار ہوئے تو ناشتے کے بعد الطاف بھائی نے بتایا کہ محلّے میں ایک شادی کی تقریب ہے، جس میں آپ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوں گے۔ دوپہر بارہ بجے کے بعد تقریب میں گئے، تو مقامی رسم و رواج پر مبنی اس سادہ سی تقریب میں بہت لُطف آیا۔
اس علاقے میں بارات نزدیک کے دیہات سے پیدل جاتی ہے اور دُلہن کو بھی پیدل ہی گھر لاتے ہیں۔ جب کہ بارات گھر پہنچنے کے بعد بھی مقامی رسم و رواج کے مطابق مرد اور عورتیں ساری رات علیٰحدہ علیٰحدہ بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ اس موقعے پر گائوں کے رشتے داروں، مہمانوں کو تین چار دن کھانا شادی والے گھر ہی سے فراہم کیا جاتا ہے۔
بعدازاں، الطاف بھائی کے گھرمختلف سیاسی و سماجی رہنمائوں سے ملاقات ہوئی، خاص طور پر پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے منظور ممتاز عباسی سے تفصیلی گفتگو رہی۔ موصوف بڑے جہاں دیدہ اور متحرک رہنما ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دَور میں بجلی کی سہولت فراہم کرنے پرعلاقے کے لوگ اُن کے بڑے معترف ہیں۔ باڑی میں پی ٹی آئی کے زوال کے بعد آج کل مسلم لیگ (نون) کا بول بالا ہے، جب کہ سماجی کاموں کے حوالے سے جماعت اسلامی یہاں کی متحرک اور پاپولر جماعت ہے، مگر اس کا ووٹ بینک بہت کم ہے۔
الطاف حسین عباسی کا تعلق بھی جماعت اسلامی سے ہے۔ ’’باڑی‘‘ کے لوگ بڑے مہمان نواز اور جان نچھاور کرنے والے ہیں۔ مہمانوں کی ہفتوں خدمت و مدارت کرتے ہیں، تین دن بعد جب ہم وہاں سے رخصت ہونے لگے، تو الطاف بھائی کا پورا گھر اور عزیز و اقارب ہمیں گاڑی تک چھوڑنے آئے۔ محمد اسلم اعوان راستے میں ساتھ ہولیے اور کلیاں تک ساتھ رہے۔ بلاشبہ، محبّت و الفت کے وہ تین دن ہماری زندگی کے بہترین دنوں میں شمار ہوں گے اور ہمیشہ یاد رہیں گے۔
امریکا کا ویزا مل گیا
کشمیر سے واپس کراچی پہنچے، تو ٹھیک دس دن بعد ہمیں ویزا لگے پاسپورٹس مل گئے، جس کے بعد ہم نے اہلیہ کے ساتھ بیٹی کے پاس امریکا جانے کی تیاری شروع کردی۔آغازِ سفر کے لیے 15ستمبر 2023ء کو علی الصباح کراچی ائرپورٹ پہنچ کر ترکش ائر لائن کے بُوتھ پر سامان کی بکنگ اور بورڈنگ کارڈ کے حصول کے لیے لائن میں لگے اور پھر ایک گھنٹے میں بورڈنگ کارڈ کے حصول کے بعد، امیگریشن حکّام کو سلام پیش کرتے ہوئے لائونج میں جاکر بیٹھ گئے۔
تھوڑی ہی دیر میں جہاز پرتشریف لے جانے کا اعلان ہوا، تو ہم خراماں خراماں چلتے ہوئے بورڈنگ کارڈ چیک کروا کر جہاز کے اندر داخل ہوگئے۔ بیگم کو کھڑکی والی سیٹ پسند ہے، اس لیے وہ ونڈو کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئیں، جب کہ ہم ایک اچھے، فرماں بردار شوہر کی طرح اُن کے برابر کی سیٹ پر دراز ہو گئے۔ ترکش ائرلائنز کا یہ طیارہ اپنے مقررہ وقت یعنی چھے بجے محوِ پرواز ہوا اورساڑھے گیارہ بجےترکیہ کے بین الاقوامی ائرپورٹ، استنبول پر بخیریت اُترگیا۔ یہ سیاٹلSeatle) ( امریکا کے لیے کنیکٹنگ پرواز تھی، اس لیے سامان کا کوئی جھنجھٹ نہیں تھا، صرف جہاز تبدیل ہونا تھا۔
استنبول ائرپورٹ انتہائی وسیع و عریض اور ترکیہ کی دل کش و خُوب صُورت تعمیراتی وجاہت کا ایک اَن مول شاہ کار ہے۔ ہزاروں مربع میٹر پر محیط عمارت کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمیں اپنا ٹرمینل ڈھونڈنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگا۔ استنبول ائرپورٹ سےسیاٹل، امریکا کے لیے ترکش ائرلائن کی اگلی پرواز 12 گھنٹے 15منٹ پر محیط تھی،جس نے ہمیں بُری طرح تھکادیا۔ امریکی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے سیاٹل انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اُترگئے۔ متعلقہ بیلٹ سے اپنا سامان سمیٹ کر امیگریشن کی قطار میں لگے، تو امیگریشن حکام کے ہتھے چڑھ گئے۔
اگرچہ کائونٹر پر موجود افسر خندہ پیشانی سے پیش آیا، تاہم خُوب سوال و جواب ہوئے، امریکا آنے کے اغراض و مقاصددریافت کیے گئے۔ یہاں بھی ہمارے سامان (Bags) کو ایک مرتبہ پھر چیکنگ بیلٹ پراسکریننگ کے مرحلے سے گزارا گیا، ہمیں گوروں (امریکنز) کی پوچھ گچھ کا غم نہ ہوا، مگر خوشی اس بات کی ہوئی کہ ہمارے بیگز کھولے نہیں گئے، جب کہ کئی گورے، اپنے بیگز کھول کر امیگریشن حکام کی تسلّی کرواتے نظر آئے۔
خیر، اپنے بیگز لے کر ائرپورٹ ٹرمینل سے باہر نکلے، تو سامنے ہی ہماری بیٹی استقبال کے لیے موجود تھی، جسے دیکھتے ہی ساری تھکن رفوچکّر ہوگئی۔ جلدی جلدی سارا سامان پارکنگ ایریا میں کھڑی گاڑی میں رکھا اور رجفیلڈ، واشنگٹن اسٹیٹ، امریکا کے لیے روانہ ہوگئے۔ جہاں ہماری بیٹی اور داماد مقیم ہیں۔ ہائی وے کے دونوں طرف ہریالی اپنے عروج پر تھی۔ یقین کریں، صنوبر، چیڑ اور دیودار کے سیدھے اور کئی کئی میٹر اونچے درختوں کے بیچ ہائی وے کی خُوب صُورتی دل موہ لینے والی ہے۔
شام چھے بجے رجفیلڈ پہنچے، تو گھر پر ہمارے داماد، عمّار نے پُرتپاک خیر مقدم کیا۔ حال احوال دریافت کرنے، رسمی، غیر رسمی بات چیت کے دوران وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ نہا دھو کر فریش ہونے کے بعد رات کا کھانا تناول کیا۔ دوسرے روز داماد نے دریائے کولمبیا کے قریب واقع خوب صورت سیّاحتی مقام ’’وینکوور واٹر فرنٹ‘‘ کی سیر کا پروگرام پہلے ہی سے ترتیب دے رکھا تھا، لہٰذا ناشتے کے فوراً بعد وینکوور کے لیے روانہ ہوگئے۔ اس دل کش مقام پر سیّاحوں کا ہروقت رش رہتا ہے۔
ہفتہ وار چھٹّی نہ ہونے کے باوجود گاڑی کی پارکنگ کے لیے جگہ ملنے میں کافی دشواری ہوئی، لیکن تھوڑی تگ و دو کے بعد مل ہی گئی۔ دریائے کولمبیاکے کنارے واقع وینکوور واٹر فرنٹ کے اِرد گرد عالی شان ہوٹلز، ریسٹورنٹس، شاپنگ مالز اور بڑے بڑے پلازے یہاں کی پہچان ہیں۔ دریا کنارے ریسٹورنٹس گاہکوں سے کھچا کھچ بھرے رہتے ہیں، جب کہ ہوٹلز اور شاپنگ مالز میں بھی ہمہ وقت لوگوں کا ازدحام رہتا ہے۔
واٹر فرنٹ کے مقام پر ساحل کے کنارے سیّاحوں کے بیٹھنے کے لیے لکڑی کے بینچ اور چلنے پِھرنے کے لیے واکنگ ٹریکس کے علاوہ دریا پر دائیں بائیں گاڑیوں اور ٹرینوں کے لیے تعمیر کیے گئے پُل انتہائی خُوب صُورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔ انھیں دیکھ کر ہمیں اپنے شہر حیدر آباد، کوٹری کا ریلوے برج یاد آگیا۔ واٹر فرنٹ سے واپسی پر ایک انڈین اسٹور سے ناشتے کا سامان لیا۔ اسٹور میں ایک خاتون دروازہ لاک کیے کائونٹر پر اکیلی ہی بیٹھی تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شام ڈھلتے ہی یہ علاقہ غیر محفوظ ہوجاتا ہے، حفاظتی تدابیر اختیار نہ کی جائیں، تو لٹیرے اسٹور لُوٹنے میں تامّل نہیں کرتے۔
وینکوور میں کچھ ہی عرصہ قبل وہاں کے رہائش پذیر مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک خُوب صُورت مسجد ’’مسجدِنُور‘‘ تعمیر کی ہے، جہاں بڑی تعداد میں مسلمان نماز ادا کرنے آتے ہیں۔ مسجد سے متصل ایک وسیع ایریا بھی پارکنگ کے لیے خریدا گیا ہے۔ مسجد کے دو حصّے ہیں، ایک میں مرد اور دوسرے میں خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔
مردانہ حصّے میں زیادہ رش ہونے کی وجہ سے آدھے گھنٹے کے وقفے سے دو بار نمازِ جمعہ کی جماعت کروائی جاتی ہے۔ ہم نے بھی یہاں جمعے کی نماز ادا کی۔ شام کو ہمارے داماد کے نانا اور اُن کے چھوٹے بھائی نے ہمارے لیے پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ان لوگوں نے جوانی ہی میں امریکا کی شہریت اختیار کررکھی ہے اور اب اور اُن کے بچّوں نے بڑے ہوکر مکمل طور پر گوروں کا رُوپ، رہن سہن اپنالیا۔ (جاری ہے)