• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گندم کا بحران جو عملی طور پر ابھی ختم نہیں ہوا، ایک اور بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے کیونکہ معاملے کی تحقیقات کیلئے محض کمیٹیوں کی تشکیل سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکتا۔سب سے زیادہ خسارے والے صوبے خیبر پختونخوا (کے پی) نے کسانوں سے 3900روپے فی 40کلو گرام کی امدادی قیمت پر تقریباً 0.3ملین ٹن کی گندم خریداری کا اعلان کیا ہے۔ صوبے کی کل ضرورت تقریباً 50 لاکھ ٹن گندم ہے اور اس نے تقریباً 20 لاکھ ایکڑ رقبے پر بمشکل 1.3ملین ٹن پیداوار حاصل کی۔ یہ کل ضرورت کا بمشکل 27فیصد ہے۔گندم امپورٹ اسکینڈل کی وجہ سے پورا ملک ہی بحران کی کیفیت سے گزر رہا ہے، حکومت وقت گندم کے درآمدی اسکینڈل کے اثرات سے نبرد آزما ہے جس نے نہ صرف اسکے خزانے کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اسکے کسانوں کی روزی روٹی اور اسکے شہریوں کی فلاح و بہبود کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ غیر ضروری درآمدات کے حالیہ انکشافات نے بدانتظامی اور ریگولیٹری کوتاہیوں کے ساتھ،زرعی شعبے کے اندر موجودہ چیلنجوں کو مزید بڑھا دیا ہے اور ملک میں غذائی تحفظ یعنی فوڈ سیکورٹی کو شدید بحران کا سامنا ہونے کے ساتھ ساتھ غیر یقینی کا سامنا بھی ہے۔تاہم، اس بحران کےذریعے ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے اور مستقبل کیلئے ایک سے زیادہ پائیدار راستے ترتیب دینے کا ایک موقع بھی ہے۔ کسی بھی قابل عمل حل کے مرکز میں احتساب کی ضرورت ہے۔ گندم کی منڈی کی بدانتظامی اور استحصال میں ملوث افراد کو شفاف انکوائری کے عمل کے ذریعے جوابدہ ہونا چاہیے۔ اس احتساب کا دائرہ سرکاری اہلکاروں سے بڑھ کر بے ضابطگیوں میں سہولت کاری میں ملوث نجی شعبے کے اداروں کو شامل کرنا چاہیے۔ اس گندم اسکینڈل میں ملوث افراد کی گرفتاری اور غیر جانبدار انتظامیہ کے ذریعے ہی ہم مستقبل میں ہونے والی بددیانتی کو روک سکتے ہیں اور اپنے اداروں پر عوام کا اعتماد کی بحالی شروع کر سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ گندم کی خریداری اور تقسیم کی پالیسیوں کا جامع جائزہ لینے کی بھی فوری ضرورت ہے۔حکومت کا سارا زور مقامی کسانوں کو بااختیار بنانے اور انکی پیداوار کیلئےمساوی معاوضے کو یقینی بنانے کی طرف ہونا چاہیے۔ اسمگلروں کے ذریعہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کو روکنےکیلئے حصولی کے طریقہ کار کو ہموار کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، مستقبل میں غیرضروری درآمدات کی ضرورت کو دور کرنے کیلئے اسٹرٹیجک ذخائر کا معقول طریقے سے انتظام کیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ ذخائر کے نام پر حکومتیں بیرون ملک سے مہنگی گندم خریدتی ہیں اور دکھ تو یہ ہے کہ یہ گندم پہلے افغانستان کے راستے وسط اشیاء اور دیگر ممالک پہنچتی ہے اور پھر یہ ہی گندم ہم یوکرین سے خرید لیتے ہیں کیا ہم اپنی گندم کو افغانستان اسمگل ہونے سے روک نہیں سکتے ؟دوسری طرف ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ کسانوں کو ہمیں جدید زرعی طریقوں کی طرف مائل کرنا ہوگا۔ کاشتکاری کے طریقوں کو جدید بنانا، آبپاشی کے نظام کو بڑھانااور ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو مضبوط بنانا پیداوار میں اضافہ اور فصل کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کر سکتا ہے۔ مزید برآں، فصلوں کے تنوع کے اقدامات کو فروغ دینے سے گندم پر ملک کے زیادہ انحصار کو کم کیا جا سکتا ہے اور طویل مدت میں زیادہ غذائی تحفظ کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ان اقدامات کے ساتھ، ادارہ جاتی اصلاحات ریگولیٹری نگرانی کو مضبوط بنانے اور مستقبل کے بحرانوں کو روکنے کیلئے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہو جس کیلئے صدرآصف علی زرداری کی قیادت میں یہ کام ہونا کوئی مشکل نہیں ۔ اس میں خوراک کی حفاظت اور زرعی انتظام کو یقینی بنانے کیلئے ذمہ دار اداروں کو خود احتسابی اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا، انہیں اپنے مینڈیٹ کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کیلئے مطلوبہ وسائل اور اختیار دینا ہوں گے اور ساتھ ان اداروں پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے نگرانی کی بھی ضرورت ہے۔آخر میں، جہاں گندم کے درآمدی اسکینڈل نے پاکستان کی معیشت اور زرعی منظر نامے کو کافی نقصان پہنچایا ہے، یہ بیک وقت تبدیلی لانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ احتساب کو ترجیح دے کر پالیسی اصلاحات کی تشکیل، زرعی شعبے میں سرمایہ کاری، شفافیت کو فروغ دینے اور ادارہ جاتی فریم ورک کو مضبوط بنا کر، پاکستان اپنے موجودہ زرعی مسائل سے نکل سکتا ہے اور آنے والی نسلوںکیلئے زیادہ خوراک کا انتظام کر سکتا ہے۔ ہر سطح پر اسٹیک ہولڈرز پر لازم ہے کہ وہ بحران کے اس لمحے کو بامعنی اور پائیدار پیش رفت کے محرک کے طور پر استعمال کریں۔

تازہ ترین