• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جہاں پر قانون سازی صحافیوں کو سبق سکھانے کیلئے کی جاتی ہو تو وہاں میں کس قسم کی قانون سازی کی توقع رکھوں ۔جو بخشش سے اقتدار میں آتے ہیںوہ قانون سازی عوامی مفاد میں نہیں کرتے۔ اس نالائق ،نااہل اورظالم حکومت نے اپنے جرائم کو چھپانے کیلئے صحافت کو جس زنجیر میں باندھنے کی کوشش کی ہے اس زنجیر کا کیا نام ہے ’’میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘۔جب آپ میڈیا کا گلا گھونٹتے ہیں تو آپ پاکستان کا گلا گھونٹتے ہیں۔جتنے برے وقت سے آج صحافی گزر رہے ہیں،میڈیا گزر رہا ہے ،میرا نہیں خیال کہ اتنی پابندیاں ڈکٹیٹر شپ کے علاوہ کبھی لگی ہوں گی۔ریگولیٹ میڈیا کو کیا کرنا ہے۔میںتو میڈیا ریگولیشن پہ بالکل یقین نہیں رکھتی۔جہاں جہاں آپ کو میری ضرورت پڑے گی ،وہاں آپ مجھے ،نوازشریف صاحب کو اور میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ مسلم لیگ(ن)کو اپنے ساتھ پائیں گے۔اور کل کو اگر مسلم لیگ(ن)اقتدار میں آبھی جاتی ہے ،یہ وعدے میں اس دن بھی یاد رکھوں گی۔‘‘

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ متذکرہ بالا خیالات تحریک انصاف کے کسی رہنما کی فکر پر مبنی ہوسکتے ہیں یا پھر کسی صحافی کی یاوہ گوئی کا شاہکار ہوں گے مگر یہ وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ کی اس تقریر کا اقتباس ہے جو انہوں نے 17نومبر 2021ء کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔جب پنجاب حکومت نے نہایت عجلت میں ہتک عزت کا متنازع ترین قانون منظور کروایا تو نکیتا خورشیف کا قول یاد آیا کہ’’ سیاستدان پوری دنیا میں ایک جیسے ہوتے ہیں ،یہ وہاں بھی پل بنانے کا وعدہ کرلیتے ہیں جہاں کوئی دریا ہی نہیں ہوتا۔‘‘

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ لوگ بدل جاتے ہیں ،نہیں جناب! لوگ بدل نہیں جاتے بے نقاب ہوجاتے ہیں۔نتھائیل ماتھورن نے کہا تھا ’’کوئی بھی شخص بہت دیر تک اپنے چہرے پر کوئی چہرہ نہیں سجا سکتا اور جب وہ بے نقاب ہوتا ہے تو لوگ متذبذب ہو جاتے ہیں کہ اس کا کون سا چہرہ اصلی ہے‘‘ابراہم لنکن اس بات کو کچھ یوں آگے بڑھاتے ہیں کہ کسی کے کردار کو بے نقاب کرنے کا یقینی طریقہ اس سے دشمنی پید اکرنا نہیں بلکہ اسے بااختیار بنانا ہے،یعنی کسی کو جانچنا مقصود ہوتو اختیار اور اقتدار اس کے سپرد کر دیں پھر دیکھیں اس کا باطن کیسے آشکار ہوتا ہے۔

ہتک عزت کے قانون پر تنقید کی جائے تو محبان مسلم لیگ فوری طور پر فتویٰ صادر کردیتے ہیں کہ یہ شخص فیک نیوز کا طرفدار اور افواہ سازی کا خواہاں ہے ۔فوراً یہ سوال داغ دیا جاتا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر یونہی لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی رہیں؟قانون سازی دو دھاری تلوار ہوا کرتی ہے جس میں کوئی معمولی سقم رہ جائے یا کسی قسم کا ابہام پایا جائے تو اسے ظالم کے بجائے مظلوم کے خلاف باآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اس لئے کوئی بھی قانون بناتے وقت اس کے مندرجات پر ہر پہلو سے غور کیا جاتا ہے۔مگر میں پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مریم نواز صاحبہ کی حکومت نے جلد بازی میں ہتک عزت کا جو قانون بنا دیا ہے اس کے نتیجے میں سگ بدستور آزاد رہیں گے اور سنگ مقید ۔جو گڑھا سیاسی مخالفین کے لئے کھودنے کی کوشش کی گئی ہے ،اس کی زد میں آپ کے وہی رفقا ء و کارکن ہی آئیں گے جو ابھی بڑھ چڑھ کر اس قانون کا دفاع کر رہے ہیں۔

ہتک عزت قانون 2024ء کے مسودے کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جسے لگے کہ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے ،وہ ہتک عزت کرنے والے کے خلاف کارروائی کا آغاز کرسکتا ہے۔یعنی شکایت گزار کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس کی ساکھ کو حقیقی طور پر نقصان پہنچا ہے یا نہیں۔یہ فیصلہ اس نے خود کرنا ہے کہ اس کی ہتک ہوئی ہے یا نہیں۔مثال کے طور پرچیف جسٹس ثاقب نثار نے لاہور میںزمینوں پر قبضہ کرنے کے الزام میں ایک شخص کو طلب کیا تھا جو منشا بم کے نام سے مشہور ہے ،اگر وہ چاہے تو اس بات پر ہتک عزت کا دعویٰ کردے کہ اسے منشا بم کیوں لکھا گیا۔ایک پیر صاحب جوپھونک مار کر مریضوں کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں اور بابا شف شف سرکار کہلاتے ہیں۔اگر وہ چاہیں تو اس بات پر کسی کے خلاف کارروائی کرنے کی درخواست دے سکتے ہیں کہ شف شف سرکار کہہ کر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔بشریٰ بی بی کو مسلم لیگ(ن)کے کارکن جادوگرنی کہتے ہیں اور نرم الفاظ میں پیرنی کہا جاتا ہے تو یہ ہتک عزت قانون کے تحت قابل گرفت ہے۔کچھ مثالیں ایسی ہیں جو میں نقل کفر ،کفر نہ باشد کا دفاع بروئے کار لاتے ہوئے بھی بیان نہیں کرسکتا۔ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ جس کے خلاف درخواست آئے گی ،ٹرائل مکمل ہونے سے پہلے ہی اسے 30لاکھ روپے ٹریبونل میں جمع کروانا ہوں گے۔اصولاً تو یہ رقم شکایت کرنے والے سے وصول کی جانی چاہئے تاکہ اگر یہ الزام غلط ثابت ہو تو ازالے کے طور پر فریق ثانی کو ادا کی جاسکے ۔جب آپ عدالت میں دعویٰ دائر کرتے ہیں کہ فلاں شخص جزوی رقم لینے کے بعد زمین ،گھر یا پلاٹ دینے سے انکار ی ہے تو عدالت درخواست گزار کو کہتی ہے کہ مقدمہ کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے پوری رقم عدالت میں جمع کروائیں ۔مگرہتک عزت کے اس قانون میں مدعی کے بجائے ملزم سے زرضمانت طلب کیا جائے گا۔

ہتک عزت کے اس قانون میں اور بھی کئی مضحکہ خیز شقیں موجود ہیں ۔لیکن اصل بات قانون پر عملدرآمد کی ہے ۔ہتک عزت کا قانون تو پہلے سے موجود ہے۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ 499 کے مطابق ’’اگر کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص (زندہ یا مردہ)، ادارے یا کمپنی کی عزت، معاشرے میں مقام، جائیداد، ساکھ کے بارے میں کوئی ایسی بات یا عمل جو تحریری، اشارۃً، زبانی یا کسی بھی دوسرے طریقے سے نقصان پہنچاتا ہے یا نقصان پہنچانے کی نیت سے کرتا ہے ہتک عزت کے قانون کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘ اگرمحض قانون بنانے سے بہتری لائی جاسکتی تو 1973ء کے آئین میں آرٹیکل 6شامل ہونے کے بعد کسی فوجی ڈکٹیٹر کو آئین اور جمہوریت پر شب خون مارنے کی جرات نہ ہوتی۔

تازہ ترین