• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ امر قابلِ توجّہ ہے کہ امریکا میں بیش تر لوگ ویک اینڈ پر گھروں میں دُبکے رہنے کے بجائے سیروتفریح کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں یہاں آئے ایک ہفتے سے زائد ہوچکا تھا اور بہت سے مقامات کی سیّاحت بھی کرچکے تھے۔23ستمبر بروز ہفتہ، مشہور جھیل ٹریلیم لیک، ماؤنٹ ہوڈ، آرگین اسٹیٹ گئے، جب کہ 24ستمبر 2023ء بروز اتوار کو کینبے (Canby)، اوریگن اسٹیٹ کے شہر پورٹ لینڈ، گریشم اور کینبے کے انتہائی پُرفضا علاقوں کی سیر ہمیں تادیر یاد رہے گی۔

تمام تر سیّاحتی سہولتوں سے آراستہ ان علاقوں سے گزرنے کے لیے دریائے کولمبیا عبور کرنا پڑتا ہے۔ دریا کے ایک طرف واشنگٹن اسٹیٹ اور دوسری طرف اوریگن اسٹیٹ ہے۔یہاں بارش کے موسم میں کئی کئی روز تک متواتر بارش ہوتی ہے، بلکہ بعض اوقات تو یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک محیط ہوتا ہے۔ پورٹ لینڈ شہر تو ہمیں بے حد پسند آیا، یہاں کی خُوب صُورتی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں کی ایک مشہور دکان کارٹرز (Carters) سے بیگم نے اپنی پوتیوں کے لیے بھی خُوب شاپنگ کی۔

پورٹ لینڈ شہر سے گزرتے ہوئے سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بڑی تعداد میں ٹینٹ لگے نظر آئے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ نشے کے عادی مجرموں کو عام طور پر شیلٹر ہاؤسز میں رکھا جاتا ہے، لیکن اگر جگہ کم پڑ جائے تو انہیں سڑکوں کے کنارے فٹ ہاتھس پر ٹینٹ لگا کر رہائش مہیّا کردی جاتی ہے۔ 

اس قسم کے لوگ عرفِ عام میں ’’ہوم لیس‘‘ کہلاتے ہیں، جب کہ ان افراد کے لیے کھانے پینے کا انتظام حکومت کرتی ہے۔ اس ضمن میں اشیائے خورونوش سے لدے ’’Meal on Wheel‘‘نامی ٹرک مخصوص مقامات پر کھڑے کردیئے جاتے ہیں، جہاں سے یہ ہوم لیس افراد کھانا لے کر اپنے پیٹ کا دوزخ بَھرتے ہیں۔

چھوٹے جہاز پر دریائے کولمبیا کی سیر

آج کئی دنوں کی رم جھم کے بعد مطلع صاف تھا اور سورج چمک رہا تھا، جب کہ ہوا میں خنکی موجود تھی، تو موسم سے انجوائے کرنے کے لیےصبح نو بجے فرینچ پریری گارڈن (French Prairie Garden)، سینٹ پول (Saint Paul)، اوریگن (Oregon)چلے گئے۔ یہ شہر سے خاصا دُور ایک دیہی علاقہ ہے۔ 

گارڈن میں خُوب گہما گہمی تھی اور سیّاحوں کی ایک بڑی تعداد فیملیز کے ساتھ دیہاتی ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے آئی ہوئی تھی۔ حقیقتاً گارڈن کا ماحول بالکل گاؤں جیسا ہے، جس کے مرکزی دروازے پر کیفے کے علاوہ علاقائی تازہ پھلوں، سبزیوں، اناج اور پھولوں کی مارکیٹ ہے، جہاں سے لوگ اپنی مرضی کی اشیاء ضرورت کے مطابق خریدتے ہیں۔ کچھ لوگ چائے، کافی یا آئس کریم سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ 

ہم نے فارم (گارڈن) کے مرکزی دروازے سے ٹکٹ خریدے اور اندر داخل ہو گئے۔ گارڈن میں لکڑیوں کی مختلف باڑ میں بھیڑ، بکریاں، دنبے، گائے اور مرغیاں وغیرہ رکھی گئی ہیں۔ قریب ہی بچّوں کے جُھولے اور دل چسپی کے دیگر لوازمات بھی موجود تھے۔ گارڈن میں سورج مُکھی کے کئی ایکڑ پر محیط کھیت کٹائی کے لیے تیار کھڑے تھے۔ پھر گارڈن کو جاتے ہوئے راستے کے دونوں طرف موجود فصلیں، سبزیوں کے کھیت، انگور اور رس بَھری کی بیلیں اور باغات ماحول کو خوب سحر انگیز بناتے ہیں۔ 

واشنگٹن اور اوریگن اسٹیٹ کے ان علاقوں کی سڑکوں کے اطراف موجود صنوبر کے فلک بوس درختوں کی گہری سبز رنگت بدلنا شروع ہوچکی تھی۔ پتا چلا کہ یہ جو درختوں کے پتّے زردی مائل ہونا شروع ہورہے ہیں، سردی میں خشک ہو کر گر جائیں گے، یعنی موسمِ خزاں سب پتّے کھا جائے گا اور مکمل موسمِ خزاں میں آہستہ آہستہ رنگت بدلتے پتّوں کے رنگ، ایک دل کش کہکشاں کا رُوپ دھار لیں گے۔

امریکا کے ہر بڑے شہر کے گرد و نواح میں چھوٹے طیاروں میں سیّاحوں کو دریائے کولمبیا کے اوپر پرواز سے لطف اندوز کروانے کے کلب بنے ہوئے ہیں۔ ٹراؤٹ ڈیل (Troutdale)، اوریگن میں بھی ایک ایسا ہی کلب ہے ،جہاں آن لائن بکنگ کے بعد مقررہ وقت پر طیارہ اور پائلٹ تیار ملتے ہیں۔ ہم بھی آن لائن بکنگ کے بعد جب اینوی ایڈونچر (Envi Adventure) کمپنی پہنچے، تو اسٹاف نے بڑھ کر خوش آمدید کہا اورضروری کاغذی کارروائی کے بعد طیارے میں بٹھادیا۔ 

ہمارے بیٹھتے ہی طیارہ اسٹارٹ ہو کر رن وَے پر رینگنے لگا اورچند ہی سیکنڈز میں دریائے کولمبیا کے اوپر پرواز کرتا ہوا تقریباً پانچ، چھے ہزار کی بلندی تک پہنچ گیا۔ دریا کے اوپر پرواز کرتے طیارے سے سرسبز پہاڑ، صنوبر کے درخت اور نالیوں کی شکل میں پانی کے چشمے بہتے ہوئے صاف نظر آرہے تھے، جب کہ دوسری طرف دریا کے کنارے سڑک پررواں دواں گاڑیاں چھوٹے چھوٹے کھلونوں کی مانند دکھائی دے رہی تھیں۔ 

چھوٹے طیارے میں دریائے کولمبیا کے اوپر پرواز میں ہمیں تو بہت لُطف آیا۔ 40منٹ کے دورانیے کے اس سفر کے بعد زمین پر اُترے تو شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا، لہٰذا یہاں سے سیدھے گھر کی راہ لی کہ دوسرے روز اتوار، یکم اکتوبر کو پورٹ لینڈ، اوریگن کے کمیونٹی ہال میں مقامی پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے انڈس اسپتال، کراچی کے لیے سالانہ فنڈ ریزنگ شو کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہم بھی وقتِ مقررہ پر شو میں پہنچ گئے۔ مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، جن کا استقبال پروگرام کے منتظمین خندہ پیشانی سے کر رہے تھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے تمام میزیں مہمانوں سے کھچا کھچ بھر گئیں۔ چھے بجے انواع و اقسام کے کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی، جس کے بعد تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ تلاوت کے بعد پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے انڈس اسپتال میں نادار، ضرورت مند مریضوں کے مفت علاج معالجے کے حوالے سے پیش کی جانے والی سہولتوں اور دیگر خدمات سے تفصیلاً آگاہ کیا گیا۔ 

واضح رہے کہ یہاں کے مقامی اوورسیز پاکستانی اپنی مدد آپ کے تحت انڈس اسپتال کے لیے ہر سال پچاس ہزار ڈالرز کی خطیر رقم جمع کرتے ہیں۔پروگرام کی مہمانِ خصوصی، پاکستان کی معروف اداکارہ، بشریٰ انصاری اور اُن کی چھوٹی بہن، اسماء عباس تھیں، جنھوں نے مزے دارچٹکلوں، خاکوں اور پیروڈی سے محفل کو زعفران زار اور خُوب پُررونق بنایا۔ یہ شان دار محفل رات نو بجے اختتام پذیر ہوئی۔

وسٹا ہاؤس اور بونیویل ڈیم

پچھلے تین، چار دنوں سے مطلع بالکل صاف تھا، چمک دار دھوپ بڑی سہانی لگ رہی تھی، تو ہم نے وسٹا ہاؤس (vista house) اور بونیویل ڈیم (Bonneville Dam) دیکھنے کا پروگرام بنالیا اور س کے لیے ظہر کی نماز کے بعد محوِ سفر ہوئے۔ پہلے وسٹا ہاؤس پہنچے، جو کافی اونچائی پر واقع ہے، لیکن وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ تیز ہواؤں کی وجہ سے وسٹا ہاؤس بند ہے، لہٰذااُس علاقے کی تاریخ اور معلومات وغیرہ حاصل کرنے سے قاصر رہے۔

واضح رہے، اُس وقت اُس مقام پرہوا 80کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتارسے چل رہی تھی اور سیّاحوں کی بیش تر ٹولیاں اُس سے نبردآزما تھیں۔ وسٹا ہائوس سے شناسائی نہ ہوسکی، تو بونیویل ڈیم کی جانب گام زن ہوگئے۔ بونیویل ڈیم پہنچے، تو سیکیوریٹی چیک پوسٹ پر گاڑی کی تلاشی کے بعد آگے جانے کی اجازت ملی۔ 

اس مقام پر دریائے کولمبیا تین حصّوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور ہر حصّے پر ٹربائنز کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اسی مقام پر ایک میوزیم بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ بونیویل ڈیم کے بجلی گھر سے حاصل کردہ بجلی واشنگٹن، اوریگن، مونٹینا اور ائی ڈاہو (Idaho) اسٹیٹ کے مخصوص علاقوں کو سپلائی کی جاتی ہے۔

دریائے کولمبیا پر کشتی رانی کا ایک منظر
دریائے کولمبیا پر کشتی رانی کا ایک منظر

سیاٹل کی سیر

ایک روز واشنگٹن اسٹیٹ کے سب سے بڑے شہر، سیاٹل کی سیر کے لیےصبح آٹھ بجے ہی نکل پڑے اور ساڑھے دس بجے وہاں پہنچ گئے۔ امریکا آمد پر ہم اسی شہر کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اُترے تھے، لیکن ائرپورٹ سے سیدھے رجفیلڈ آگئے تھے۔ یہاں کا خُوب صُورت’’گلاس گارڈن‘‘ منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ گارڈن میں شیشے سے بنی سیکڑوں اشیاء انتہائی دیدہ زیب ہیں۔ یہاں دنیا بھر کے مختلف ڈیزائنز میں بے شمار فن پارے بکھرے پڑے ہیں، جب کہ اس شہر کی خاص پہچان یہاں کا ’’سیاٹل ٹاور‘‘ ہے، جو پینتالیس منزلوں پر مشتمل اور ڈگڈگی کی شکل سے ملتا جلتا ہے۔ 

ٹاور پر جانے کے لیے زگ زیگ قطار میں چلتے ہوئے لفٹ تک پہنچتے ہیں، جو سیکنڈز میں آخری منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ آخری منزل پر گول کمرے میں قائم ریسٹورنٹ کے چاروں طرف سات، آٹھ فٹ کی راہ داری ہے، جس کی بیرونی دیواروں کو موٹے شیشوں سے ڈھانپا گیا ہے۔ 

سیّاح اسی راہ داری سے چاروں طرف گھوم کر شہر کا نظارہ کرتے ہیں۔ ٹاور کے ایک فلور کا کچھ حصّہ شیشے کا بنا ہوا ہے، جو کہ اپنے محور کے چاروں طرف گھومتا ہے۔ اس گھومتے ہوئے شیشے پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے سے مزہ دوبالا ہوجاتا ہے، مگر شدید چکّر بھی آنے لگتے ہیں۔ 

یہاں ہمہ وقت سیّاحوں کا رش رہتا ہے۔ ہم ٹاور کے اوپر سے شہر، گھومتے شیشے کے فلور اور سمندر کا نظارہ کر کے لفٹ کے ذریعے تقریباًسوا گھنٹے میں واپس نیچے زمین پر اُتر آئے۔ سامنے پیسیفک اوشین بندرگاہ پر دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز (کروز) جو کہ کئی منازل، کافی لمبائی اور خاطر خواہ چوڑائی پر محیط ہے، لنگر انداز تھا۔ 

اس میں شوقین سیّاح بحری سفر کے مزے لُوٹتے ہیں اور کئی کئی دن سمندر کے آغوش اور مشکل ترین حالات میں بھی خوشی سے سفر کرتے ہیں۔ بحری جہاز تک جانا ممکن نہیں تھا، لہٰذا اُس روز کی سیر وہیں ختم کر کے اور سیاٹل کو خیرباد کہہ کر واپس گھر کی طرف لوٹ آئے۔

پمپکن نمائشی فارم

پورٹ لینڈ کے نواحی (دیہی) علاقے میں سووی آئی لینڈ (Sauvie Island) پر واقع پمپکن نمائشی فارم اور وہاں کا جنگلی تفریحی پارک بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دریائے ویلامٹ کا سووی پل (Sauvie Bridge) عبور کرتے ہی پمپکن فارم کی طرف گام زن سیّاحوں کی گاڑیوں کی قطاریں نظر آئیں، تو ہم بھی اُسی قطار کا حصّہ بن گئے اور ناگن کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑک پر اپنا سفر جاری رکھا۔ 

تھوڑی ہی دیر بعد بائیں طرف گاڑیوں کے پیچھے پیچھے پمپکن فارم کی طرف مُڑ گئے، جہاں پارکنگ لاٹ میں درجنوں رضاکار، سیّاحوں کی گاڑیاں پارک کروا رہے تھے۔ ہم، گاڑی پارک کر کے پیدل راہ داری سے سیّاحوں کے جھرمٹ میں پمپکن مارکیٹ کی طرف چل دیئے۔ دنیا جہاں کے سیّاح، مرد و خواتین اپنے بچّوں کے ساتھ پمپکن مارکیٹ میں سجی دکانوں سے ہر سائز کے چھوٹے، بڑے پمپکن خرید رہے تھے۔ دراصل پمپکنز، پیٹھے یا حلوا کدو کو کہتے ہیں، جو گورے ہیلووین ڈے کے لیے (اکتوبر کے آخری ویک) اپنے اپنے گھروں کے سامنے خُوب محنت سے سجاتے ہیں۔ (جاری ہے)